تیسرا زاویہ

یہ تحریر 621 مرتبہ دیکھی گئی

وہ ایک مثالی جوڑا تھا۔ شرجیل مردانہ وجاہت، امارت اور تعلیم و تربیت کا مجموعہ، انوشہ خوب صورت، دلکش شخصیت کی حامل، اعلیٰ تعلیم اور خاندانی پس منظر کے ساتھ برسوں کی رفاقت محبت میں اور محبت کی شادی کے تعلق میں بدلنے سے چھ سال کی شادی شدہ زندگی نے دونوں کے تعلق میں کوئی فرق پیدا نہیں کیا تھا۔ دیکھنے والوں کے لیے وہ قابل رشک زندگی گزار رہے تھے اور واقعی ایسا تھا بھی۔ اپنے اردگرد کے لوگوں سے محبت اور خلوص سے اپنے تعلق کو نبھاتے، شہر میں چلنے والے فیشن کے مطابق کپڑے اور جوتے بدلتے ہوئے، ان دونوں کو کبھی ایک دوسرے سے یہ شکایت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ ان کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے۔

زندگی میں انھیں تقریباً سب کچھ حاصل تھا۔ شہر کے مہنگے علاقے میں چار بیڈ روم کی وسیع و عریض رہائش گاہ دونوں کی جدید ترین ماڈل کی اپنی اپنی گاڑی، گھر کا کام کرنے کے لیے ملازم، کالج، یونیورسٹی کے دور کے دوستوں کی رفاقت، سماجی و ثقافتی محفلیں، خاندانی اور پیشہ ورانہ دوستوں کی دعوتیں۔ شرجیل صبح دس بجے کے قریب سے نکلتا۔ دفتر میں امپورٹ ایکسپورٹ کے کام نبھاتا۔ شام ڈھلے جب گھر پہنچتا تو ہلکی سی تھکاوٹ، انوشہ کی مسکراہٹ سے دھل جاتی۔ ان کی شامیں اکثر اکٹھے گزرتی تھیں۔ شہر کے مہنگے کلبوں، ہوٹلوں، ریسٹورانوں میں کبھی ایک دوسرے کی رفاقت میں اور کبھی دوستوں کی معیت میں وہ رات کے دوسرے پہر اپنے گھر لوٹتے تو جذبے کی حرارت سے دمک رہے ہوتے۔ ان کے بیڈ روم میں ایسی بہت سی سہولتیں موجود تھیں جن کا ا کثر لوگ صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے لیکن وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں () ان کی ملاقات اے لیول کے دوران ہوئی تھی۔ ان کے مضامین بھی ایک جیسے تھے۔ ان کے رہنے کے رنگ ڈھنگ بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ اس لیے جلد ہی ان کی دوستی رفاقت میں بدل گئی۔ شرجیل سگریٹ کا ذائقہ چکھ چکا تھا جب کہ انوشہ نے پہلی بار شرجیل کے ہونٹوں سے چھوٹے ہوئے سگریٹ سے کش لیا تھا۔ صرف خالی سگریٹ ہی نہیں بلکہ بھرا ہوا سگریٹ، شراب اور زندگی کے اور بہت سے ذائقے انوشہ نے شرجیل کے ساتھ ہی چکھے تھے۔ ہر تجربے کے بعد اسے لگتا کہ شرجیل کے ساتھ اس کا تعلق پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ شرجیل کے جذبات و احساسات بھی کچھ ایسے ہی تھے اس لیے تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی کے فیصلے کو سب نے ایسے معاملے کے طور پر دیکھا تھا جسے ہونا ہی تھا۔

