آنکھ میں ٹھہرا پل

یہ تحریر 758 مرتبہ دیکھی گئی

نگہت کے آنکھ میں ستر سال سے رکا ہوا آنسو، آنکھ کے کونے سے بہہ نکلا۔ اس نے اپنی عینک اتاری اور اپنے نہایت نفیس ٹشو پیپر سے اپنے بائیں آنکھ کے کونے کو خشک کیا۔ کن اکھیوں سے دائیں بائیں بیٹھی اپنی بہنوں پر نظر ڈالی وہ بڑی محویت سے فلم دیکھنے میں مصروف تھیں۔ یہ فلم ایک عظیم ادبی شخصیت پر بنائی گئی تھی جو اتفاق سے ان تینوں بہنوں کا باپ بھی تھا۔ فلم پروڈیوسرنے ان بہنوں کو خاص طور پر پہلا شو دیکھنے کی دعوت دی تھی اور سینما میں ان کو بہترین سیٹوں پر جگہ دی تھی۔ نگہت تینوں بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور اس کے دس سال اپنے والد کے ساتھ گزرے تھے۔

نگہت اپنے بچپن سے سنتی آئی تھی کہ اس کے والد بہت بڑے لکھنے والے تھے۔ ان کی تحریریں قارئین کے وسیع حلقے میں پسند کی جاتی تھیں۔ وہ انسانی نفسیات کے نباض تھے۔ اپنے باغیانہ خیالات کی وجہ سے وہ اکثر حکومت وقت کے معتوب رہتے۔ کوئی ملازمت یا ذریعہ روزگار نہ تھا۔ گزر اوقات تحریروں سے ہونے والی آمدن پر تھی۔ تحریروں سے اچھی خاصی آمدن ہو جاتی تھی کہ اخبار اور رسالے ان کی تحریریں بڑے اہتمام سے معاوضہ دے کر چھاپتے تھے مگر اس کا کیا کیا جاتا کہ نگہت کے والد میں ایک خاص طرح کی نخوت اور انانیت تھی۔ وہ عام آدمی کے بارے میں بڑے بیباک انداز میں لکھتے تو تھے مگر عام آدمی کے ساتھ سواری پر تانگے میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنے لیے سالم تانگہ کراتے۔ پچھلی سیٹ پر اکیلے یا اپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھتے۔ جب گھر سے نکلتے تو تانگہ گھر واپسی تک ان کے ہمراہ ہوتا۔ اسے آج سے ستر سال پہلے نوابی شوق ہی کہا جاسکتا تھا۔ اس پر ان کا شغل مے نوشی کہ ہر شام اعلیٰ شراب کے کئی جام لنڈھاتے۔ چھوٹی سی بات سے بھڑک اٹھتے۔ کوئی ان کی تحریروں پر ایک تنقیدی جملہ بول دیتا تو اس کی ایسی درگت بناتے کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑتے۔ ان سب باتوں نے رفتہ رفتہ انھیں اس انجام سے دوچار کیا کہ وہ خود ایک المیہ داستان میں ڈھل گئے۔

نگہت اب فلم سے بے نیاز ہوچکی تھی۔ گزشتہ زندگی کی یادیں اس پر بے طرح یلغار کر رہی تھیں۔ اپنے والد کے ساتھ تعلق کی جو ابتدائی یاد نگہت کے ذہن میں محفوظ تھی وہ ایک محبت کرنے والے باپ کی یاد تھی جو اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتا، اسے مزے مزے کی کہانیا ں اور قصے سناتا۔ اسے گدگداتا، اس کے کپڑے تبدیل کرتا، اس کے بالوں میں کنگھی کرتا، ایسے میں اس کی والدہ مسکرائے جاتیں اور کبھی کبھی اسے ان کاموں سے روکتی بھی کہ انھیں احساس دلاتی کہ وہ بہت بڑے لکھنے والے ہیں۔ ان کا کوئی دوست ایسا کرتے دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا۔ اس کے والد نہایت شگفتہ انداز میں جواب دیتے کہ اس وقت وہ صرف ایک بیٹی کے باپ ہیں۔ انھیں اس بات سے نہ دلچسپی ہے نہ پرواہ کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ لکھنے والے کے طور پر ان کا جو جی چاہتا ہے وہ لکھتے ہیں اور باپ کے طور پر جس طرح چاہے گا وہ اپنی بیٹی سے پیار کریں گے۔

