پانی بہتا رہے گا

یہ تحریر 730 مرتبہ دیکھی گئی

رات کی تاریکی میں ذرا فاصلے سے آتی بہتے پانی کی آواز، پانی کی آواز جو پتھروں سے ٹکرا کر ایک شور میں ڈھل رہی تھی۔ رات کے درمیانے پہر لمبی مسافت کے بعد وہ ایک فرد کے لیے لگائے ٹینٹ میں لیٹ کر اپنے من پسند شاعر کی شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نیند کے آنے کا منتظر تھا۔ آسمان سے برستی بارش کے قطرے ٹینٹ پر گرنے کی آواز پیدا کرتے ہوئے ادھر ادھر کی زمین میں جذب ہوتے جا رہے تھے۔ اس نے اپنے اردگرد نگاہ ڈالی پانی ٹینٹ کے اندر نہیں رس رہا تھا۔ رات کو اگر پانی کے قطرے اندر ٹپکنے لگے تو چلو کوئی بات نہیں زندگی میں ایسا بھی سہی۔ مگر ایک خیال نے اسے بے چین کردیا۔ اگر بارش کے باعث دریا میں پانی بہت زیادہ ہو گیا اور یہ دریا کے کناروں سے باہر نکل کر اردگرد کی چیزوں کو بہاتے ہوئے لے گیا تو وہ ایک دم گھبرا کر اٹھ بیٹھا مگر دوسرے خیال نے اسے قدرے مطمئن کردیا۔ اس نے سوچا کہ وہ اکیلا تو ٹینٹ میں نہیں چاروں طرف خیموں اور عارضی گھروں کا شہر آباد ہے۔ بہنے والا وہ اکیلا نہیں ہوگا۔ چلو اگر ایسا ہوا تو بغیر ٹکٹ وہ نیچے کھلے میدانوں میں پہنچ جائے گا۔ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رینگ گئی۔
اگلی صبح وہ قدرے جلد بیدار ہوا۔ آج اس کا خیال جھیل تک جانے کا تھا جہاں سے یہ دریا بہہ کر آتا تھا۔ مگر جھیل میں بھی تو پانی کہیں سے آتا ہوگا۔ جھیل میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ وہ گول پیالے کی مانند ہے جس کا پانی سبزی مائل رنگت کا دکھائی پڑتا ہے اور دور جھیل کے دوسرے حصے میں بہت سی چھوٹی چھوٹی پانی کی لکیریں دکھائی پڑیں جو پانی کو بلند پہاڑوں سے جھیل میں منتقل کر رہی تھی۔ اس نے جھیل کے گرد گھوڑے پر بیٹھ کر چکر لگایا۔ ایک دو جگہ جھیل کے کنارے جمی برف پر سے گزرتے ہوئے اسے لگا کہ سفید برف جو لوگوں اور گھوڑوں کے پاؤں تلے گدلی ہو رہی ہے۔ یہ بھی جھیل کے پانی کا ایک ذریعہ ہے۔ دور پہاڑوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے سوچا کہ کہیں زمین میں ایک ہلکا سا سوراخ پانی کو باہر نکلنے کا رستہ دیتا ہے اور زمین سے نکلتا پانی برف پگھلنے سے بنتا پانی اور آسمان سے برستا پانی مل کر جھیل میں اترتے ہیں اور جھیل کے ایک طرف بنا راستہ پانی کو باہر نکل جانے کی اجازت دیتا ہے اور پھر اس پانی میں پانی ملتے جاتے ہیں اور دریا بنتا چلا جاتا ہے۔
واپسی کا سفر بھی دریا کے ساتھ ساتھ مٹیالے دریا کا موجیں مارتا پانی، ایک ایسے شور کے ساتھ بہتا تھا جس میں موسیقی کا آہنگ تھا اور اگر کوئی غور سے سننے والا ہو تو یہ کہانیاں سناتا تھا۔ گزرتے وقتوں کی کہانیاں، ان کرداروں کے قصے جو کبھی کے اس دار فانی سے رخصت ہو چکے تھے۔ بلند و بالا پہاڑ اس دریا کو کنارے کے درمیان رکھتے تھے۔ تیزی سے بہتا پانی اپنے اندر اترنے والی ہر چیز کو بہا لیے جاتا ہے۔ دریا کی روانی جب طغیانی میں بدلتی ہے تو زندگی بخش پانی موت کا پروانہ لیے بستیوں کا رخ کرتا ہے۔ دریا کے کنارے ہنستے بستے گھر، گاؤں آبادیاں دیکھتے ہی دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ جو بچنے میں کامیاب ہوگئے وہ خوش قسمت اور جو لقمہ اجل بن گئے ان کے جسم کبھی درختوں پر ٹنگے ملتے ہیں اور کبھی میدان کی مٹی میں مٹی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر اس دریا اور اس میں بہتے پانی کو اس سے کیا غرض وہ تو بہہ چلا جاتا ہے اور اس بہتے دریا کے ساتھ ساتھ آرام دہ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے وہ اپنی آنکھیں موند لیتا ہے۔ کھڑکی سے آتی نرم دھوپ اس کے جسم کو آرام دے حدت پہنچا رہی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد کی غنودگی اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس کی آنکھ جب کھلتی ہے تو لاری اڈے کا غلاظت سے پر ماحول اس کی آنکھوں کے سامنے ہے وہ ہر بات سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنا بیگ اٹھاتا ہے اور اگلے پڑاؤ کے لیے گاڑی کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔ زندگی کسی جگہ ٹھہرنے کا نام نہیں بس چلتے چلے جانا ہے۔