شادی کے بعد ان کے معاملات میں کچھ زیادہ فرق تو نہیں آیا تھا۔ باہمی اعتماد اور محبت پہلے سے زیادہ ہوگئے تھے۔ ایک دوسرے کی رفاقت انھیں بور نہیں کرتی تھی۔ وہ ایک دوسرے کے مزاج شناس تھے۔ پسند نا پسند کو جانتے تھے اور ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ اپنی زندگی میں بدن اور جذبے کا کوئی تقاضا ایسا نہیں تھا جو انھوں نے پورا نہ کیا ہو۔ ایک دوسرے کی کوئی ایسی طلب نہیں تھی جسے وہ پورا نہ کرتے رہے ہوں۔ مگر رفتہ رفتہ انھیں احساس ہونا شروع ہوا کہ زندگی میں سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ انھوں نے اس بات کو ایک دوسرے سے چھپانے کی بالکل کوشش نہیں کی بلکہ بہت اچھے دوستوں کی طرح اس پر کھل کر بات کی۔ انھیں لگا کہ زندگی میں رنگارنگی کی کمی ہے اور اس میں کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ بدنی تعلقات کی فلمیں دیکھتے ان میں اختیار کئے جاتے انداز خود بھی اپناتے، اپنے تعلق کے لطف کو دوبالا کرتے۔ یوں انھیں لگتا کہ وہ اپنے تعلقات میں اس سرد مہری کا شکار نہیں ہو رہے جو اس شادی شدہ جوڑے کا ()

اب رفتہ رفتہ زندگی میں ایک اور کمی کا احساس ہونے لگا تھا کہ وہ میاں بیوی سے والدین کا درجہ حاصل نہیں کرسکے تھے۔ دونوں نے اپنا طبی معائنہ کروایا۔ دونوں مکمل طور پر صحت مند اور بچہ پیدا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔ شاید قانون اتفاق ان کے خلاف چل رہا تھا لیکن اس کی انھیں زیادہ فکر نہیں تھی۔ اگر کچھ کمی ہوتی تو وہ اپنے پورا کرنے کی کوشش بھی کرتے۔ جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا تو معاملہ وقت پر چھوڑ دینا زیادہ بہتر تھا۔ زندگی ایسے ہی گزرتی چلی جا رہی تھی مگر کسی کمی، کسی لا حاصلی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ دونوں بار بار اس موضوع پر بات کرتے مگر کوئی بھی نتیجہ نہ نکلتا۔

ایک خیال شاید دونوں کے ذہن میں ایک ساتھ پیدا ہوا تھا اور وہ بھی ایک فلم دیکھتے ہوئے کہ شاید وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے بدنی تعلق میں زیادہ مسرت حاصل نہیں کر رہے اور اگر وہ اس میں کسی تیسرے کو بھی شامل کرلیں تو وہ کمی پوری کرسکتے ہیں جو انھیں اپنے تعلق میں دن بدن بڑھتی محسوس ہو رہی ہے۔ انھوں نے ا س پر بھی بڑی صاف گوئی سے بات کی۔ وہ اس خیال سے تو متفق تھے کہ ایسا کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ مگر ایسا کون ہوگا جسے وہ اپنے اتنے قریب کرسکیں۔ شرجیل کا تعلق تھا کہ وہ کوئی ان کی خاتون دوست ہوسکتی ہے یا پھر کوئی پیشہ ور خوبرو لڑکی بھی۔ مگر اس خیال کو انوشہ نے پسند نہیں کیا کیوں کہ اپنے سارے کھلے پن کے باوجود وہ شرجیل کو کسی عورت کے ساتھ باٹنے پر خود کو آمادہ نہیں پا رہی تھی۔ مرد کی شمولیت کے معاملے کو شرجیل نے زیادہ ناپسندیدگی سے دیکھا تھا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔

ایک دن دوپہر کو شرجیل کا فون آیا کہ وہ چار بجے تک گھر آجائے گا انوشہ اچھی سی چائے کا بندوبست کرے اس کے ساتھ ایک دوست بھی ہوگا۔ یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی کبھی کبھی شرجیل کے ساتھ کوئی پرانا دوست، یا کوئی اور جاننے والا گھر آ ہی جاتا تھا اس لیے انوشے نے اسے معمول کی بات سمجھا۔ شام کو ایک () آیا وہ ان سے چار پانچ سال کم عمر دکھائی دیتا تھا۔ دیکھنے میں پرکشش، اپنے حلیے اور بول چال میں انھی کے طبقے کا معلوم ہوتا تھا۔ وہ تینوں ایک گھنٹے تک اپنے سجے سجائے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے رہے۔ شرجیل نے بتایا کہ آنے والے کا نام ندیم ہے اور ان دونوں کی ملاقات کو زیادہ دن نہیں ہوئے۔