نگہت کو یاد تھا کہ وہ چار پانچ سال کی ہوگی جب اس کی چھوی بہن اس دنیا میں آئی۔ ان چند دنوں میں تو اس کے والد نے نگہت کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی اور ہر طرح سے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ اسے اپنی ماں کی ضرورت محسوس نہ ہو گھر میں نگہت کی پھوپھی اور دیگر افراد بھی موجود تھے مگر اس کے والد نگہت کی تمام ضرورتوں کا خیال خود رکھتے۔ یہ نگہت کے والد کی محبت اور والدہ کی شفقت تھی کہ اسے اپنی چھوٹی بہن سے کسی طرح کا حسد محسوس نہ ہوا اور نہ اس میں یہ احساس جاگا کہ کسی دوسرے فرد نے اس کی جائیداد پر قبضہ کرلیا ہے۔

نگہت کی والدہ اور والد دونوں بیٹیوں کا خیال پوری دل جمعی سے کرتے۔ نگہت کی والدہ ایک سلیقہ شعار عورت تھی جسے اپنے شوہر سے شدید محبت تھی اور گھر داری اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ ان دنوں نگہت کے والد کی آمدن معقول تھی۔ گھر کے معاملات اور اس کے والد کے مشاغل بہت اچھے انداز میں پورے ہو رہے تھے۔ جو بھی ان کے گھر آتا اسے وہاں ایک خوشحال اور محبت کے احساس سے بھرپور خاندان کی موجودگی کا احساس لیے واپس جاتا۔

نگہت کو جہاں تک یاد پڑتا ہے اس کے والد ان دنوں اخبار اور رسائل میں لکھنے کے ساتھ ساتھ فلمیں بھی لکھتے تھے۔ وہ دوپہر کے وقت گھر سے نکلتے شام پڑے گھر آتے کچھ دیر اپنے شغل میں مصروف رہتے۔ رات کا کھانا کھاتے، بیوی اور نگہت سے خوش گپیاں کرتے اور سونے کے لیے لیٹ جاتے۔ لکھنے کا زیادہ کام تو صبح صبح اٹھ کر کرتے، نگہت کو ان کا کرسی پر اکڑوں بیٹھ کر لکھنا، اس وقت بھی عجیب لگتا تھا جب کبھی وہ صبح سویرے سویرے اٹھ جاتی اور انھیں کرسی میں اس طرح بیٹھے دیکھ لیتی تو اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے انھیں دیکھتی جاتی۔ اس وقت نگہت کے والد کی محویت دیکھنے کے قابل ہوتی۔ لکھنے کے دوران نگہت کی والدہ اس بات کا پورا خیال رکھتی تھی کہ گھر کا ماحول پرسکون رہے اور کسی قسم کا شور نہ ہو۔

نگہت نے انھیں ایک گورے چٹے خوبرو شخص کے طور پر دیکھا۔ نکلتا قد، دبلے پتلے، خوبصورت آنکھیں اور کراری آواز، چلنے پھرنے کے انداز میں ایک بے چینی اور عجلت کا احساس ہوتا تھا۔ وہ جتنا وقت بھی گھر میں گزارتے باہر کی بات کم ہی کرتے، نگہت کی ماں سے ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی رہتی مگر یہ ان دونوں کے درمیان گہری محبت اور اپنائیت کا احساس لیے ہوتی۔

نگہت کو یاد ہے کہ اچانک ماحول میں کچھ ایسا تناؤ پیدا ہوا کہ اس کے ماں باپ کے چہرے متفکر نظر آنے لگے۔ وہ جس شہر میں رہتا تھا اس کی رونقیں دیکھنے کے قابل تھیں مگر اب سڑکوں پر نعرے سنائی دیتے۔ آزادی اور بٹوارے کے الفاظ اس کے کانوں میں پڑتے مگر ابھی وہ ان الفاظ کا مفہوم پوری طرح سمجھنے سے قاصر تھی۔ اسے اتنا یاد ہے کہ ایک رات جب اس کے والد اور والدہ ایک پارٹی سے واپس آئے تو وہ کچھ زیادہ ہی فکر مند تھے۔ دونوں میں اس مسئلے پر کافی دیر تک بات ہوتی رہی کہ کیا اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس شہر کو چھوڑ دیں۔ کوئی فیصلہ نہ ہو پایا۔ پھر چند دن کے بعد نگہت کی والدہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ ایک شادی کے سلسلے میں ایک دور کے شہر چلی گئیں۔ نگہت نہیں جانتی تھی کہ وہ جہاں صرف چند دن کے لیے جا رہی ہے اب وہ ہی ہمیشہ کے لیے اس کا گھر ہوگا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کے والد بھی ان کے پاس آئے اور زندگی ایک بار پھر اپنے دھارے پر رواں ہوگئی۔

