بانو کیسے مری

یہ تحریر 695 مرتبہ دیکھی گئی

حسب عادت دوپہر کا کھانا کھاتے کھاتے وہ ایل سی ڈی کی سکرین پر خبریں اور اشتہار دیکھ رہا تھا۔ کبھی کبھی تو اشتہار اور خبر میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خبریں اشتہارات لگتی ہیں اور اشتہارات لگتا ہے کہ بے معنی خبریں دے رہے ہیں۔ اس نے لقمے چباتے ہوئے سوچا۔ سکرین پر بریکنگ نیوز کی پٹی چلی۔ کبھی اس پر وہ سنبھل کر بیٹھ جایا کرتا تھا مگر اب تو بریکنگ نیوز کی اتنی بھرمار ہوگئی تھ یکہ صرف عام خبر ہی ذہن کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی مگر خبر سنتے ہوئے اس کا منہ کی طرف لقمہ لے جاتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ ماضی کی ایک بہت خوبرو ہر دل عزیز اور بڑی اداکارہ کے دیار غیر میں مرنے کی خبر تھی جو رفتہ رفتہ سکرین کی چکاچوند سے پس منظر کے اندھیرے میں گم ہوگئی تھی۔ یہ بھی کوئی خاص بات نہ ہوتی مگر اس اداکارہ کی زندگی کے اسی سے کہیں بہت دور ایک تار اس کا بھی جڑا ہوا تھا۔
بانو کے مرنے کی خبر نے اس پر ملال اور حزن کی کیفیت طاری کردی تھی۔ وہ بے دلی سے آہستہ آہستہ کھانا کھاتا رہا۔ سکرین پر اس کے بارے میں چلنے والی خبروں کو دیکھتا رہا۔ اس نے کئی چینل تبدیل کئے ہر ایک پر بانو ہی کی موت کا تذکرہ تھا۔ اس کی خوبصورتی، خاندان، اداکاری، شہرت اور ہر دل عزیز ہونے کے تذکرے تھے۔ پھر خبریں سنانے والا یا والی لہجہ میں رقت پیدا کرتے ہوئے بتاتے کہ کیسے رفتہ رفتہ زمانے نے اس عظیم اداکارہ کو فراموش کردیا تھا۔ زمانے کی بے حسی اور معاشرے کی ناقدری کا تذکرہ کرتے۔ یہ کس سے شکوہ کر رہے ہیں۔ وہ تمام میڈیاکا فرد تھی اور جب تک زندہ رہی ان میں سے کتنوں نے کبھی سنجیدگی سے اس کے بارے میں سوچا بھی اور آج ہر چینل یہ جتانے میں مصروف ہے کہ وہ بانو کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہے اور ایسا اس وقت کیا جا رہا ہے جب وہ اس سب کی ضرورت سے آ زاد ہوچکی ہے۔
اگلے کئی دن اسے جب بھی موقع ملتا وہ ٹی وی پر مختلف چینل بدل کر دیکھتا جہاں بانو کے بارے میں کوئی خبر، کوئی تبصرہ یا کوئی پروگرام چل رہا ہوتا۔ اسے غور سے سننے لگتا۔ ہر جگہ ایک جیسی باتیں دھرائی جارہی تھیں۔ وہ بڑی خوب صورت تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ اپنے کالج کے زمانے سے بڑی با صلاحیت تھی۔ اس کی رگوں میں فن کار ماں باپ کا خون تھا۔ اسے بچپن ہی سے ایسا ماحول ملا جس نے اس کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ ذہنی مریضوں کے شفا خانے میں رہی۔ بڑے درد اور دکھ کے ساتھ اس کی زندگی کے اس پہلو کا تذکرہ کیا جاتا۔ کوئی بڑے جوش سے سوال کرتا وہ خود ذہنی امراض کو جانتی تھی پھر ذہنی مرض میں مبتلا کیتے ہوئی۔ بس معاشرے کا جبر اور گھٹن ہے۔ ایک دن ایک چینل پر اس کی نگاہ پڑی۔ بانو کے حوالے سے پروگرام چل رہا تھا۔ وہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اپنے زمانے کے دو جفادری ڈرامہ نگار، ایک خوبرو اداکارہ، اور ایک اداکار، اینکر وغیرہ بیٹھے بڑی درد بھری گفتگو کر رہے تھے۔ زمانے نے اسے فراموش کردیا۔ معاشرے نے اس کی قدر نہیں کی۔ حد یہ ہے کہ اس کے منہ بولے بیٹے کو قتل کردیا گیا۔ کسی نے اس کی داد رسی نہیں کی۔ ہمارا معاشرہ فنکار کو رفتہ رفتہ مار دیتا ہے۔ اب اسے اس گفتگو پر غصہ آنے لگا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ ٹیلی فون اٹھائے اور ان سے پوچھے کہ کیا وہ فنکار نہیں تو معاشرتی جبر انھیں کیوں نہیں مار سکا۔ وہ تو دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے آرہے ہیں۔
رفتہ رفتہ بانو کا تذکرہ کم ہوتا چلا گیا۔ اس کے بیٹے کے قتل پر اس کے بہنوئی نے بانو کی بہت بے عزتی کی تھی۔ یہ سوال کیا جائے کہ وہ تو نادار اور ذہنی طور پر بیمار تھی پھر اسے بیرون ملک علاج کے لیے کون اور کیسے لے کر گیا۔ اس راز سے پردہ اٹھنا چاہیے۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کیوں، کیسے وغیرہ وغیرہ کی گردان رفتہ رفتہ معدوم ہوتی گئی۔ فیس بکم کی پوسٹیں بھی پرانی ہو کر غائب ہوتی چلی گئیں۔ فیس بک کی ڈیسٹ بن میں بی چبائے ہوئے نوالوں اور بے سروپا حکایات کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ بانو کے عہد جوانی کی تصویر جس میں اس کے دل کش خد و خال دیکھنے والے اور مسحور کرتے تھے اور ڈپریشن کے شدید دورے کے زمانے کی تصویر جہاں ایک عظیم الشان عمارت کے کھنڈرات دیکھنے والے کے دل میں تاسف اور دکھ کی شدید لہر پیدا کرتے تھے مگر صرف چند ثانیے کے لیے۔ ہاں ایک پوسٹ نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچی تھی۔ یہ ذہنی شفا خانے سے وابستہ ایک ایسے معالج کی تصویر تھی جو آرٹ کے ذریے نفسی طریقہ علاج پر کبھی دل جمی سے کام کر رہا تھا۔ اس نے بانوکو اپنے کام میں شریک کیا تھا اور کچھ عرصے کے لیے بانو میں بہتری کے آثار پیدا بھی ہوئے تھے۔
یہ سب تو تھا مگر اسے تو اس کہانی میں ایک نام کی تلاش تھی ا ور وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ شاید اب شہر میں ایسے لوگ رہ ہی نہیں گئے جو بانو کی کہانی کے اس پہلو سے بھی واقف ہو۔ یا شاید وہ اس ذکر سے پہلو تہی کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھی اس پہلو سے لا علم ہوتا اگر اتفاق سے بانو کے چند سال بعد اسے بھی اس کالج اور شعبہ میں پڑھنے کا موقع نہ ملا ہوتا جہاں بانو پڑھتی رہی تھی۔