انوشے ندیم کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی تھی ایک گھنٹے کی ملاقات میں وہ اس کے انداز و اطوار سے متاثر بھی ہوئی مگر وہ اس بارے میں کچھ طے نہ کر پائی کہ آج شرجیل اسے اپنے گھر لے کر کیوں آیا تھا۔ ندیم کے بارے میں سب کچھ اچھا ہی دکھائی دیتا تھا سوائے اس میں موجود ایک ایسی کیفیت کے جو انوشے کو اجنبی اجنبی لگتی تھی۔ رات بستر پر لیٹ کر شرجیل نے جب انوشے سے پوچھا کہ اسے ندیم کیسا لگا تو اس کا پہلا جواب تھا کہ اچھا ہے مگر پھر اس نے جوابی طور پر پوچھا کہ وہ ایسا کیوں پوچھ رہا ہے۔ شرجیل نے انوشہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر ندیم کو وہ اپنے تیسرے پارٹنر کے طور پر قبول کرلے تو کیسا رہے گا۔ انوشے نے چونکم کر اسے دیکھا اور پھر قدرے حیرت سے بولی کہ شرجیل تو کسی مرد کو اپنے درمیان جگہ دینے کو تیار ہی نہیں تھا۔ شرجیل کے ہونٹوں پر شرارت انگیز مسکراہٹ ابھری۔ اور اس نے کہا کہ ندیم مرد ہے بھی نہیں۔ اس سے ہم دونوں میں سے کسی کو بھی خطرہ یارقابت محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

انوشے پر ایک دم ساری حقیقت کھل گئی۔ اسے عجیب سا لگا۔ تھوڑا غصہ بھی آیا کہ شرجیل نے کس ڈھنگ سے سوچا تھا۔ انوشے کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو دیکھتے ہوئے شرجیل نے اسے بتایا کہ ندیم چند دن پہلے اس کے دفتر میں ملازمت کے لیے آیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اچھے کھاتے پیتے گھرانے کا ہے۔ اپنی زندگی خود مختارانہ انداز میں گزارنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے دو تین جگہ ملازمت کرچکا ہے مگر ہر جگہ کچھ عرصے میں لوگ اس کے بارے میں جان جاتے ہیں۔ اس کی تحقیر شروع کردیتے ہیں اور وہ ملازمت چھوڑ دیتا ہے۔ ندیم نے اپنی حالت کے بارے میں شرجیل کو خود بتا دیا تھا تاکہ ملازمت دیتے ہوئے وہ اندھیرے میں نہ رہے۔ شرجیل نے بتایا کہ تب اس نے ذہن میں یہ خیال آیا تھا۔ ابھی تک اس نے ندیم پر خیالات ظاہر نہیں کئے تھے وہ اسے صرف اس لیے گھر لایا تھا کہ انوشے اگر اسے پسند کرلے تو وہ بات آگے چلائے۔

انوشے نے کچھ دیر کے لیے سوچا اور اسے اس بات میں کوئی حرج محسوس نہ ہوا کہ ندیم ان کے درمیان تیسرے زاویے کا کردار ادا کرے۔ انھیں یقین تو نہیں تھا کہ اپنے تعلق میں جس کمی کو وہ دونوں محسوس کرتے ہیں اسے ندیم پورا کرسکتا ہے۔ مگر وہ دونوں اس تجربے میں ایک کشش ضرور محسوس کر رہے تھے۔ وہ بدنی تعلق جو اب تک دو لوگوں کے درمیان تھا۔ اب اس میں تیسرے فرد کا اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک ایسا فرد جس میں عورت اور مرد دونوں یکجا تھے اور جیسے ان دونوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا تھا۔

تین دن بعد پروگرام کے مطابق انوشے نے ملازمین کو چھٹی دے دی۔ آٹھ بجے کے قریب ندیم ان کے گھر آیا۔ تینوں نے اکٹھے کھانا کھایا۔ ڈرائی فروٹ اور کافی سے لطف اٹھایا اور پھر خاموشی سے تینوں بیڈ روم میں چلے آئے۔ انوشے نے اتنا اہتمام ضرور کیا تھا کہ یہ وہ بیڈ روم نہیں تھا جیسے شرجیل اور وہ سونے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہ دونوں اپنے اندر ایک تھرل سی محسوس کر رہے تھے۔ انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے درمیان کوئی نیا در کھلنے جا رہا ہے۔