گھر واپس آکر وہ کئی دن تک اپنے موبائل میں محفوظ تصاویر اور ویڈیو فلموں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ ویڈیو فلموں کی بدولت اسے لگتا کہ وہ اب بھی اسی ماحول میں ہے۔ جھیل سے پھوٹتے دریا کے اوپر سے تنگ اور نازک سے پل پر کھڑا۔ پانی کو ایک تیز دھار اچھال کی صورت میں جھیل سے باہر نکل کر دریا کے پاٹ میں گرتے اور پھر بلندی سے نیچے کی طرف بہتے دریا کے ساتھ ساتھ میلوں کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اس نے بے شمار تصاویر اور بہت سی ویڈیو فلمیں بنائی تھیں۔ اس کے دل میں خیال تو آتا تھا کہ اس دریا کے ساتھ ساتھ چلتا چلا جائے۔ ذرائع آمد و رفت بدلتے ہوئے پس ابتداء سے انتہا تک سفر کرے۔ یہ رات اس دریا کے کنارے کسی نہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالے۔ رات کو دریا کا آہنگ سے پر شور سنے۔ اور جاننے کی کوشش کرے جیسے جیسے یہ دریا پہاڑوں سے میدانوں میں جا نکلتا ہے تو اس کی رفتار اور آواز میں کیسی کیسی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ رات کو دریا کی روانی کیا کہتی ہے اور صبح کو اس کی ترنگ کیسی ہوتی ہے مگر یہ سب ممکن نہ تھا۔ زندگی کے اپنے بکھیڑے ہیں اور زندہ ہوتے ہوئے کوئی کہاں تک ان سے بچ سکتا ہے۔
ایک دن وہ شام کے وقت ا پنے گھر میں ایل سی ڈی پر چینل بدل رہا تھا کہ ایک جگہ اس کا ہاتھ رک گیا۔ سکرین پر جوش سے بہتے دریا نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی۔ اس نے دریا کے پانی کو اچھلتے ہوئے اور پل کی دیواروں سے ٹکراتے دیکھا۔ سیلاب نے وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دیہاتوں سے لوگ بے سر و سامانی کے عالم میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔ عورتیں، بچے، مرد، بوڑھے، تندرست اور بیمار سب اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنی زندگی بچانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ انسان کو جانور کہیں ایک دوسرے کے ساتھ کہیں ایک دوسرے کے مقابل بہتے پانی کے دوش پر کہیں اس کے کنارے کنارے چلے جا رہے تھے اپنی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے پانی جو زندگی کی علامت تھا۔ انسانی جسم میں زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی اب وہی زندگی لے رہا تھا۔ پانی جس کے ایک طرف زندگی تھی اور دوسری طرف موت۔
شہر میں جگہ جگہ، کیمپ اور بینرز لگے تھے۔ سیلاب سے متاثرین کے لیے کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی چیزیں جمع کی جا رہی تھیں۔ اس نے بھی اپنی بساط کے مطابق جو کچھ دے سکتا تھا ایک کیمپ میں جمع کروایا اور اس یقین کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا کہ اس نے ا چھے کام میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ گھر میں ایل ای ڈی کی سکرین پر وہ دریا میں آئی طغیانی اس کے نتیجے میں آئی تباہی کا نظارہ کر رہا تھا۔ پانی آگے کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے راستے میں آنے والی چیزوں کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لیے جا رہا تھا۔ مگر جہاں جہاں پانی اترنا شروع ہوا تھا زندگی معمول پر آرہی تھی۔ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ انھیں اپنے گھروں کی مرمت کے لیے بھی پانی چاہیے تھا اور کھانا پکانے کے لیے بھی پانی لازمی۔ دریا واپس اپنے کناروں میں پلٹ چکا تھا۔ دریا کے کنارے آباد لوگ زندگی کو نئے سرے سے آباد کر رہے تھے۔ نئی ضروریات، نئی چیزیں، نئے انداز، زندگی کو ایک نئے ڈگر پر لیے جا رہے تھے۔ اس نے سکرین پر اجڑتے آباد ہوتے لوگ دیکھے۔ کھانے پینے کی چیزوں پر جھپٹتے، زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے لیے سمیٹ لینے کی خواہش کے ساتھ، زندگی میں آگے بڑھنے کی بے تابی سمیٹے لوگ پھر سے آباد ہو رہے تھے۔ دریا پھر اپنی چال میں مست بہہ رہا تھا۔ پانی اپنے کناروں میں سمٹ کر حیات آفرین بن چکا تھا۔ میدانوں میں اپنی آہستہ خرامی سے بہتا، سمندر سے ملنے کی لگن میں، پانی اپنی رو میں بہے چلا جا رہا ہے۔ سبز پانی زندگی کی مانند ہے۔ اس کی روانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ پانی اور زندگی ہمیشہ رواں دواں رہتے ہیں۔