نگہت اپنے والدین کے ساتھ اب جس شہر میں رہ رہی تھی وہ پہلے جیسا با رونق اور چمک دمک کا حامل نہیں تھا مگر یہاں اسے کسی غیریت کا احساس کم ہی ہوا کہ ان کے کئی قریبی رشتے دار یہاں رہتے تھے اور خود جو گھر انھیں رہنے کے لیے ملا تھا اس میں بھی ان کے ایک رشتہ دار رہتے تھے۔ جن کے بچوں کے ساتھ نگہت خوب کھیلتی کودتی۔ وہ ایک قریبی سکول میں پڑھنے جاتی۔ گھر واپس آکر سکول کا کام کرتی اور کھیل کود میں لگ جاتی۔ والد سے ملاقات اب رات گئے ہوتی۔ نگہت کو اپنے والد کی محبت میں کسی کمی کا اب تک بالکل احساس نہ ہوا تھا۔ والدہ بھی پہلے کی طرح مہربان تھیں۔ شہر کی تبدیلی کا کچھ زیادہ اثر نگہت کی زندگی پر تو نہیں پڑا تھا ہاں اس کی والدہ اور والد اکثر پچھلے شہر کی، وہاں کے دوستوں کی، وہاں کی محفلوں کی باتیں کرتے تو ان کے لہجے میں تاسف جھلکنے لگتا۔

نگہت کو محسوس ہوتا تھا کہ نیا شہر اس کے والد کے لیے کچھ ایسا نیا بھی نہیں۔ یہاں آکر بھی اس نے اپنے والد کے معمول میں کوئی زیادہ تبدیلی نہ دیکھی۔ وہ اخبارات، رسائل کے لیے لکھتے، ان کی تحریریں بڑے اہتمام سے شائع کی جاتیں۔ دوست دشمن نگہت کے والد کی تحریروں کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے، اس کے والد کسی کی تعریف یا تنقید کو کم ہی اہمیت دیتے۔ اب نگہت کو احساس ہونا شروع ہوا تھا کہ اس کے والد کوئی خطرناک کام کرتے ہیں۔ ایسا اس دن ہوا جب رات کے وقت پولیس والے اس کے گھر آئے نگہت کے والد اس وقت گھر پر نہیں تھے اس کی والدہ نے بہت کوشش کی کہ بچیا ں اپنے کمرے میں سوئی رہیں۔ مگر چیزوں کو الٹنے پلٹنے کی آواز اتنی تیز تھی کہ نگہت جو ابھی گہری نیند میں جانے والی تھی اس کی آنکھ کھل گئی۔ اگرچہ وہ اپنے بستر میں دبکی رہی مگر باہر سے آنے والی آوازیں اس کے کانوں میں آتی رہی۔ پولیس والا اونچی اور گرج دار آواز میں اس کے والد کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا تھا۔ اسے کچھ خفیہ چیزوں کی تلاش تھی جو اس کے خیال میں گھر ہی میں کسی جگہ چھپی تھیں۔

کچھ دیر کے بعد نگہت نے اپنے والد کی آواز سنی۔ وہ آگئے تھے اور اب خود پولیس والے کی باتوں کا جواب دے رہے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ والد کی آواز میں کوئی ڈر یا خوف نہیں وہ  اپنے معمول کے لہجے میں سوالوں کے جواب دے رہے ہیں ہاں اسے لگا کہ ان کے جملوں میں طنز کی کاٹ پہلے سے زیادہ ہے۔ صبح نگہت کو معلوم ہوا کہ اس کے والد کی کسی تحریر پر حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔ اسے اپنی والدہ کے چہرے پر ایسی گہری فکر مندی دکھائی دی جو اس نے اب سے پیشتر کبھی نہیں دیکھی تھی۔ والد حسب معمول سکون سے بیٹھے تھے اور چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے۔ درمیان درمیان میں اپنی بیوی کی تسلی کے لیے چھوٹے چھوٹے جملے بھی بولتے جا رہے تھے۔