اگلے دن وہ دونوں بڑے ہشاش بشاش، خوش و خرم دکھائی دیتے تھے۔ انھیں لگا کہ ان کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ وہ اپنے تعلق کے ایک نئے بعد میں داخل ہوگئے۔ دو بدنوں کے درمیان ایک تیسرے بدن نے تعلق کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا تھا۔ وہ فلموں میں تو اس طرح کے بہت سے مناظر دیکھ چکے تھے مگر دیکھنا اور خود کرنا بہت مختلف معاملے ہیں۔ ندیم بدنی معاملات میں کافی تجربہ کار تھا مگر اس کے لیے بھی یہ پہلا تجربہ تھا کہ ایک مرد اور عورت کے درمیان اسے واسطے کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس سے پہلے اس کے کئی مردوں کے ساتھ تعلقات رہے تھے۔ وہ وقتاً فوقتاً شدت سے مرد کی ضرورت محسوس کرتا تھا۔ کبھی کبھی اسے عورت کی شدید خواہش بھی ہوتی تھی اس کی اہری وجاہت سے متاثر ہو کر بعض لڑکیاں اس کی جانب متوجہ بھی ہوتی رہی تھیں مگر عورت کی طر بڑھتے ہوئے ایک نامعلوم خوف اچانک اسے گھیر لیتا اور وہ پیچھے ہٹ جاتا۔ ہاں پختہ عمر کی مالدار عورتیں اپنا جسم دبوانے اور مالش کروانے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جاتی رہی تھیں۔

پہلے تجربے کی کامیابی کے بعد ان کے درمیان طے پایا تھا کہ ہر ہفتے ایک رات وہ اکٹھے گزارا کریں گے۔ اگلی ملاقات کا پہلے ہی طے کرلیتے تھے۔ تینوں کے پاس ایک دوسرے کے سیل نمبر اور واٹس اپ موجود تھے مگر وہ آپس میں رابطہ کم کم ہی کرتے تھے۔ زیادہ تر رابطہ شرجیل اور ندیم کے درمیان ہی ہوتا تھا۔ شرجیل اسے ہر مہینے ایک معقول رقم بطور معاوضہ ادا کرتا تھا۔ ندیم ان کے معاملات میں اتنا ہی دخل دیتا، جتنا وہ پسند کرتے۔ انوشے کو احساس ہوتا تھا کہ ندیم کی حسیات عام لوگوں سے زیادہ تیز ہیں۔ خاص طور رپ حس جمال اور حس تناسب ان کے گھر، کمرے میں، اپنے ارد گرد، دنیا کے معاملات میں دوسرے لوگوں کی کیفیات، جذبات میں۔ ندیم سب باتوں کو اپنے انداز میں محسوس اور بیان کرتا تھا۔ یہ انداز اور بیان انوشے سے بھی مختلف تھا اور شرجیل سے بھی۔ انوشے کو یہ احساس ہوتا تھا کہ ندیم جو زبان استعمال کرتا ہے، اپنے جذبات و احساسات کو جن لفظوں میں بیان کرتا ہے وہ بھی ان سے قدرے مختلف ہیں۔ انوشے کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ ندیم ان دونوں کو پسند کرنے لگا ہے۔ لیکن ()

