کوئی دن اور

یہ تحریر 939 مرتبہ دیکھی گئی

ایک نامعلوم سی دستک تھی جس نے اس کے سارے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ رات کے تیسرے پہر اسے لگا کہ اس کے ذہن میں کچھ لفظ بڑے واضح انداز میں چمکے ہیں۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس سرد رات میں وہ اپنے کمبل سے باہر نکلا۔ اس کی بیوی بے خبر سو رہی تھی اسے لگا تھا جیسے گھر کے دروازے پر کسی نے دستک دی ہے۔ وہ بے اختیار اپنے کمرے سے باہر نکلا۔ پہلی منزل پر واقع اس کے گھر کے دروازے پر کوئی نہیں تھا۔ اس نے بیرونی بالکونی سے گلی میں جھانکا گلی سنسان تھی اور مدھم روشنی میں کسی ذی نفس کا پتہ نہیں دے رہی تھی۔ اس کے بائیں طرف سرکاری دفتر کے احاطے پر نگاہ ڈالی۔ اس کی مستقل ویرانی اپنے جوبن پر تھی۔ فضا میں موجود خشکی اور ہلکی ہلکی دھند افسردگی اور اداسی کی کیفیت کو گہرا کر رہے تھے۔
یہ اس کا وہم نہیں تا۔ کوئی تھا جس نے رات کے اس وقت دستک دی تھی۔ کوئی جو بہت دور سے اسے خبر دینے آیا تھا۔ جو رات کے اس پہر جب اس وسیع و عریض شہر کا بڑا حصہ خواب کے مزے لوٹ رہا تھا۔ وہ آیا بغیر یہ جانے کہ اسے جس کو خبر پہنچانی ہے وہ کہاں رہتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس موجود خبر اسے خود راست دروازے تک پہنچادے گی۔ بغیر کسی سے پوچھے۔ معلوم کئے وہ بس دروازے پر دستک دے گا۔ اور وہ جس کے لیے یہ خبر ہے رات کے پہر اٹھ کر اس خبر کو خود وصول کرے گا کہ انیس سال کی رفاقت میں اتنا اثر تو ہوتا ہے۔
”وہ گزر گئی۔“تین لفظ تھے جو اس کی ذہن کی سکرین پر روشن ہوئے تھے۔ اسے لگا کہ بغیر کسی واسطے کے ایک میل میلوں کا فاصلہ طے کرکے بالکل درست ان بکس میں پہنچ گئی تھی۔ یہ لفظ جب اس کے ذہن کی سکرین پر روشن ہوئے تو اسے ایک لمحے کے لیے لگا تھا کہ اس کے دل کی دھڑکن ٹھہراتی ہے۔ ایک بیٹ میں ہوئی ہے۔ اس کے پاؤ کے تلوؤں سے سر کی جلد تک سنسنی دوڑ گئی ہے۔ وہ پریشان بالکل نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر کچھ ہونا ہوتا تو وہ اس وقت ہوچکا ہوتا، جب میل وصول ہوئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی گرم فضا میں واپس آیا۔ بستر پر لیٹ کر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
وہ سکون سے آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ لمبے سانس لے رہا تھا۔ اس وقت اگر اس کی بیوی اٹھ جاتی تو اسے لگتا کہ وہ ہمیشہ کی طرح گہری نیند سو رہا ہے۔ اس کے اور تیس سال پہلے کی یادیں یلغار کی رہی تھی۔ وہ پہلی نظر جب اس نے دیکھا تھا کہ آج موسم کا رنگ جامنی ہے ایک موہنی سی لڑکی اپنی کلاس فیلو کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تھی اور وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ڈگمگا گیا تھا۔ انگریزی ادب کی کلاس میں یہ پہلا ہفتہ تھا وہ پندرہ دن بعد اس کلاس میں آیا تھا کہ اس کا نام آخری میرٹ لسٹ میں لکھا گیا تھا جبکہ وہ پہلی فہرست میں شامل رہنے والوں میں تھی۔
اس کے ذہن کی سکرین پر واقعات فلم کی طرح چلتے رہے۔ اب اذان ہوئی۔ کب رات کی سیاہی دن کے اجالے میں بدلی کب اس کی بیوی اس کے پہلو سے اٹھی۔ کب بچے ایک ایک کرکے سکول، کالج گئے۔ وہ تو ایک گہری لمبی نیند میں تھا۔ جس سے جاگنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ تو اس وقت چونکا جب اس کے کانوں میں آواز آئی۔ کافی وقت ہوگیا ہے آج یونیورسٹی جانے کا ارادہ نہیں۔ یونیورسٹی تو ضرور جانا ہے پروفیسر کا لیکچر تو بہت بور ہے۔ مگر وہاں جا کر دیکھنا ہے کہ آج موسم کا کیا رنگ ہے۔ آج آپ کا لیکچر کتنے بجے ہے۔ وہ ایک دم ماضی سے حال میں آگیا۔ ہاں میرا لیکچر وہ اب اپنی بیوی کو کیسے بتاتا کہ آج اسے یونیورسٹی تو جانا ہے مگر وہاں نہیں جہاں وہ پڑھاتا ہے بلکہ وہاں جہاں سے اسے نکلے برسوں بیت گئے ہیں۔