نگہت کے ذہن میں اس دن کی یادیں بڑی واضح ہیں جب ایک رات اس کے والد پیٹ میں درد سے کہرا رہے تھے اور اگلی صبح انھیں ایک قریبی بڑے ہسپتال میں داخل کروادیا گیا تھا۔ گھر  میں ہر فرد ان کی صحت اور زندگی کے لیے فکر مند تھا۔ گھر کی گزر اوقات نگہت کے والدہ کی روزانہ آمدن پر تھی۔ آمدن ختم ہوچکی تھی۔ گھر کا خرچ، بیماری کا علاج، اس کی والدہ نے اپنی کفایت شعاری سے بچائے تھوڑے سے پیسوں سے گزارا کیا پھر ایک دو رشتے دار مدد کو آئے۔ نگہت کسی کسی دن اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کے ساتھ اپنے والد کو دیکھنے چلی جاتی۔ وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوتے۔ انھیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھتے، مسکراتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو پیار کرتے اور ہر طریقے سے انھیں یہ یقین دلاتے کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اور پھر واقعہ وہ بھلے چنگے ہو کر گھر لوٹ آئے۔ اگرچہ وہ پہلے سے کچھ کمزور ہوگئے تھے اور ان کے گورے چٹے رنگ میں زردی گھلی تھی مگر وہ ہر اعتبار سے پہلے کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ ڈاکٹر نے گھر پر آرام کرنے کے ساتھ شام کا مشغلہ ترک کرنے پر زور دیا تھا اور انھوں نے واقعی اسے ترک بھی کردیا۔

بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد نگہت کے والد نے لکھنے لکھانے کا پھر سے آغاز کردیا۔ انھوں نے اپنے خاندان کے ایک فرد کے ساتھ مل کر فلم بھی بنائی۔ تب ان کے گھر میں ہر وقت نئی فلم اور اس کی ممکنا کامیابی کا ذکر رہنے لگا۔ یہ چند مہینے نگہت کے لیے بہت یادگار تھے۔ اس کے والد اور والدہ پھر زندگی کی مسرتوں سے بھرپور دکھائی دیتے تھے۔ نئی فلم نے اس کے والد کی زندگی میں نئی ترنگ دوڑا دی تھی۔ اخبار اور رسائل میں لکھنے کا سلسلہ جاری تھا۔ اگرچہ اب انھیں پہلے سے کم معاوضہ ملنے لگا تھا اور کئی اخبار اور رسالے انھیں حکومت کے خوف سے چھاپنے سے بھی گریز کرنے لگے تھے۔ مگر اس کے باوجود زندگی اچھی بھلی گزارنے لگی تھی۔ مگر فلم کی زبردست ناکامی نے جیسے اس کے والد کو توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اہر تو یہی کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس سے زیادہ مایوس نہیں مگر ان کے قریبی لوگوں کو ان کے اندر شکست و ریخت کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا۔ اس دوران ان کے گھر میں تیسری بہن بھی آچکی تھی بیٹے کی شدید خواہش نگہت کے باپ کے سینے میں حسرت بن چکی تھی۔ ایسے میں ایک دن جب وہ سر شام گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں بوتل تھی اور شغل ایک بار پھر شروع ہوگیا۔

نگہت کو اچھی طرح تو یاد نہیں پڑتا کہ زندگی کے معمولات میں کب بڑی تبدیلی آنے لگی۔ اس کی والدہ ہر ممکن کوشش کرتی کہ اپنی بچیوں کو حالات کے سائے سے مایوس رکھے۔ اس کا والد بھی ان کے سامنے اپنے آپ کو نارمل ظاہر کرنے کی کوش کرتے مگر نگہت کو اب احساس ہونے لگا تھا کہ اب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے والد نے اب اپنا شغل دن رات شروع کردیا تھا۔ وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ ان کی سفید رنگت میں ہلکی ہلکی سیاہی گھولنے لگی تھی۔ قوت برداشت کم ہوگئی تھی۔ بات بات پر بگڑنے لگے تھے۔ اس نے پہلی بار اپنی ماں کے منہ سے قسمت کا شکوہ سنا تھا۔ اس کے والد کے منہ سے مسلسل بو آنے لگی تھی جو نگہت کو ناگوار گزرتی وہ ان سے دور رہنے کی کوشش کرتی۔ گھر کے ماحول میں ایک عجیب سا تناؤ ہر فرد محسوس کر رہا تھا۔