اس تعلق کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ انوشے اپنے اندر ندیم کے لیے ایک خاص تعلق محسوس کرنے لگی۔ یہ تعلق وہ نہیں تھا جو ایک عورت ایک مرد کے لیے محسوس کرتی ہے۔ وہ تعلق بھی نہیں تھا جو کوئی بڑا کسی چھوٹے کے لیے محسوس کرتا ہے۔ یہ افلاطونی محبت بھی نہیں تھی کہ وہ ندیم کو پورے طور پر محسوس کرتی تھی۔ ایک مردانہ بدن جس کی نرمی اور ہلکی لطافت اس کی انگلیوں کی پوروں کو راحت بخش محسوس ہوتی تھی۔ وہ بدن جس نے شرجیل کے ساتھ اس کے تعلق کو ایک نئی جہت دی تھی۔ وہ بدن جس کے ساتھ بدن کے تقاضوں کو پورا کرتے کرتے آخر میں شدید کھوکھلے پن کا احساس ہوتا تھا۔ ایسا کبھی کبھی ہی ہوتا تھا کہ ندیم کا بدن اس کے بدن کو ڈھانپ لے۔ تب اسے اپنے اوپر مردانہ بدن محسوس تو ہوتا تھا مگر ایسے جیسے پلاسٹر آف پیرس یا موم کا کوئی مجسمہ ہو۔ البتہ ایک بات اس نے ضرور محسوس کی تھی کہ جب بھی ندیم کا بدن اس کے بدن کو ڈھانپتا ہے تب شرجیل کے اندر ایک نئی وحشت سر اٹھاتی ہے۔ یہ وحشت انوشے کو کھوکھلی محسوس ہوتی تھی۔ اس شخص کی وحشت جسے یہ یقین ہو کہ وہ اپنی آخری شکست کے قریب ہے۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے انوشے کو ندیم سے اکیلے میں ملنے کا خیال آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ شرجیل چند دنوں سے اپنے کاروباری دورے پر ملک سے باہر تھا اور یہ وہ دن تھے جب وہ ہمیشہ کسی کی ضرورت بہت شدت سے محسوس کرتی تھی۔ اس نے ندیم کو فون کیا۔ ندیم کی آواز میں اسے محبت کی جھنکار سنائی دیے۔ تھوڑی دیر میں انوشے اور ندیم اس بیڈروم میں تھے جو صرف شرجیل اور اس کے لیے مخصوص تھا۔ ندیم کے چہرے پر تھوڑی سی حیرت تو آئی تھی لیکن پھر اس نے جلد ہی اپنی کیفیات کو چھپا لیا تھا۔ اسے لگا کہ ندیم اپنے دلی جذبات کو چھپانے کی حیرت انگیز قدرتی صلاحیت رکھتا ہے اور شاید اس میں یہ صلاحیت عورت سے بھی زیادہ ہے۔

اس ملاقات میں انوشے نے ندیم سے بڑی لمبی گفتگو کی تھی۔ دونوں یقینا رات بھر جاگتے رہے تھے۔ کئی بار کچن میں جا کر کچھ کھا پی لیتے۔ ایک بار کسی بات پر ندیم اس سے الجھ پڑا تھا اور ایسا مہینوں کے تعلق میں پہلی بار ہوا تھا۔ انوشے کرید کرید کر ندیم سے اس کی زندگی اور تجربات کے بارے میں پوچھتی رہی تھی۔ وہ بھی سب کچھ صاف صاف بتاتا رہا تھا۔ بچپن کے اس دور کی یادیں جب وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہتے ہوئے بار بار اپنے بڑے بھائی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا اور کبھی کبھی اپنے بڑے بھائی سے پٹتا بھی تھا۔ اپنے بڑے بھائی سے مار کھانے میں اسے عجیب لذت کا احساس ہوتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ یہ مار دراصل اس کے اندر ایک گہرے احساس، ایک گہری خوشی کو ابھارتی ہے۔ ایسے میں بعض اوقات اسے اپنی ماں پر شدید غصہ آتا جو اسے مارنے پر بڑے بھائی کو ڈانٹتی تھی۔

ندیم نے دس گیارہ سال کی عمر میں اپنے سے بڑی عمر کے لڑکے کی مدد سے پہلا بدنی تجربہ حاصل کیا۔ یہ تکلیف دہ ضرور تھا مگر وہ جلد ہی تکلیف کو بھول گیا اور وہ لڑکا اس کا سب سے بہترین دوست بن گیا۔ ان کا اکثر وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزرتا۔ اسے گھر سے کئی بار ڈانٹ بھی پڑتی کہ وہ وقاص کے ساتھ زیادہ وقت کیوں گزارتا ہے۔ تب ایک دن اس کی والدہ نے اس بات کو مکمل طور پر محسوس کرلیا جسے وہ جانتی تو شاید برسوں سے تھی مگر جسے ماننے پر وہ خود کو آمادہ نہ کرپاتی تھی۔ ایسے میں غصے، لاچاری اور بے بسی نے اس کی والدہ پر ایسی کیفیت طاری کردی کہ زندگی میں پہلی بار اس نے ندیم کو اپنے پاؤں کی جوتی سے خوب پیٹا اور پھر بڑی دیر تک اپنے بستر پر اوندھی لیٹی خاموش آواز میں روتی رہی۔ ندیم مار کھانے کے بعد ایک کونے میں دبکا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھتا رہا۔ پھر نجانے اس کے جی میں کیا آئی کہ وہ اٹھا۔ ماں کے بستر تک گیا اور اس سے لپٹ کر دیر تک روتا رہا۔ اب وہ اپنی ماں کا سب سے لاڈلا بن گیا۔ اپنے سے بڑے بھائی اور چھوٹے بہن بھائیوں سے بھی زیادہ۔

