کلام غالب، کچھ مسائل

یہ تحریر 2383 مرتبہ دیکھی گئی

(2)

اب دیکھئے دونوں شعروں میں دو مختلف انسانی صورت حال بیان ہوئی ہےں اور لفظی پیچ کوئی نہیں ہے۔ یہ میر کا مخصوص رنگ ہے، غالب کے یہاں ایسا شعر کوئی نہ ملے گا۔ ملحوظ رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوںکہ میر کے یہاں پیچ دار شعر نہیں ہیں۔ہیں، اور بہت ہیں۔لیکن یہ رنگ، کہ انسانی صورت حال کا بیان ہواور اس انداز میں ،کہ ہم اس بیان میں خود کو شریک سمجھنے میں کوئی قباحت نہ محسوس کریں،یہ رنگ میر سے مخصوص ہے۔ قائم، مصحفی، جرات، کوئی بھی اس میں میرکے برابر نہیں۔لہٰذا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ غالب نے آخرآخر میں میر کا رنگ اختیار کیا۔ اگر مزید ثبوت درکار ہوتو غیر متداول کلام سے یہ اشعار دیکھئے

                سمجھاﺅ اسے یہ وضع چھوڑے

                جو چاہے کرے پہ دل نہ توڑے

                نذر مژہ کر دل و جگر کو

                چیرے ہی سے جائیں گے یہ پھوڑے

یہ اشعار ۱۸۱۶ کے دیوان کے ہیں۔ اب ۱۸۲۱ کے دیوان سے یہ شعر بھی دیکھ لیں

دوستو مجھ ستم رسیدہ سے 

دشمنی ہے وصال کا مذکور

زندگانی پہ اعتماد غلط

ہے کہاں قیصر اور کہاں فغفور

کیجے جوں اشک اور قطرہ زنی

اے اسد ہے ہنوز دلی دور

                ’قطرہ زنی‘ میں تھوڑی سی باریکی ہے، کیوںکہ اس کے معنی ہیں’خوب تیز چلنا یا دوڑنا‘، ورنہ یہ پانچ شعر ایسے ہیں کہ اگر کوئی ثابت کردے کہ غالب نے انھیں بڑھاپے میں کہا تھا تو ’آخری زمانے میں رنگ میر‘ کا نظریہ رکھنے والوں کی چاندی ہو جائے۔

                ہم دیکھ سکتے ہیں کہ غالب کا متداول پڑھنے کے دوران ہم بار بار ان کے غیر متداول کلام کی طرف رخ پھیرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔لیکن افسوس یہ کہ غیر متداول کلام پرابھی ویسی توجہ نہیں ہوئی جس کا وہ مستحق تھا۔غالب کے متداول دیوان کی شہرت کی ایک وجہ مولاناحالی کی دونوں کتابیں ’یاد گار غالب‘ اور ’مقدمہ شعر و شاعری ‘ہیں۔اول الذکر کے بارے میں ڈاکٹر حفیظ سید نے جل بھن کر لکھا تھا (و ہ مومن کے پرستا رتھے) کہ:’غالب کی نظم و نثر صرف نظم و نثر تھی۔ مگر اس کی اہمیت و خصوصیت اس وقت معلوم ہوئی جب حالی نے ’یاد گار غالب‘ لکھ کر اسے عالم آشکارا کر دیا۔

©‘ اس میں تھوڑا سا مبالغہ ہے، لیکن بات پتے کی ہے۔ ’مقدمہ‘کے بارے میں مدتوں ہوئی میں نے لکھا تھا کہ حالی نے’اصلیت‘ کی جو تعریف کی ہے اس کی رو سے غالب صاف بچ جاتے ہیں کیونکہ حالی کی رو سے’ اصلیت‘ کے ایک معنی یہ ہیں کہ ہر وہ چیز جو ’شاعر کے عندیے میں ہو‘ ۔ لہٰذا اب یہ جھگڑا ہی نہ رہا کہ غالب کے پیچیدہ اور خیال بندی پر مبنی اشعار میں ’اصلیت‘ ہے کہ نہیں، کیونکہ وہ چیزیں شاعر کے عندیے میں ہیں، وہ ’اصلیت‘ پر مبنی ہیں ، در حقیقت ان میں ’اصلیت‘ ہو یا نہ ہو۔