نگہت اس دن کو کبھی بھول نہیں پائی جب اسے شدید بخار تھا۔ صبح اس کے والد کمرے میں آئے، اس کی حالت دیکھی تو بہت پریشان ہوئے۔ بیوی سے ڈاکٹر کی تجویز کی گئی دواؤں کا نسخہ لیا اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے کہ وہ ابھی اپنی بیٹی کے لیے دوائی لے کر آتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا نگہت کی نگاہیں دروازے پر جمی رہیں مگر اسے اپنے والد کی صورت کہیں دکھائی نہ دی۔ اس کی والدہ پہلے تو بے چین پھرتی رہی۔ پھر انھیں غصہ آیا اور آخر میں بے بسی کے شدید احساس نے ان کی آنکھوں سے آنسو بہا دیئے۔ دوپہر تک نگہت بخار میں تپتی رہی اور اس کی والدہ بے بسی سے ان گھریلو ٹوٹکوں کو آزماتی رہی جو اسے یاد تھے۔ دوپہر کے وقت اس کے چھوٹے گھر آئے، نگہت کی حالت دیکھی تو اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ دوائی لے کر دی۔ جسے کھا کر نگہت غنودگی میں چلی گئی۔

اس دن صبح سے دوپہر تک کا وقت نگہت کی آنکھوں میں ٹھہر گیا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس کے بعد اس کی آنکھ نے کوئی ایسا منظر نہ دیکھا جس میں اس کے والد کی تصویر ہوتی۔ اس شام جب اس کے والد گھر لوٹے تو اسے لگا کہ ایک اجنبی گھر میں داخل ہوا ہے جس سے اس کی کوئی جان پہچان نہیں۔ نگہت کی والدہ نے شوہر کا استقبال ایک ایسی سرد مہری سے کیا جو اس کے مزاج کا حصہ نہیں تھا۔ خالی ہاتھ، خالی جیب، ڈاکٹری نسخے کو چھپاتے اس کے والد کی کوئی بات نہیں بن پا رہی تھی۔ نگہت کی طبیعت اب قدرے سنبھل چکی تھی۔ اس کی والدہ نے رات کے ہلکے پھلکے کھانے کے چند لقمے اسے کھلا کر رات کی دوائی پلا دی تھی۔ جب گھر میں آنے والے اجنبی نے اپنا سرد ہاتھ نگہت کی پیشانی پر رکھا تو وہ اس اجنبی لمس کو پہچان نہ سکی۔ ہاں منہ سے اٹھنے والی بو اب نگہت کو پورے وجود سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔

اس دن کے بعد نگہت کے لیے اس فرد کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی تھی جو ان کے گھر میں رہتا تھا۔ اس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہوگیا تھا۔ نگہت نے ان کو اپنی پڑھائی میں لگا دیا۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنی ماں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتی۔ اپنی چھوٹی بہنوں کے ساتھ کھیلتی، انھیں خوش رکھنے، خود خوش رہنے کی کوشش کرتی۔ ان کے گھر میں رہنے والا آدمی جب اسے اپنے پاس بلاتا یا اس سے بات کرنے کی کوش کرتا تو وہ بے دلی سے اس کی باتوں کا جواب دیتی۔ پھر ایک دن اس شخص نے خون تھوکا اور اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ کسی نے شاید دیکھا یا نہیں مگر اس شخص کے مرنے پر نگہت کی آنکھ سے کوئی آنسو نہ ٹپکا۔

زندگی کے ماہ سال گزرتے گئے۔ وہ بڑی ہوتی گئی اور اس کی بہنیں بھی۔ نگہت کی والدہ نے بڑے سلیقے اور احتیاط سے اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی۔ انھیں پڑھایا۔ ان کی شادیاں کیں۔ کسی وقت بھی انھیں یہ احساس نہ ہونے دیا کہ ان کے سر پر باپ کا سایہ نہیں۔ وہ شخص تو مرگیا تھا مگر اس کا تذکرہ اب بھی اخبارات اور رسائل میں رہتا۔ خاص طور پر جنوری اور مئی کے مہینوں میں وہ بھی پڑھتی۔ اسے لگتا کہ کسی اجنبی کے بارے میں پڑھ رہی ہے۔ نگہت کی بہنیں کبھی کبی اس سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھتیں تو وہ بڑی سپاٹ لہجے میں ان کی باتوں کا جوا ب دیتی۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر اس شخص کے بارے میں چلنے والے پروگرام سنتی اور دیکھتی۔ مگر کسی بھی جذبے کے بغیر اب کبھی بھی جب کسی جگہ غیر متوقع طور پر اسے ستائش اور پذیرائی ملتی اس شخص کی بیٹی ہونے کی وجہ سے تو وہ اپنے اندر بے زاری کی ایک لہر محسوس کرتی۔