وہ شہر بلکہ ملک کا ایک ایسا منفرد تعلیمی ادارہ تھا جس نے زندگی اور ثقافت میں نئے رحجانات متعارف کرانے میں ہمیشہ اولیت حاصل کی تھی۔ ملک کو افسر شاہی مہیا کرنے میں بھی اس ادارے کو اولیت حاصل تھی جس کی وجہ سے اس ادارے کے طلباء اور طالب علم بڑے فخر سے ذکر کرتے تھے کہ اس ملک کو چلانے میں ان کے ادارے کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔ جب کہ مخالفین اس بات کو یوں بیان کرتے تھے کہ یہ کالج ٹوڈی بچے پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ انگریز تو چلا گیا لیکن اس کے پیدا کردہ ٹوڈی بچے اور ان کے بچے اس ملک کی خراب یاور تباہی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ خیر یہ باتیں تو اس کے سامنے بڑی دیر کے بعد آئیں۔ اصل میں جب اس نے شعبہ نفسیات میں داخلہ لیا اور اس جدید علم سے روشناس ہونا شروع ہوا تو اس نے بھی اس کالج کی فضا اور ثقافتی جمالیات سے خوب لطف اٹھایا یہ اور بات ہے کہ اس کی زندگی کے سارے اہم راستے اس کالج میں آنے سے پہلے متعین ہوچکے تھے۔
شعبہ نفسیات میں پڑھتے ہوئے یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے پرانے طلباء کا ذکر بھی ہوتا رہتا تھا۔ بانو کا تذکرہ بھی اس نے پہلی بار وہیں سنا ابھی کہ وہ بانو کے ٹی وی ڈرامے دیکھتا رہا تھا اور اس کے حسن اور اداکاری کا مداح تھا۔ اب یہ تو اسے یاد نہیں کہ بانو کے ساتھ کرامت کا ذکمر پہلی بار اس نے کس سے اور کیسے سنا تھا۔ کرامت جو بانو کا ہم جماعت اور شادی شدہ مرد تھا۔ زمیندار گھرانے کا چشم و چراغا جو شہر میں پڑھنے صرف اپنے شریکے پر رعب ڈالنے کے لیے آیا تھا مگر پھر ساری عمر کے لیے اسی شہر کا ہو کر رہ گیا۔ اپنی بیوی اور بچے تو اس نے گاؤں ہی میں رہنے دیئے اور کال ختم ہونے کے بعد شہر میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ وحدت کالونی میں فلیٹ الاٹ کروالیا۔
بانو اور کرامت کے تعلق کے چرچے تو دوران تعلیم ہی شروع ہوگئے تھے۔ بانو جو کالج ہی کی ہر دل عزیز لڑکی نہیں تھی بلکہ اس نے ٹیلی ویژن کی دنیا میں بھی قدم رکھا تھا اور اپنے حسن اور اداکاری کے جوہر سے ابتدائی کامیابیاں بھی حاصل کرلی تھیں۔ کالج میں بہت سے لڑکے اور پروفیسر اس کی نگاہ التفات کے منتظر تھے۔ مگر اسے پینڈو سے کرامت میں نجانے کیا نظر آتا تھا کہ پھر ساری زندگی اس کے دل میں گھر نہ کرسکا۔ ایسا نہیں کہ بانو صرف خوب صورت تھی یا اس میں صرف اداکاری کا جوہر ہی تھا۔ وہ ایک ذہین طالب علم تھی۔ نفسیات کے علم میں اسے قدرتی دلچسپی تھی۔ شکستہ دل اور نفس اسے اپنی طرف کھینچتے تھے۔ کورس کی تکمیل کے لیے جب ذہنی مریضوں کی کیس ہسٹریاں بنانے کا وقت آیا تو اس نے ایسی دل جمعی سے کام کیا کہ اس کا سپروائزر بھی حیران رہ گیا۔ اس نے نا صرف اپنی کیس ہسٹریاں بنائیں بلکہ کرامت کو بھی بنا کردی۔ اس دوران کرامت بس اس کے ساتھ ساتھ رہا۔
