بریکنگ نیوز

یہ تحریر 703 مرتبہ دیکھی گئی

اس کا شمار شہر کے جانے پہچانے لوگوں میں ہوتا تھا۔ اس کے آباؤاجداد صدیوں سے اس زمین پر آباد تھے۔ اس نے اپنی محنت اور صلاحیتوں سے اپنا لوہا منوایا تھا۔ کسی دور میں وہ اپنے خاندان کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا اور اب لوگ اس کے خاندان کو اس کے نام سے جانتے تھے۔ وہ شہر میں ہونے والی تقریبات میں بڑی بھرپور شرکت کرتا۔ اس کا حلقہ احباب کافی وسیع تھا اور اس میں ہر طبقہ زندگی کے لوگ شامل تھے۔ اس لیے اس کی جانب سے جاری کی گئی اس خبر کو حیرت اور افسوس سے سنا گیا کہ اس نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب وقت آگیا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے۔ اس لیے وہ اگلے دن کسی وقت اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے گا۔ خبر مصدقہ تھی اور رابطہ کرنے پر اس کے قریبی اور معتبر ذرائع نے تصدیق کردی کہ خبر درست ہے۔ اس کے دوستوں اور خیر خواہوں کو فکر ہوئی کہ اسے اس بات سے روکا جائے مگر بار بار کی کوشش کے باوجود اس سے رابطہ نہ ہوسکا۔ اس کے ایک دوست نے شہر کے پولیس چیف سے رابطہ کیا کہ اتنے نام ور آدمی کو خودکشی سے روکا جائے۔ پولیس کی طرف سے جواب آیا کہ چوں کہ اس نام ور آدمی کے کسی قریبی عزیز نے رابطہ نہیں کیا اس لیے قانوناً کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرا خیر خواں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہاں سے جواب آیا کہ عدالت کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ کل عدالت کی چھٹی ہے اس لیے پرسوں رابطہ کیا جائے۔ رات کو کئی ایک نیوز چینل پر اس سلسلے میں گرما گرم مباحثے ہوئے۔ کمرہ دانشوروں نے اس کی ممکنا خودکشی کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ مگر رات گئے تک نہ کوئی کسی بات پر اتفاق ہوسکا نا اس بات کا لائحہ عمل طے ہو پایا کہ اس کو خودکشی سے کیسے باز رکھا جائے۔
دوسرے دن صبح سویرے ہی چینل ”ا“ نے اعلان کیا کہ ہم ”اس“ کی خودکشی کے منظر کو ٹیلی ویژن پر لائیو نشر کریں گے۔ اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ ”اس“ کی ہر حرکت پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔ سوا گیارہ بجے چینل ”ا“ سے بریکنگ نیوز کی پٹی ملی۔ پھر سکرین پر ایک پوش گھر کے ڈائننگ روم کی جھلک دکھائی دی۔ میز پر بہت سی کھانے پینے کی چیزیں رکھی تھیں۔ وہ بڑے آرام سے اپنے سامنے پڑے کپ میں چمچ ہلا رہے تھے۔ آہستہ آہستہ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پھر ان کے چہرے پر ()پریشانی کے کوئی نشان نہیں تھے۔ تصویر پر ایک پرجوش اینکر کی آواز اور ٹوئن کر رہی تھی کہ ہمیں اپنے ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ناشتے کے دوران چائے میں زہر ملا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا جائے۔ ہم نے بڑی مشکل سے یہ انتظامات کئے ہیں کہ اپنے ناظرین کے لیے سب سے پہلے یہ خبر براہ راست ان کے گھر میں ناشتے کی میز پر انھیں چائے پیتے ہوئے عین اس وقت دکھایا جائے جب وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہوں۔