گھر سے نکل کر کچھ دیر تک وہ اسی راستے پر چلتا ہے جس پر روز سفر کرتا تھا۔ پھر اس نے اپنی کار کا رخ شہر کے مرکز کی طرف موڑ دیا۔ گاڑی کو مناسب جگہ پارک کرکے وہ ایک بڑے تجارتی مرکز کی طرف چلاجو اس وقت قدرے خالی تھا۔ پھر وہ بائیں طرف کی سڑک پر مڑا اور کوئی سو گز چلا ہوگا کہ اسے یونیورسٹی کالج کا مرکزی دروازہ دکھائی دیا۔ وہ دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر تھا کہ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ اسے بھی خبر ہوگئی ہے اس کے سامنے یوسف اپنے لمبے قد کے ساتھ قدرے جھکے ہوئے کھڑا تھا۔ اس کے ساکت، جامد وجود سے لگتا تھا کہ بہت سے سالوں سے وہ اسی جگہ کھڑا ہے، کہیں بھی نہیں گیا تھا ایک لمحے کے لیے اسے لگا کہ کیا اس نے بھی اسے دیکھ کر ایسا ہی نہیں سوچا ہوگا۔
وہ دونوں چلتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔ پست قد بلند قامت آدمی کے مقابل تھا۔ دونوں کے درمیان فاصلہ معدوم ہوتا جا رہا تھا اور پھر اسے لگا کہ وہ دو نہیں، ایک ہی وجود ہے۔ یوسف اور جہاں زیب، جہاں زیب اور یوسف، یوسف جہاں زیب، یا پھر جہاں زیب یوسف۔
یونیورسٹی کالج گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے کسی نے نہیں روکا۔ وہ آہستہ آہستہ قدموں سے عمارت کے مرکزی دروازے کی طرف چلا جس سے دائیں بائیں سے دو سیڑھیاں اوپر جا کر ایک ہو جاتی تھیں اور کچھ پہلی منزل پر موجود کلاس روم میں آنے جانے والے طلباء کو ملاتی اور جدا کرتی تھی وہ ایک لمحے کے لیے رکا۔ دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے کیا فرق پڑتا ہے اوپر جا کر تو یہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر دائیں جانب بنے کمرے کی جانب وہ چلا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور کمرے میں دھری کرسیاں ابھی خالی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا اسی مخصوص کرسی پر بیٹھ گیا جہاں بیٹھ کر کاتکیوں سے وہ آتے جاتے اپنے ساتھیوں اور دیکھا کرتا تھا مگر صرف ایک چہرہ تھا جو اس کے دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کرتا تھا۔
جہاں زیب کا افسانہ کے ساتھ تعلق تھا بھی اور نہیں بھی۔ بات دراصل یہ تھی کہ اسے کبھی سلیقے سے اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہ آیا۔ وہ جنسپیو سا لڑکا تھا جو انگریزی ادب کا طالب علم ہونے کے باوجود اس بات سے واقف نہیں تھا کہ زندہ گوشت، پوست کی لڑکی سے اظہار محبت کیسے کیا جاتا ہے اور اس کی باتوں کو کیسے سمجھا جاتا ہے۔ لیکن محبت کی تو اپنی زبان ہوتی ہے جیسے سیکھنے کے لیے جاننے کے لیے کسی تجربے یا استاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دونوں رفتہ رفتہ یہ زبان سکھ گئے۔ گھنٹوں اکٹھے وقت گزارنے کے باوجود انھیں لگتا کہ وہ کبھی کے ایک دوسرے سے نہیں ملے۔ رفتہ رفتہ یونیورسٹی سے باہر بھی ملاقات ہونے لگی۔ دونوں پیروں ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے رہتے۔ لڑائیاں کرتے، ایک دوسرے کو پاگلوں کی طرح چومتے۔ ہر دم اپنے آپ کو ایک دوسرے کی ذات میں گم کردینے میں لگے رہتے۔