نگہت کی والدہ تو کبھی اس کا ذکر برے الفاظ میں نہ کرتی بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کے ہاں ناگواری ختم ہوتی چلی گئی تھی اور ان کے لہجے میں وہ محبت لوٹ آئی تھی جو ان کی شادی کے ابتدائی دنوں سے عبارت تھی۔ اب بہت سے لوگ جب اس کے شوہر کی تعریف کرتے، تو اس کی والدہ کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ جاتی۔ اگر قریبی رشتے دار کبھی اس کی برائی کرتے، یا اسے برا بھلا کہنے کی کوشش کرتے تو اس کی والدہ انھیں جھڑک دیتی اور ایسے افراد سے ملنے سے اجتناب کرنے لگتی۔ نگہت کو محسوس ہوتا تھا کہ اس کی والدہ اس شخص کے لیے صرف ایک بیوی بن کر نہیں سوچتی بلکہ وہ اسے اپنا محبوب خیال کرتی ہے۔ ایسا محبوب جس کے ساتھ ساری اذیت اور منفی جذبے۔ اگر کبھی تھے بھی تو اب ماضی کی یاد گار بن چکے تھے۔ صرف خوب صورت یادیں، باتیں اور لمحات زندہ رہ گئے تھے۔ ایک بڑے لکھنے والے کی زندگی کا واحد نسوانی حوالہ ہوتے ہوئے کہ اپنی ساری زندگی اس شخص نے جو کچھ بھی کیا ہو اس کی والدہ کے علاوہ کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا اور یہ بات نگہت کی والدہ بہت اچھی طرح جانتی  تھی کہ گری پڑی عورتوں کے قصے لکھتے ہوئے، فلم انڈسٹری کی چکاچوند میں اپنے نام کا ڈنکا سنتے ہوئے مخلوط محفلوں میں شراب کے جام لنڈھاتے ہوئے اس کے پاؤں، ہاتھ اور آنکھوں میں کبھی لرزش پیدا نہیں ہوئی تھی۔

نگہت کی دونوں بہنیں بھی رفتہ رفتہ اپنے والد کی مثبت تصویر بنانے میں کامیاب ہوچکی تھیں۔ درمیانی والی تو پانچ چھ سال کی رہی ہوگی جب کہ سب سے چھوٹی تو صرف ڈیڑھ دو سال کی۔ درمیانی کے ذہن میں دھندلی یادیں تھیں اور سب سے چھوٹی نے صرف اپنے والد کا ذکر سنا تھا۔ اس لیے رفتہ رفتہ دونوں اس عظیم لکھنے والے کی گرویدہ ہوگئی تھیں جو ان کا باپ تھا اور اب تو دیگر رشتے داروں نے بھی فخر سے اسے قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس شخص کی قبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ان تین بیٹیوں کے بچے بڑے فخر سے اپنے نانا کا ذکر کرتے، دوست، رشتے دار انھیں اس کی وجہ سے عزت دیتے مگر نگہت کے اندر ایک لمحہ منجمد ہوچکا تھا۔

نگہت اور اس کی بہنوں کے لیے ماں کی موت ایک ایسا سانحہ تھا جس نے انھیں مہینوں دکھی رکھا۔ مرتے ہوئے بھی اس عورت کے منہ پر اپنے شوہر کے لیے کوئی شکوہ کوئی شکایت نہیں تھی۔ نگہت نے ایک دوبار جب اپنی والدہ کے سامنے اس شخص کی برائی کرنے کی کوشش کی تھی تو انھوں نے اسے بری طرح جھڑک دیا تھا۔ نگہت کو کبھی کبھی اپنی والدہ کے رویے پر حیرت بھی ہوتی نگہت کی بہنیں اب اسے والدہ کا درجہ دینے لگی تھیں۔ ان بہنوں نے بچے آپس میں بڑی حجت سے ملتے۔ اپنے نانا ابو کا تذکرہ بڑے جوش جذبے اور فخر سے کرتے، نگہت کی دونوں بہنیں ان کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ ابتداء میں تو نگہت کو اس سب سے بیزاری محسوس ہوتی اور اسے غصہ بھی آتا کبھی کبھی وہ انھیں جھڑک بھی دیتی۔ نگہت کا رویہ ان بچیوں کو عجیب لگتا مگر رفتہ رفتہ جب اس شخص کی مقبولیت اور شہرت ہر طرف ہونے لگی اور اس کی وجہ سے خاندان کا نام دور دور جانا پہچانا جانے لگا تو نگہت نے اپنے ردعمل پر قابو پانا سیکھ لیا۔ اب وہ یا تو خاموش رہتی یا اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آجاتی۔ وقت اور تجربے نے اسے زندگی کے بارے میں بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ وہ اب چیزوں اور باتوں کو مختلف تناظر میں دیکھنے لگی تھی۔ وہ شخص اب اسے اتنا قصور وار دکھائی نہیں دیتا تھا مگر جو پھانس چبھی تھی وہ اپنی جگہ تھی۔