                دوسری طرف ’،سادگی‘ پر مرنے والے حالی یہ بھی کرتے ہیں کہ غالب کے پیچید ہ اور کثیر المعنی شعروں کی تعبیر و تفسیر کرتے نہیں تھکتے ۔ درحقیقت غالب فہمی کے نئے انداز کی بنیاد انھیں نے رکھی۔

                غیر متداول کلام کے بارے میں اولاًلوگوں کو وہی معلوم تھا جو عبد الرزاق شاکر کے نام غالب کے خط میں ہے اور جس کا اقتباس میں اوپر نقل کر چکا ہوں۔ پھردیوان غالب کی اول اشاعت ۱۴۸۱کا دیباچہ جس میں انھوں نے لکھا:

                ہمانا نگارندہ این نامہ را آں در سر است کہ پس از انتخاب دیوان ریختہ بہ گرد آوردن سرمایہ دیوان فارسی بر خیزدو باستفاضہ کمال ایں فریور فن پس زانوے خویشتن نشیند امید کہ سخن سرایان سخنوراں ستاے پراگندہ ابیاتے راکہ خارج از ایںاوراق یابند از آثار تراوش رگ کلک ایں نامہ سیاہ را نہ شناسند و چامہ گرد آور را در ستائش و نکوہش آں اشعار ممنون و ماخوذ نہ سگالند۔

                اس کا مطلب یہ ہوا کہ غالب نے کثیر تعداد میںاپنے اشعار کو خود مسترد کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ان اشعار کے اچھے برے کا ذمہ دار مجھے نہ ٹھہرا یا جائے۔اس بیان کی روشنی میںپہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غالب کے غیر متداول دیوان کو کیا نام دیا جائے؟ بظاہر تو یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے ’مسترد ‘ کہا جائے۔لیکن اس لفظ میں ایک طرح کی بیزاری اور کراہیت کا احساس ہوتا ہے، گویا وہ کلام کوئی سڑی گلی شے تھا جسے خارج از دیوان قرار دیا گیا، یا آج کی اخباری زبان میں ’رد‘کر دیا گیا۔

                میں خود اسی باعث لفظ ’مسترد‘ کے حق میں نہیں ہوں۔ اس میں ایک اشتباہ یہ بھی ہے کہ یہ دیوان کس نے ’مسترد‘ کیا؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ غالب نے مسترد کیا، لیکن عام لوگ پوری طرح اس بات کو نہیں سمجھتے۔ وہ خیال کریں گے کہ یہ غالب کے کلام کا کوڑا کچرا ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔لہٰذا یہ اصطلاح خود مسترد کرنے کے لائق ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں(خاص کر ہماری مشہور غیر ملکی ماہر غالبیات پروفیسر فرینسس پریچٹFrances Pritchett) کہ اس دیوان کو ’غیر مطبوعہ‘ کہا جانا چاہیئے اور یہ فرض کرنا چاہیئے کہ دیوان کی اشاعت کے وقت (۱۸۴۱) یہ دیوان غالب کی دسترس میں نہ تھا، لہٰذا وہ اسے شامل دیوا ن نہ کر سکے۔ لیکن غالب کے مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ دسترس وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہ تھا، کیونکہ انھوں نے صاف لکھ ہی دیا تھا کہ وہ سب کلام جو اس دیوان کے باہر ہے، میرا نہ سمجھا جائے اور اس کے اچھے برے کا ذمہ دار مجھے نہ ٹھہرایا جائے۔دوسری بات یہ کہ بالفرض اگر وہ کلام غالب کی دسترس میں اس وقت نہ تھا تو اس کے بعد یہی دیوان مزیدچار بار چھپا۔ اگر غالب اس کلام کو قائم رکھنا چاہتے تو ۱۸۴۱سے لے کر۱۸۶۳ تک بائیس سال کی مدت اس گم گشتہ کلام کو ڈھونڈنے اور شامل دیوان کر نے کے لئے بہت تھی۔