چینل ”ب“ نے دو بجے بریکنگ نیوز جاری کی کہ ”وہ“ ابھی تک زندہ ہیں اور اپنے دفتر میں موجود ہیں۔ چینل نے اپنے ذرائع سے معلوم کیا ہے کہ ان کا پلان یہ ہے رکہ وہ اپنے دفتر میں کچھ ضروری کاغذات پر دستخط کرنے کے بعد دو سے ڈھائی بجے کے دوران کسی بھی وقت اپنے لائسنس والے جدید ریوالور سے اپنی جان لے لیں گے۔ بہترین اور جدید طرز سے آراستہ کمرے میں وہ اپنی میز پر بیٹھے کاغذات کو پڑھتے اور اپنے دستخط بت کردیتے۔ کیمرہ ان کے چہرے پر زوم ان ہوا، بہت پرسکون اور مطمئن چہرہ۔ ایسے لگا کہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہو جارہی۔ وہ معمول کے مطابق اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ تھوڑی دیر میں ایک خوب صورت لڑکی کیمرے کے روم میں آئی۔ اس نے مسکرا کر آپ کو دیکھا۔ میز پر پڑی فائلیں اٹھائیں اور کیمرے کی زد سے باہر نکل گئی۔ آپ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔ میز کی دراز سے کچھ نکالا۔ ارے یہ تو ریوالور ہے۔ انھوں نے اسے ایک ماہر نشانہ باز کی طرح اپنے ہاتھوں میں تولا۔ اس کا رخ اپنے دل کی طرف کیا۔ دیکھنے والوں نے اپنی سا نسیں روک لیں جبکہ دل نشین نسوانی آواز سکرین پر چلنے والے منظر کا آنکھوں دیکھا احوال بیان کر رہی تھی یک لخت کیمرہ آف ہوا اور سکرین پر بیٹھے چار دانشوروں کے درمیان ”ان“ کی خودکشی پر گرما گرم بحث شروع ہوگئی۔
شام پانچ بجے چینل ”ج“ نے اپنی نشریات روک کر ایک بریکنگ نیوز چلائی۔ ”وہ“ اپنے بہترین سوٹ میں اپنے دفتر سے باہر آرہے تھے۔ چینل کا اینکر پرسن جی کی ذہانت، فطانت اور معاملہ فہمی کا ڈنکا بجتا تھا۔ بڑے جچے تلے انداز میں اپنے ناظرین کو بتارہا تھا کہ اس نے بہت دقت سے نہایت مستند خبریں اکٹھی کیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ”وہ“ اس کے قریبی دوست ہیں اس لیے انھوں نے خود بتایا تھا کہ وہ شام دفتر سے واپسی پر گھر کے راستے میں کسی جگہ گاڑی کھڑی کرکے کسی تیز رفتار گاڑی کے سامنے خود کو گرادیں گے۔ چینل ”ج“ نے اپنے ناظرین کے لیے نہایت عمدہ انتظام کیا ہے۔ چینل کی DP”ان“ کا تعاقب کریں گی۔ ڈراؤن کیمرے سے فضائی نگرانی کی جائے گی اور اس بات کا پورا بندوبست کیا جائے گا کہ یہ اہم منظر لمحہ بہ لمحہ قارئین کے سامنے آتا رہے۔ کیمرہ مسلسل ”ان“ کو اپنی رینج میں م لیے رکھ رہا تھا۔ دفتر سے نکل کر اپنی مہنگی گاڑی کی سیٹ پر بیٹھنے تک انھوں نے کسی غیر معمولی سرگرمی کا اظہار نہمیں کیا تھا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے کسی فرد کو اندازہ نہیں ہوا تھا کہ کچھ غیر معمولی واقعہ ہونے والا ہے۔ گاڑی جب سڑک پر آئی تو اس کے آگے پیچھے چینل ”پ“ کی DPوینز تھیں۔ سکرین پر لمحہ بہ لمحہ بدلتے مناظر ناظرین میں خون کی گردش تیز کر رہے تھے اور اس پر اینکر پرسن جوشیلا اور رقعت آمیز انداز۔ راستے میں ایک جگہ اچانک گاڑی سائیڈ لائن پر آہستہ آہستہ رکی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ٹریفک کا بہاؤ سب سے زیادہ تیز رفتار ہوتا ہے۔ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ وہ باہر آئے۔ انھوں نے اپنے اردگرد اطمینان بھری نگاہ ڈالی اور اپنا رخ سڑک کی طرف کرلیا۔ اینکر پرسن کا گلہ رند ھ گیا۔
رات آٹھ بجے چینل ”ت“ نے بریکنگ نیوز دی کہ انھیں باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ انھوں نے رات کے کھانے سے پہلے روزانہ کے معمول کے مطابق سیر کے دوران ڈوب کر مرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ شہر کی جدید ترین آبادی میں جس کے پاس ضرورت کی ہر چیز اپنی تھی ایک واٹر گیم کے لیے وسیع جھیل بھی تھی۔ وہ روزانہ جھیل کے کنارے سیر کرتے تھے۔ آج رات وہ اسی جھیل میں ڈوب کر اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ چینل اپنے ناظرین کے لیے یہ سب مناظر براہ راست نشر کرے گا۔ ٹیلی ویژن کی سکرین نے دکھایا کہ وہ اپنے گھر سے شام کو پہننے والے لباس میں باہر آرہے ہیں اور آہستہ خرامی سے پار ک کی طرف چل پڑے ہیں۔ ساری بستی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی۔ رات کے وقت ریکارڈنگ کے لیے آلات سے لیس کیمرہ مین ناوف ان کی نقل و حرکت کو پیش کر رہے تھے بلکہ ایک کیمرہ مسلسل ان کے چہرے کے تاثرات ریکارڈ کر رہا تھا۔ ان کا چاہرہ ہمیشہ کی طرح پرسکون اور اطمینان کی جھلک دکھا رہا تھا۔ سکرین پر چلتی تصویریں اور اس کے پس منظر میں بیٹھی نسوانی آواز ناظرین کے دلوں کی دھڑکن کو بڑھا رہی تھی۔ سب دیکھ رہے تھے کہ وہ آہستہ آہستہ پانی کی جھیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جھیل کی سطح سے روشنیاں منعکس ہو رہی تھیں۔ اینکر پرسن کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ ان میں اور جھیل کے درمیان فاصلہ کم ہوتا جا رہا تھا پھر ایسا لگا کہ جیسے انھوں نے اپنا پاؤں جھیل کے پانی میں ڈال دیا ہو۔ کیمرہ دانشوروں کے درمیان وقوع کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوگیا جس میں ہر طرح کی تکنیکی اور ماہرانہ تفصیلات کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات، خودکشی کی نفسیات وغیرہ وغیرہ پر بھی جدید علمی سائنسی دلائل دیئے جا رہے تھے۔
رات دس بجے چینل ”ث“ پر بریکنگ نیوز چلی کہ اصل میں انھوں نے رات اپنے سونے کے کمرے میں پنکھے سے لٹکم کر خودکشی کا فیصلہ کیا تھا۔ چینل کو ان کی پرانی ڈائری میں ایک نوٹ لکھا ہوا ملا ہے جو انھوں نے اپنی جوانی میں تحریر کیا تھا۔ تب انھوں نے اپنی جان لینے کے اس طریقے کو سب سے زیادہ پرکشش قرار دیا تھا۔ چینل ”ث“کا امتیاز یہ تھا کہ وہ سب سے زیادہ جدت پسند مانا جاتا تھا جس سے اپنے سٹاف میں ایک ٹرانس جینڈر افراد کو بھی ملازمت دے رکھی تھی۔ اس چینل کا/کی ایک اینکر اپنے ناظرین میں بہت مقبول تھا/تھی۔ اس دن کی اہم ترین نشریات کے لیے اسی کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اینکر کی مردانہ/زنانہ آواز ایک مخصوص انداز میں ان کے کمرے میں ہونے والی حرکات و سکنات کی تفصیلات بتا رہی تھی۔ وہ اپنے مخصوص وقت پر پونے دس بجے کمرے میں داخل ہوئے۔ باتھ روم میں گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو اس کے جسم پر سونے کا لباس تھا۔ انھوں نے ایک نظر اپنے کمرے پر ڈالی۔ اپنے بستر کے بائیں جانب شیلف سے ایک کتاب منتخب کی۔ بستر کے ساتھ بنے دراز سے دوائی کی شیشی نکالی۔ پانی گلاس میں انڈیلا اور آہستہ آہستہ گولی کو اپنے حلق سے نیچے اتار لیا۔ پھر انھوں نے کچھ تلاش کرنے والے انداز میں دراز کی تلاشی لی۔ ایسا لگا کہ ان کا ہاتھ کسی چیز سے مس ہوا ہے۔ کیمرے نے ان کے چہرے پر سکون و اطمینان کے تاثرات ابھارے۔ انھوں نے بستر کے عین اوپر چھت میں لگے فین کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں کے ساتھ کیمرے نے حرکت کی۔ ناظرین کی آنکھیں جب پنکھے پر مرکوز ہوئیں تو انھیں اپنے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوتی محسوس ہوئی۔
اگلے دن گیارہ بجے تمام ٹی وی چینل ایک بریکنگ نیوز بڑی شد و مد سے دکھا رہے تھے۔ یہ ایک ویڈیو تھی جس میں وہ اپنے رشتے داروں، دوستوں، شہر کے باسیوں اور اپنے پیار کرنے والے مداحین سے اس بات کی معذرت کر رہے تھے کہ ان کے باعث انھیں ذہنی اور جذباتی دھچکے سے گزرنا پڑا۔ انھوں نے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور اب وہ اس وقت تک جینا چاہتے ہیں جب تک ان کی موت کا قدرتی وقت نہیں آجاتا۔