کرامت کی محبت کا بانو کو اسی طرح یقین تھا جیسا کہ اپنی محبت پر۔ اس کے دل میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں تھا۔ ایسا اس وقت رہا جب وہ ایک دن بغیر بتائے کرامت کے فلیٹ پر پہنچ گئی اور وہاں ایک اور خوب صورت اور جوان لڑکی کو دیکھ کر اسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے اور اس کے سر پر سے محبت کے اس بادبان کو چاک کردیا ہے جس کے سہارے وہ کئی سال سے کرامت کو اپنی ذات کا حصہ سمجھتی رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کرامت شادی شدہ اور بال بچے دار آدمی ہے مگر یہ تو ان دونوں کے ملنے سے پہلے ہوچکا تھا اور اسے بانو نے ایک ایسی حقیقت کے طور پر قبول کرلیا تھا جس کے ساتھ بآسانی زندگی گزاری جاسکتی تھی۔ مگر کرامت کی زندگی میں اس کے علاوہ اور لڑکیاں بھی ہیں یہ بات اسے ہضم نہیں ہوتی تھی۔
تب پہلی بار اس پر ڈپریشن کا شدید دورہ پڑا تھا۔ اسے لگا کہ اس کی زندگی بے وقعت اور اس کا وجود بے معنی ہے۔ شدید مایوسی میں اس نے اپنے ہاتھ کی رگیں کاٹ لیں۔ اس کے ساتھ رہنے والی بہن کو جلد ہی صورت حال کا علم ہوگیا وہ اسے ہسپتال لے گئی جہاں اس کی جان تو بچا لی گئی لیکن ڈپریشن سے نکلنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں تھا یہاں اس کی مدد کرامت نے کی۔ وہ پہروں اس کے ساتھ رہنے لگا۔ بانو کے موڈ کے مطابق بات کرتا۔ ورنہ اس کے ساتھ خاموش بیٹھا رہتا۔ رفتہ رفتہ بانو کے اندر بکھری چیزیں پھر سے جڑنے لگیں۔ وہ زندگی کی طرف واپس لوٹ آئی اور حیرت انگیز طور پر اس نے کرامت کی اس روش کو بھی قبول کرلیا۔
ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا میں اس کی مصروفیت بڑھتی گئی۔ عزت، شہرت اور دولت اس نے سب کچھ حاصل کرلیا۔ کئی ہاتھ اس کی جانب بڑھتے۔ کچھ وقتی تعلق کے لیے اور کچھ زندگی بھر کے ساتھ کے لیے۔ وہ ہمیشہ ایک باوقار خاموشی سے معاملے کو ختم کردیتی۔ ڈھلتی عمر کی طرف بڑھتے اس کے قدم بہت سے سوال اٹھا رہے تھے۔ اس سے انٹرویو کرنے والے اب اکثر سوال کرنے لگے تھے کہ وہ کب اور کس سے شادی کرے گی۔ اس طرح کی ہر بات کا جواب وہ خاموشی سے دیتی۔ اس کی بہن نے جب بھی اسے زمانے کی اونچ نیچ کے بارے میں سمجھانا چاہا وہ ہتھے سے اکھڑ جاتی۔اسے خوب جلی کٹی سناتے، پھر اپنے کمرے میں بند ہو کر دیر تک روتی رہتی۔ ایک بار جب اس کی بہن نے اسے سمجھانا چاہا کہ جوانی میں محبت تو سب کرتے ہیں مگر کوئی اس طرح کی بے وفائی کے بدلے میں خود کو تباہ نہیں کرتا۔ دو چار دن میں لوٹ پھوٹ کے ہٹے کٹے ہو جاتے ہیں تو بانو نے بڑا مختصر جواب دیا۔ کہ یہ اعزاز کسی کسی کے حصے میں ہی آتا ہے۔
ایسا نہیں کہ بانو نے بغیر کسی پیش و کم اس صورت حال کو قبول کرلیا ہو۔ ابتداء میں اسے شدید غصہ آیا تھا۔ اپنے پر اور کرامت پر۔ پھر اس کے اندر دکھ اور نفرت کے جذبات ایک ساتھ جاگے تھے۔ دکھ اپنے وجود کے بے حقیقت ہونے کا اور نفرت کرامت کے لیے جس نے اسے دھوکا دیا تھا۔ اس نے شوبز سے وابستہ ہونے کے باوجود اپنے وجود کو ان آلائشوں سے بچایا تھا جو اس کاروبار میں آنے والی خواتین کا مقدر سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے دل میں انتقام بھی جاگا تھا کرامت کو مٹا دینے، اس سے دھوکا کا بدلہ لینے کا خیال جیسے اس وقت پائے تکمیل تک پہنچا۔ اس کے لیے کچھ ایسا مشکل بھی نہیں تھا۔ مگر ایک ڈرامے کی ریکارڈنگ کے دوران سکرپٹ پڑھتے ہوئے اسے لگا کہ اس کے اندر سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ ڈرامہ اپنے وقت کے ایک بڑے ڈرامہ نگار کی تخلیق تھا اور جب ٹیلی ویژن پر چلتا تھا تو لوگ اپنے کام چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس ڈرامے میں بانو کی اداکاری کو بھی بہت پسند کیا جا رہا تھا۔ اس ڈرامے کی پروین کے لیے لکھے گئے مکالمے پڑھتے ہوئے بانو کو لگا کہ یہ خاص طور پر اس کے لیے لکھے گئے ہیں۔ اس نے اس مکالمے پر غور کیا اور یکلخت اسے لگا کہ اس کے اندر کی دنیا یکسر بدل ہی گئی۔ ایک گہرا سکون اور تسکین اس کے دل میں گھر کر گئی ہے۔ مکالمہ تھا:
”میرے اور تمھارے تعلق میں کوئی غرض نہیں۔ غرض تو خون کے رشتوں میں ہوتی ہے یا پھر قانون کے رشتوں میں۔“
کرامت اور اس کا تعلق چلتا رہا۔ وہ جان چکی تھی کہ کرامت ایک دو عورتوں پر اکتفا کرنے والا نہیں اور اس بات کو اس نے قبول بھی کرلیا تھا۔ بس ایسا ہوتا کہ اپنی مصروفیات سے اسے جب بھی وقت ملتا وہ کرامت کے پاس پہنچ جاتی یا اسے اپنے ہاں بلا لیتی۔ دونوں گھنٹوں ایک دوسرے کی معیت میں وقت گزارتے۔ ہنستے، روتے ہر طرح کی باتیں کرتے۔ ایک دوسرے کو بے تحاشہ چومتے، وصل کے تجربے سے گزرتے۔ ایسا جب بھی ہوتا بانو شدید افسردگی اور مایوسی کی حالت میں اپنے گھر لوٹتی۔ کئی کئی دن خود کو اپنے کمرے میں بند رکھتی۔ نیند کی گولیاں کھا کر پہروں سوتی رہتی۔ اس دوران اس کے ڈراموں کی ریکارڈنگ بھی متاثر ہوتی۔ مگر اس بات کی اسے زیادہ پرواہ نہیں تھی۔
بہن اب بانو کی حرکتوں سے تنگ آچکی تھی مگر وہ اپنی زندگی کے لیے بانو پر انحصار کرتی تھی اس لیے اسے زیادہ مجبور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ شہرت کا سورج نصف سفر طے کرکے زوال آمادہ تھا۔ بانو کی حرکتوں نے اسے ناپسندیدہ بنانا شروع کردیا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتی۔ اپنے خیالوں میں گم چونک اٹھتی۔ مکالمے بولتے بولتے بھول جاتی، کبھی کبھی بلا وجہ غصے میں آجاتی، پھر رونے لگتی۔ بانو کے ساتھ دن بدن کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ تب ایک ہی ٹی وی چینل تھا اور اب پروڈیوسروں نے اسے نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ کبھی کبھی وہ خود ٹیلی ویژن سٹیشن پہنچ جاتی۔ پرانے تعلقات کے حوالے سے اسے کچھ چھوٹا موٹا کردار دے کر ٹرخایا جانے لگا۔ مزندگی میں سب کچھ بکھرتا جا رہا تھا۔ مگر کرامت کے ساتھ اس کا تعلق موجود تھا۔ اسے لگتا تھا کہ جب تک کہ کرامت اس شہر میں موجود ہے وہ زندہ ہے اسے کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ تعلق تب بھی چلتا رہا جب کرامت کے بیوی بچے گاؤں سے شہر آگئے۔
