عجیب شہر

یہ تحریر 649 مرتبہ دیکھی گئی

شہر میں غیر انسانی آبادی میں بے چینی کی لہر مدت سے موجود تھی مگر گزشتہ چند دنوں میں اس میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا۔ یہ شہر تو اب مدت سے پرندوں، چرندوں اور دیگر مخلوقات کے لیے بے اماں ہوچکا تھا۔ جس طرح یہ شہر تیزی سے پھیلا تھا اس پر کسی عفریت کا گمان ہوتا تھا اور اس عفریت نے سب سے پہلے سا زمین پر بسیرا کرنے والے پرندوں کو نگلا تھا۔ مدت ہوئی اس شہر میں چہچہانے والی چڑیاں کوچ کرچکی تھیں۔ کبوتر خال خال دکھائی پڑتے تھے۔ کوئے کہیں کہیں اپنی جھلک دکھاتے اور دیگر پرندے تو دیکھنے کو اب آنکھیں ترستی تھیں۔
پرندوں کی بات تو ایک طرف سب سے زیادہ آفات تو زمین پر رینگنے والے کیڑوں پر ٹوٹتی تھیں جس کے رہنے کی زمین پر اب ریت سیمنٹ کی دیو ہیکل عمارتیں کھڑی تھیں ان میں رہنے والے اپنے مشاغل میں یہ بھول گئے تھے کہ زمین پر ان کے علاوہ دوسری مخلوقات کا بھی حق ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس شہر کے باسی اپنے علاوہ تمام مخلوقات کو مٹانے کے درپے ہیں۔ اگر آج یہاں کے مکین بے گھر ہوئے توکل وہاں کی مخلوقات کو اپنی آبادیوں کو خیر باد کہنا پڑا۔ چونٹیاں اپنے بل میں ابھی پوری طرح بسیرا بھی کر پاتی کہ انھیں اگلی منزل کی طرف کوچ کرنا پڑتا۔ خیر مکھیوں اور مچھروں کی تو بہتات تھی اور کیوں نہ ہوتی ان کے بسیرا کرنے کے لیے وافر سامان موجود تھا۔ ہاں چوہے بلی کا کھیل بھی اس شہر میں خوب ہوتا تھا مگر وہ جاندار جو ذرا انسانوں سے ہٹ کر زندگی گزارنے کے عادی ہیں اور اپنے مسکن کے لیے ویرانے پسند کرتے ہیں ان کے سانس لینے کی فضا کم ہوتی چلی جا رہی تھی مگر جیسی آفت کا سامنا اب تھا ویسا تو اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ سنا۔
کہنے کو تو یہ شہر سمندر کے کنارے آباد تھا۔ سمندر جس کا کوئی اور چھوا نہیں اور جس کے کنارے کھڑے ہو کر انسان کو نیل گو ابدیت میں اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ سمندر جس کے سینے میں چھپے راز، ساحل پر اپنا جلوہ دکھاتے رہتے ہیں اور جس کے آبی پرندے دور دیس کی خبریں لاتے ہیں اور اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ اس بیکراں وسعت کے اوپر ہوا کا ایک پل موجود ہے جو چاہے اس پر چل کر ادھر ادھر آجاسکتا ہے۔ تو اب تو یہ آبی پرندے بھی اس سمت کا رخ کم کرتے تھے اس شہر کے ساحل پر پھیلی گندگی انھیں دور جزیروں پر بسیرا کرنے پر آمادہ کرتی تھی کہ وہ تو طویل مسافت کے بعد آرام اور سکون کے متلاشی ہوتے تھے۔
کہتے ہیں کہ یہ شہر کسی مائی کانچی کے نام پر بسایا گیا تھا۔ اس مائی کی برکت تھی یا کوئی اور وجہ جب اس شہر نے ایک بار پھیلنا شروع کیا تو بس پھیلتا ہی چلا گیا۔ کبھی اس شہر سے کچھ فاصلے پر چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں جو منگھو پیر کے نام سے منسوب تھیں مگر اب تو شہر ان کے ارداگرد بھی آباد ہوچلا تھا اور ان پہاڑوں میں گزر اوقات کرنے والی مخلوقات میں سے اکثر یا تو دور دیس سدھار چکی تھیں یا ترقی کے پہیے کے نیچے آکر کچلی گئی تھیں اور جو کسی نہ کسی طرح ابھی تک اپنا وجود برقرار رکھے تھیں۔ سارا سارا دن اپنے مسکنوں میں رات اترنے کا انتظار کرتیں۔ رات تو شہر پر کم ہی اترتی تھی کہ شہر ساری رات جاگتا تھا مگر جہاں جہاں وقفہ پڑتے۔ یہ اپنے گھروں سے باہر آتی۔ اپنا پیٹ بھرتی، حسرت سے آسمان کو تکتی اور پھر آہستہ آہستہ اپنے مسکنوں میں جا پسرتیں۔