  گزرتے وقت نے خود نگہت کو ماں، دادی، بیوی اور ساس بنا دیا تھا۔ اپنے شوہر کے ساتھ اس نے ایک لمبی شادی شدہ زندگی گزاری تھی۔ اس کا شوہر ایک محبت کرنے والا فرد تھا۔ اس میں کوئی خاص عیب بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے گھر، بیوی اور بچوں کا بہت خیال رکھنے والا تھا اور نگہت کو زندگی بھر اس نے کسی خاص شکایت کا موقع بھی نہیں دیا تھا۔ مگر اب جب نگہت پلٹ کر اپنی ماں اور اپنی زندگی پر نگاہ ڈالتی تو اسے حیرت ہوتی۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو جاتی کہ جیسی محبت اس کی والدہ اپنے شوہر سے کرتی تھی ویسی محبت خود اسے کبھی اپنے شوہر سے محسوس نہیں ہوئی تھی۔

چند سال پہلے جب اس عظیم لکھنے والے کی ولادت کا سواں سال منایا جا رہا تھا کہ تو ان بہنوں کو اپنے ملک ہی سے نہیں دوسرے ممالک سے بھی کئی دعوت نامے آئے۔ جب سے نگہت کی والدہ کا انتقال ہوا تھا تو بہت سے لوگ اس عظیم لکھنے والے کے بارے میں ان کی بیٹیوں کے تاثرات جاننا چاہتے تھے۔ اپنے والد کے بارے میں ان کی یادیں سنانا چاہتے تھے۔ تینوں میں سے بھی خاص طور پر نگہت سے کہ جب اس عظیم لکھنے والے کا انتقال ہوا اس کی عمر دس بارہ سال تھی جب کہ باقی دو بہت چھوٹی تھیں۔ نگہت کے ذہن میں بالکل نہیں آتا تھا کہ وہ اس عظیم لکھنے والے کے لیے کیا کہے جو لوگوں کے خیال میں اس کا والد تھا اور اس کے اپنے لیے ایک ایسا اجنبی جس کے بارے میں وہ زیادہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ جو تلخ یادیں اس کے اندر دفن تھیں وہ ایک عظیم لکھنے والے کے امیج سے لگاؤ نہیں کھاتی تھیں اور جو کچھ لوگ اس سے سننے کی توقع رکھتے تھے۔ ایسی کوئی بات سنانے کے لیے نگہت کو لگتا تھا کہ اسے اپنے وجود کی نفی کرنا پڑے گی۔ ایسی محفلوں میں جب بھی یادوں کا تذکرہ چھڑتا تو دونوں چھوٹی بہنیں نگہت کی طرف دیکھتی اور نگہت ادھر ادھر کی چند باتیں کرکے جان چھڑا لیتی۔

پھر ایک ایسا دعوت نامہ آیا جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پڑوسی ملک سے اس گاؤں کے لوگوں نے جہاں وہ عظیم لکھنے والا پیدا ہوا تھا ایک شاندار جلسے کا اہتمام کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ تینوں بہنیں اس میں لازمی شریک ہوں۔ تینو نے مل کر پروگرام بنایا کہ وہ اس میں ضرور شریک ہوں گی۔ پروگرام مئی کے مہینے میں تھا جب سرحد کے دونوں طرف شدید گرمی پڑتی تھی۔ اس کے باوجود وہ چلنے کو تیار تھیں خاص طور پر چھوٹی والی دونوں۔ نگہت نے بھی نیم دلی سے رضامندی ظاہر کی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ جب کچھ کہنے کا موقع آئے گا اسے ہی بھولنا پڑے گا۔ آخری دن تک نگہت کی کوشش رہی کہ اس کی دونوں بہنیں چلی جائیں۔ مگر آج اسے جانا ہی پڑا۔ اس عظیم لکھنے والے کی شان میں ستائشی کلمات کہنے سے زیادہ پڑوسی ملک اور اس کے مختلف شہر دیکھنے کے نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس دوران نگہت نے ادھر ادھر کے خیالات سے تین چار صفحات لکھ لیے تھے تاکہ جہاں جہاں ضرورت پے وہ رٹے ہوئے الفاظ کو دہرا سکے۔