پھر بانو نے ہمیشہ کی طرح ایک اور غیر متوقع فیصلہ کیا جس پر عمل کرنے سے اس کی بہن نے روکنے کی کوشش تو کی لیکن وہ جانتی تھی کہ بانو جو کچھ اپنے دل میں ٹھان لیتی ہے پھر اسے نہ تو کوئی بدل سکتا ہے نا اس پر عمل کرنے سے روک سکتا ہے۔ بانو نے یہ بچہ گود لے لیا اور ایک بیٹے کی طرح اس کی زندگی گزارنے لگا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ زندگی کی اس نئی جہت نے بانو کی زندگی کا سہارا دیا۔ اس کا سارا وقت اپنے بچے کے ساتھ گزرنے لگا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے کام وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی۔ اس کا انہماک دیکھ کر بعض زبانوں سے یہ بھی سنا گیا کہ یہ اس کا اپنا اور کرامت کا بیٹا ہے جسے وہ لے پالک ظاہر کر رہی ہے۔ حسب دستور بانو نے نہ تو کسی بات کا جواب دیا نہ ہی تردید کی۔
ایسا لگتا تھا کہ زندگی جیسے ایک () پر آگئی ہے۔ ڈراموں میں اب کام تو کم کم ہی ملتا تھا مگر اچھے وقتوں میں کمائے اور احتیاط سے خرچ کرنے اور کچھ نہ کچھ پس اندا ز کرتے چلے جانے کی عادت نے بانو کو اپنا بھرم قائم رکھنے میں مدد دی تھی۔ گھر چوں کہ اپنا تھا اس لیے رہنے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اوپر والی منزل بانو کی بہن کے لیے تھی جبکہ نچلی منزل پر وہ اپنے بیٹے کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے مایوسی اور افسردہ کا دورہ ضرور پڑتا۔ رات کو سونے کے لیے نیند کی گولیاں بھی ضروریتھیں مگر کبھی کبھی ملنے والے کرامت کے ساتھ نے زندگی کو قابل برداشت بنا رکھا تھا۔ کرامت کے ساتھ گزارے چند گھنٹے وہ ٹانک تھا جس کے سہارے وہ ہفتوں لوگوں کو بھلی چنگی دکھائی دیتی تھی۔ پھر یہ احساس ہمہ وقت اس کے ساتھ رہتا تھا کہ اس شہر میں ایک ایسا وجود ہے جو اس کی زندگی کو با معنی بناتا ہے۔
یہ سب ایسا ہی چلتا رہتا مگر ایک خبر نے سب کچھ تہہ و بالا کردیا۔ یہ خبر ایک ایسے دوست نے دی تھی جو بانو اور کرامت کے تعلق کو بہت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی سن کر اس کے نو عمر بیٹے نے فون اٹھایا تھا۔ اور پھر یہ کہہ کر ریسور اس طرف بڑھا دیا تھا کہ ممی آپ کا فون ہے۔ اس نے ریسور پکڑا۔ دوسری طرف سے مردانہ آواز نے اپنا تعارف کروایا۔ وہ اسے کرامت کے دوست کے طور پر اچھی طرح جانتی تھی۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑکا۔ اس نے آج کل اسے فون نہیں کیا تھا۔ ”خیریت“ اس نے ڈوبتی آواز سے پوچھا۔ دل کا دورہ پڑنے سے کرامت کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے بعد نہ تو اسے کچھ سنائی دیا نہ سجائی۔ اسے لگا کہ وہ ایک پاتال میں اترتی جا رہی ہے جس سے نکلنے کی کوئی خواہش اس کے اندر موجود نہیں۔