وہ جو کسی دوسرے شہر سے پڑھنے آئی تھی جب اپنے گھر جانے لگتی کہ وہ اس پہ شہر پورا سنسان لگتا۔ وہ رات کی ٹربن اس کے ساتھ جانا۔ دونوں ساری رات اکھٹا سفر کرتے۔ صبح جب وہ اپنے سٹیشن پر اترتی تو وہ بھی اسے دور تک جاتے دیکھتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی نہیں۔ بس ایک یوسف تھا جو رخسانہ کے دل میں جگہ بنانے کے چکر میں رہتا۔ اگر وہ ایک لمحاے کے لیے بھی رک کر اس سے بات کرلیتی تو وہ شدید جلن محسوس کرتا۔ اسے لگتا کہ وہ محبت تو یوسف سے کرتی ہے اور اس کے ساتھ تو تعلق بس ایسی ہی ہے۔ ایسے میں اس پر شدید جھنجھلاہٹ طاری ہو جاتی۔ وہ نجانے کیا کیا بک جاتا اور پھر وضاحتیں اور معافیاں مانگتے نہ بنتی رخسانہ جہاں زیب کو بڑی فراخ دلی سے معاف کردیتی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ ایسا وہ اپنی محبت سے مجبور ہو کر کرتا ہے یا اس کے دل کے گوشے میں کسی جگہ یہ موجود تھا کہ ایک وقت آئے گا جب ان سب باتوں کا ادھار وہ چکادے گی۔
بس ایک بار وہ اپنے گھر گئی تو اس کی واپسی ممکن نہ ہوسکی۔ گھر والوں کو شاید اس کی محبت کا علم ہوگیا تھا کہ یا کوئی دوسری بات دن گزرتے گئے اور پھر اس کی واپسی عین امتحانات کے موسم میں ہوئی جہاں زیب نے رخسانہ سے ملنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ ہر بار کنی کاٹ جاتی۔ اس نے بڑی مشکل سے اس سے یونیورسٹی ہاسٹل میں فون پر رابطہ کیا۔ دوسری طرف کا خشک لہجہ اسے بتا رہا تھا کہ وہاں کوئی اور ہے۔ بار بار پوچھنے پر اس نے صرف اتنا کہا کہ اسے اپنے ماں باپ کی عزت بڑی پیاری ہے اور اس ے لیے وہ سب کچھ چھوڑ سکتی ہے۔ تب غصے کی شدید لہر جہاں زیب کے وجود میں تیر گئی۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا بکوس نکل گئی۔ دوسری طرف خاموشی نہ ٹوٹی وہ بولتا رہا اور اس نے اپنا آخری سکہ بھی بوتھ میں لگے ٹیلی فون میں ڈال دیا۔ میرے پاس سکے ختم ہوگئے ہیں میری کسی بات کا جواب تو دو۔ تمھارے پاس سکے ہیں ہی کتنے۔ ایک آواز نے اس کے ہاتھ کو بے جان کردیا۔ دوسری طرف ریسور رکھ دیا گیا تھا۔
تب اس پر ایک جنون سوار ہوا، وہ ایک مختصر بیگ کے ساتھ چل پڑا۔ نجانے کیا کہاں گھومتے خود کو کھوجتے اس نے رفتہ رفتہ خود کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوشش کی۔ وہ اکثر سفر پر نکلتا اور ہر سفر پر سوچتا کہ اگلے سٹیشن پر وہ اسے نظر آئے۔ کسی بس کے رکنے کے اڈے پر وہ مخالف سمت میں جاتی بس کی مسافر تب ایک دن اچانک رات کو سوتے سوتے وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔ اچھا تو وہ بیاہی گئی۔ اگلے دن صبح وہ اس کے شہر کی جانب روانہ ہوگیا۔ جہاں ایک مشترکہ دوست اس کی محبت کے قصے سے واقف تھا۔
اس نے عابد کے دروازے پر دستک دی اور بچے کو اپنا نام بتایا تو تھوڑا حیران حیران عابد اسے لینے دروازے تک آتا۔ جہاں زیب نے بتایا کہ وہ کسی ضروری سرکاری کام سے کل آیا تھا۔ آج واپس جانا ہے۔ سوچا تم سے ملتا چلوں۔ اچھا تم کل شہر میں موجود تھے۔ اگر میں خود شادی میں شریک نہ ہوا ہوتا تو یہی سمجھتا کہ تم اسے رخصت کرنے آئے ہو۔ کیسے اپنی آواز کے کھوکھلے پن نے جہاں زیب کو چونکا دیا۔ عابد نے بھی بات کی مزید وضاحت نہیں کی۔
جہاں زیب نے رخسانہ کو تلاش کیا۔ صائمہ، تخمینہ، غزالہ، ناہید، روبینہ، گل، عائشہ، فرزانہ، فائزہ، مریم میں لیکن ہر بار اسے لگتا کہ اس کا دوھرا پن بڑھتا جاتا ہے۔ ہر تعلق اس کے وجود کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ تب اس نے اس سب سے ہاتھ کھینچا اور سب باتوں سے لاتعلق ہو کر ایک ا یسی زندگی میں منجمد ہوگیا جو کبھی وہ گزارنے نہیں چاہتا۔