اگلی صبح انوشے کو لگا کہ وہ اب ندیم سے واقف ہوئی ہے۔ اب اسے محبت کے جذبے کی سمجھ آئی ہے۔ اس رات کے بعد جس میں ندیم میں اپنے ادھورے پن کے باوجود اسے اس بدنی لذت سے دوچار کیا تھا جو اب تک اسے شرجیل بھی نہیں دے سکا تھا۔ تب وہ ہر روز ملنے لگے۔ ساری رات دونوں اکٹھے گزارتے۔ صبح انوشے اپنے اندر ایک نئی سرشاری پاتی۔ اسے لگتا کہ وہ اپنے اندر ایک نئے وجود کو دریافت کر رہی ہے۔ دوسرے فرد سے تعلق کی ایک نئی کیفیت کو محسوس کر رہی ہے۔ اب ندیم اس کے ساتھ اپنے دل کی ساری باتیں کرتا تھا۔ ایک دن اس نے یہ بتا کر انوشہ کو قدرے پریشان کردیا کہ شرجیل بھی اپنے دفتر میں اس کے () ملتا رہا ہے اور ایسا تو ان کے تعلق کو شروع ہونے کے ایک مہینے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔

شرجیل کی ملک واپسی کے بعد انوشے اور ندیم کی الگ ملاقاتوں کا سلسلہ قدرے تھم گیا مگر ختم نہیں ہوا تھا۔ شرجیل کی ملک واپسی کے بعد جب وہ تینوں ایک بار پھر ملے تو اس بار انوشے اور ندیم کے درمیان کچھ ایسا تھا جس نے شرجیل کو چونکا دیا تھا۔ ابتداء میں اس نے اسے اپنا وہم جانا مگر پھر رفتہ رفتہ اس پر واضح ہوتا گیا کہ ندیم اب انوشے کے لیے صرف ایک کھلونا نہیں رہا بلکہ ایک وجود میں ڈھل چکا ہے۔ تب ایک دن جب وہ ملے تو اس دن خلاف معمول شرجیل نے خوب پی رکھی تھی۔ آج اس کی باتوں میں طنز کی فراوانی تھی۔ باتوں کے نشتر تھے جن کی چبھن انوشے بھی محسوس کر رہی تھی اور ندیم بھی۔ بیڈ روم میں شرجیل کرسی پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ وہ ان دونوں کو آپس میں ملتے دیکھنا چاہتا ہے۔ کچھ دیر تو وہ یہ منظر دیکھتا رہا پھر رفتہ رفتہ اس کی آنکھوں میں نفرت اور غصے کے شرارے برسنے لگے۔ انوشے پہلے تو ندیم میں مگن تھی۔ جب اچانک اس کی نظر شرجیل پر پڑی تو اس کے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات کو دیکھ کر چونکی۔ شرجیل تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ اس نے جھپٹ کر ندیم ()اتنی شدت اور قوت سے اسے کچل دیا کہ انوشے کو لگا شرجیل ندیم کو جان سے مار دینا چاہتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد شرجیل فرش پر پڑا ہانپ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تھے۔ ندیم نے کسی بات کی شکایت نہیں کی تھی۔

انوشے اور شرجیل کے درمیان خاموشی نے پردہ تان لیا تھا۔ دونوں ساتھ رہتے۔ اکٹھے کھاتے پیتے، ایک کمرے میں سوتے۔ بظاہر ان کے درمیان سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ ہفتوں گزر گئے تھے۔ نہ وہ ایک دوسرے کے قریب آئے تھے اور نہ انھوں نے ندیم کو بلایا تھا۔ ایک خاموش کش مکش دونوں کے اندر جاری تھی۔ ندیم نے الگ الگ دونوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ شرجیل نے اسے بری طرح جھاڑ دیا تھا اور اس کا ماہانہ معاوضہ بھی بند کردیا تھا۔ انوشے نے اسے انتظار کرنے کو کہا۔ وہ زندگی میں پہلی بار ایک ایسی مشکل سے دوچار ہوئی تھی جس کا کوئی حل اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ شرجیل اور ندیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