اس شہر پر کبھی دور دیسوں کے پرندے جب آتے تھے اور ورہاں کی باتیں تناتے تھے تو ان کے سننے کو سب جانور جاتی جمع ہوتے تو میلے کا سماں ہوتا تھا۔ جانور سب اکٹھے ہو کر گروہوں کی شکل میں آتے اور وہ جانور بھی جو ایک دوسرے کے ازلی دشمن تھے اس موقع پر اپنی عداوت بھلا کر ایک جگہ بیٹھ جاتے۔ کہانیاں سنتے، جوذرا زیادہ کن کھرلے تھے وہ ان کی باتیں نہایت توجہ سے سنتے اور پھر اگلے میلے تک یہ کہانیاں اپنے بچوں اور ان کو سناتے جو کسی وجہ سے اس موقع پر آ نہ پاتے تھے۔ بعض بعض جانور تو کہانی سنانے والے پرندوں سے سوال پوچھ پوچھ کر زچ کردیتے تھے مگر اب مدت سے یہ میلہ بند ہوچکا تھا کہ ہزاروں جانوروں کے جمع ہونے کے لیے جگہ ہی موجود نہیں تھی اور دوسرا اب دور دیسوں کے پرندے بھی کم آتے تھے۔
دور دیسوں کے جو پرندے آتے بھی تھے اب وہ بھی اپنے ساتھ اچھی خبریں کم لاتے تھے۔ انسان کی وحشت اور بربریت کی کہانی ہر طرف لکھی جا رہی تھی اور یہ کہانی کتنی بار سنی جاسکتی تھی۔ فضا، سمندر، پہاڑ سب زہر آلودہ ہوچکے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اجتماعی پاگل پن سے جس کا شکار ہو کر انسان ہر چیز کو مٹانے پر تلا بیٹھا ہے۔ جب کبھی دور دیس کے پرندے آتے تو وہ اس بات کا انتظار نہیں کرتے تھے کہ سب جمع ہو جائیں تو پھرکہانی سنائے بلکہ انھیں جو جو ملتا اسے کہانی سناتے۔ بار امانت آگے منتقل کرتے اور جلد سے جلد اس سرزمین کو چھوڑنے کی کوشش کرتے جو اب دارالامان نہیں رہی تھی۔ وہ تو اپنے سر سے بار اتار کر ہلکے ہو جاتے۔ جو یہ کہانیاں سنتا وہ دوسروں کو سناتا اور یوں چند دنوں میں بات اس شہر کی سب مخلوقات تک پہنچ جاتی مگر اس میں وہ مزا نہیں تھا جو ایک جگہ جمع ہو کر سب کی موجودگی میں بات سننے کا تھا۔ اب جانور جاتی میں بے رخی اور لا تعلقی بڑھ گئی تھی۔ اگر راہ چلتے ایک دوسرے سے ملاقات ہو بھی جاتی تو بیگانوں کی طرح گزرنے کی کوشش کرتے اور اگر کوئی ایک پہل کر بھی لیتا تو دوسرا رورکھا سا جواب دے کر اپنی راہ چل پڑتا۔ پہلے والا بھی زیادہ اصرار نہ کرتا کہ دونوں کو یہ فکر دامن گیر ہوتی کہ جلد از جلد وہ با سلامت اپنے مسکن میں پہنچ جائیں۔
مگر جو دور دیس سے آنے والے ظلم و بربریت کی کہانیاں سناتے تھے وہ اس شہر میں ہونے والے معمولی واقعات جان پڑتے تھے۔ اکثر کہانی سنانے والے بڑے گھمبیر لہجے میں بات شروع کرتا اور تجس کو ابھارنے والے سارے حربے استعمال کرتا مگر اس شہر کے مکین کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ وہ سب مروت میں کہانی سنتا۔ بس اتنا ہی کہتا اور اپنی راہ چل پڑتا۔ کوئی جب سناتا کہ وہاں ایسی خوفناک لڑائی ہوئی کہ سارا شہر بند ہوگیا تو یہاں کے جانور جاتی کے دل میں آتا کہ یہ کون سی بڑی بات ہے شہر کو بند کروانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک بازار میں دو لوگ گولیاں چلاتے داخل ہوں اور نعرہ لگائیں کہ دکانیں بند کردو لو شہر بند ہوگیا۔
کبھی جب سرخ آندھی چلتی تھی تو لوگ کہتے تھے کہ کسی جگہ کوئی ناحق قتل ہوا ہے مگر اب تو سا شہر میں ہر روز اتنے لوگ ناحق قتل ہوتے ہیں کہ سرخ آندھی اگر اسی وجہ سے چلے تو کبھی تھمے نا۔ قدرتی مظاہر بھی بدلتے حالات میں خود کو تبدیل کرتے ہیں۔ تو سب کچھ بدل گیا تھا اور اس بدلے ہوئے ماحول میں وہ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھے جن کا آپس میں کوئی لسانی، گروہی، فرقہ ورانہ یا سیاسی اختلاف نہیں تھا مگر پھر بھی وہ بے تحاشہ مارے جا رہے تھے۔
یہ خیال نجانے کس جانور کے ذہن میں آیا تھا مگر تھا ایسا کہ سب نے اسے قبول کرلیا تھا اور مدتوں بعد وہ پھر سے ایک جگہ جمع ہونے پر آمادہ ہوگئے تھے اور مقررہ وقت سب اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل پڑے تھے اور جوں درجوں اس مقام مقررہ کی طرف چل پڑے تھے جہاں ملنا طے ہوا تھا یہ کسی آبی پرندے سے کہانی سننے کا معاملہ نہیں تھا۔ نہ کسی میلے کا موقع جانور جاتی کی ایک میٹنگ میں صرف ایک بات پر غور کیا جانا تھا کہ وہ کون سی صورت ہے کہ سب جانور جاتی اپنی اپنی موت مرے، انسان کی موت نہیں۔
(مرکزی خیال ماخوذ)