نگہت اور اس کی بہنوں کا یہ دورہ بہت شاندار رہا۔ ناصرف اس گاؤں میں جہاں وہ عظیم لکھنے والا پیدا ہوا تھا بلکہ اور بھی بہت سے شہروں میں ان کا بڑی محبت سے استقبال کیا گیا ان کی شان میں تقریریں کی گئیں کہ وہ ایک عظیم لکھنے والے کی بیٹیاں تھیں۔ بعض نے تو ان کے ناموں کے ساتھ بھی وہ القاب جڑ دیئے جو صرف بڑے لوگوں کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس کی دونوں چھوٹی بہنیں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ نگہت بھی خود کو خوش اہر کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ اس دن نگہت نے بڑی خوب صورت تقریر کی کہ اس کی بہنیں بھی حیران رہ گئیں۔ لوگوں نے کہا کہ اس نے ایک عظیم لکھنے والی کی بیٹی ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔ نگہت بھی بڑی خوش دلی سے داد وصول کرتی اور لوگوں کا شکریہ ادا کرتی رہی۔

نگہت کو جب چند دن پہلے اس عظیم لکھنے والے کے بارے میں نئی فلم کا پہلا شو دیکھنے کی دعوت ملی تو اس نے اسے خوش دلی سے قبول کرلیا کہ وہ اب اس نوعیت کی تقریبات میں شریک ہونے اور ان سے لطف اندوز ہونے کی عادی ہوچکی تھی۔ جب وہ تینوں بہنیں سینما ہال میں پہنچیں تو اس کو بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ ان کے لیے پرتکلف چائے کا انتظام کیا گیا تھا۔ ان کے بیٹھنے کے لیے بہترین نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ یہ سب کچھ تو ان کے لیے اب معمول کی بات تھی۔ فلم شروع ہزوئی۔ نگہت حسب عادت کچھ دلچسپی سے سین دیکھنے لگی۔ فلم کے فن کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لینے لگی۔ فلم آدھی سے زیادہ گزرچکی تھی۔ جب وہ ٹھٹھکی۔ ایک گھر کا منظر تھا جہاں وہ عظیم لکھنے والے اپنی بڑی بیٹی کے رخساروں کو تین بار چومنے کا خواہش مند تھا۔ نگہت کے دل میں کچھ ہوا۔ اس دن اس عظیم لکھنے والے نے اپنی بیٹی کے دونوں رخساروں کو چوما تھا مگر تیسری بار چومنے سے پہلے وہ لڑکی کھکھلا کر ہنستی ہوئی بھاگ گئی تھی۔ اچھا پہلے میں نے تیسری چمی چرالی تھی۔ نگہت ماضی کی یادوں میں کھو گئی۔ ستر سال پہلے کے گھر کے در و دیوار اس کے ذہن میں تازہ ہوگئے۔ ایک ایک کرکے باتیں اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگیں۔ جب اس نے غور سے اداکار کو دیکھا تو اسے شدید دھچکا لگا۔ یہ کالا کلوٹا اداکار تو وہ نہیں۔ وہ تو گورے چٹے تھے۔ آخری دنوں میں بیماری کی وجہ سے ضرور رنگت میں کچھ سیاہی جھلکنے لگی تھی۔تب ایک سین سے جیسے اس کی آنکھوں کو جکڑ لیا۔ وہ بستر پر بیمار لیٹی تھی۔ وہ شخص بغیر دوائی گھر لوٹا تھا اور اس کی والدہ کی کسی بات نے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر دیئے تھے۔ تب نگہت کو لگا کے اس کی آنکھیں نم ہوئی ہیں۔ ستر سال سے رکا ایک آنسو نجانے کہاں سے آکر آنکھ کے گوشے کو پرنم کرگیا ہے۔ اس وقت اگر وہ اپنے والد کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لیتی اتنی لمبی مسافت میں تنہائی کے اس کرب ناک احساس سے دوچار نہ رہتی جسے وہ ابھی تک بھگتتی آئی تھی۔