                لیکن یہاں ایک بات اور بھی ہے۔ غالب نے اس دیباچے میں صاف لکھ دیا تھا کہ میں اس ’فریور فن‘ (یعنی فارسی دیوان) کو عام کرنے کے بعد چپ چاپ بیٹھ جاﺅں گا (پس زانوے خویشتن نشیند) اور مزید کچھ نہ کہوں گا۔ غالب کا فارسی دیوان ’مے خانہ آرزو سر انجام‘ ۵۳۸۱ میں تیار ہو چکا تھا اور مولانا غلام رسول مہر کے خیال میں یہ ۸۳۸۱ کے قریب چھپ بھی چکا تھا۔ لیکن ایسے کسی دیوان کا سراغ اب تک نہ مل سکا ہے۔ کاظم علی خان کہتے ہیں کہ فارسی دیوان کی اول اشاعت ۵۴۸۱میں دہلی سے ہوئی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ ۱۴۸۱ کے دیباچے میں وہ کہہ چکے ہیں اب میں فارسی دیوان کی اشاعت کی فکر کروں گا اور اس کے بعد گوشہ تنہائی میں چپ چاپ بیٹھ جاﺅں گا۔

                لیکن یہ بھی ہے کہ ۱۸۴۱، یا۱۸۴۵ کے بعد بھی غالب نے فارسی میں بہت کچھ کہا ۔ اور۱۸۵۰ کے بعد انھوں نے اردو میں بھی کچھ نہ کچھ کہا۔لہٰذا ان کا یہ اعلان، کہ فارسی دیوان کی اشاعت کے بعد میں چپ بیٹھ جاﺅں گا،محض شاعرانہ مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے اس بیان کو بھی شاعرانہ مبالغہ کیوں نہ کہا جائے کہ زیر نظر اردو دیوان کے باہر جو بھی ہے وہ میرا نہیں ہے؟ اغلب یہ ہے کہ اس اعلان سے ان کی مراد یہ تھی کہ بہت سے اشعار اور غزلیں عوام میں غالب کے کلام کے نام سے مشہور ہونے لگی تھیں اور غالب یہاں ان اشعارسے برات کا اعلان کر رہے ہیں۔

                گیان چند مرحوم نے ’قلم زد کلام‘ کی اصطلاح بنائی ہے جو بہت مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ اس میں فیصلہ جاتی عنصر نہیں ہے جو ’غیر مطبوعہ‘ یا ’مسترد‘ میں ہے۔ لیکن ’قلم زد‘ سے یہ بھی دھوکا ہوتا ہے کہ اس کلام کو شاید کسی اور شخص نے قلم زد کر دیاہو۔ یاپھر غالب نے قلم زد کر کے انھیں ردی کی ٹوکری میںڈال دیا تھا۔یا پھر یہ کلام ’قلم زد‘ تو ہے، لیکن مکمل دیوان کے کسی نسخے میں موجود ہے۔ یعنی غالب نے اس پر خط تنسیخ پھیر دیا تھا۔

                ان حقائق کے پیش نظر یہی سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس دیوان کو غیر متداول کہا جائے۔ مالک رام صاحب بھی ’غیر متداول دیوان‘ ہی کہتے تھے۔اور یوں بھی یہ غیر متداول ہی ہے۔ اور نسخہ عرشی کے دوسرے ایڈیشن (۱۹۸۲) کے سوا اس کا کوئی جدید ایڈیشن موجود نہیں ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، ہماری یونیورسٹیوں نے اس کلام یا اس کے کسی حصے کو درس میں شامل نہیں کیاہے۔میرا خیال ہے ہمارے اکثر پروفیسر صاحبان نے اس کا کوئی شعر نہ پڑھا ہوگا، الا وہ شعر جو بہت مشہور ہے

                ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

                ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

                غیر متداول دیوان کی پہلی شرح’مکمل شرح دیوان غالب‘ کے نام سے مولانا آسی نے ۱۹۳۱ میں شائع کی۔ لیکن عنوان میں ’مکمل‘ لفظ کے باوجود یہ مکمل نہیں ہے۔ سب سے پہلی مکمل شرح مولانا ضامن کنتوری نے۱۸۳۴ میں لکھی، لیکن وہ مدت مدید تک شائع نہ ہو سکی۔اب یہ محترمہ اشرف رفیع کی کوششوں سے ۲۰۱۲ میں شائع ہوئی ہے۔ ضامن کنتوری نے مکمل کلام کو ایک ساتھ رکھ دیا، یعنی متداول اور غیر متداول کو ملا دیا، پھر شرح لکھی۔    آخری اور سب سے بہتر شرح گیان چند مرحوم نے لکھی جو ۱۹۷۱ میں جموں کشمیرکلچرل ایڈمی سے شائع ہوئی۔گیان چند نے بتایا ہے کہ شیر علی خاں سرخوش نے ’عنقاے معانی‘ کے نام سے متداول دیوان کی شرح دو جلدوں میںلکھی ۔اس میں غیر متداول دیوان (گیان چند اسے’ قلم زد کلام‘ کہتے ہیں) کے ایک سو چھیانوے( ۱۹۶) اشعار کی بھی شرح ہے۔ پھر وجاہت علی سندیلوی نے ایک سو تراسی (۱۸۳) اشعار کی شرح لکھی ہے۔

                افسوس کہ میں ان دونوں شرحوں سے آشنا نہیں ہوں، لیکن ان میں غیر متداول دیوان کادس فی صدی حصہ بھی زیر بحث نہیں آیا ہے، اس لئے انھیں نظر انداز کرتا ہوں۔پروفیسر محمد مجیب نے غالب کے کچھ اشعار کا انگریزی میں ترجمہ کیاتھا جسے ساہتیہ اکیڈمی نے۱۹۶۹ میں چھاپا۔اس مختصر سی کتاب میں غالب کے چند غیر متداول شعر وں کا بھی ترجمہ ہے۔

                متداول کلام کی کتنی شرحیں لکھی گئی ہیں اس کا میں نے شمار نہیں کیا ہے، لیکن اب تک ان کی گنتی سو تک ضرور پہنچ چکی ہوگی۔پھر یہ بھی ہے کہ غیر متداول کلام کی ان تین شرحوں میں اگرچہ گیان چندنے کلام کے ساتھ واقعی انصاف کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن انھیں اس کلام سے کچھ زیاد ہ ہمدردی نہیں ہے۔وہ بار بار شکایت کرتے ہیں کہ ’شعر میں محض نازک خیا لی ہے اور کچھ نہیں‘؛ یا’نہایت تصنع آمیز ترکیب ہے‘؛ یا’غالب ”زبان“پر اضافت لگا گئے ہیں، اوریہ عروضی جبر ہے ورنہ بغیر اضافت ہی بہتر تھا؛ یا’محض شاعرانہ خیال ہے۔ صریر خامہ کی ایک تشبیہ پیش کرنی تھی‘؛ وغیرہ۔ دیباچے میں وہ یہاں تک کہتے ہیں:’پورے کلام میں ایک شعر بھی مہمل نہیں ہے‘ ، لیکن وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ :

بیشتر صورتوں میں یہ کلام محض ذہنی جمناسٹک ہے۔سرکس میں کسے ہوئے تار یا جھولے پر طرح طرح کے کرتب دکھا نا ہے۔یہ کلام ایک صحراے لق و دق ہے جس میں روح شاعری کا نخلستان شاذ ہے(ص۱۳) ۔

                ضامن کنتوری مرحوم نے جگہ جگہ شرح شعر سے ہاتھ کھینچ کر لکھ دیا ہے کہ شعر مہمل ہے۔آسی نے زیادہ تر مشکل اشعار چھوڑ دیئے ہیں،یا بقول گیان چند شعر کی محض نثر کر کے چھوڑ دیا ہے۔ ایسی صورت میںان تمام شراح سے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ صاحب، شرح لکھنے کا کسا لا کھینچنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

                خلاصہ یہ کہ ا س کلام کا حق ابھی تک کسی سے ادا نہ ہوا۔ حال میں فرینسس پریچٹFrances Pritchett) نے چند غیر متداول اشعار کی شرح انگریزی میںلکھی ہے اورمہر فاروقی اس کلام سے منتخب پچاس غزلوں کی مکمل شرح اور ایک پوری کتاب غیر متداول کلام سے متعلق معاملات پر لکھ رہی ہیں۔ یہ کتاب بھی انگریزی میں ہوگی ۔ اردو والے اس سے بآسانی استفادہ نہ کر سکیں گے۔اس کتاب میں وہ کئی مسائل سے بحث کریں گی جن پر ابھی توجہ کم ہوئی ہے۔مہر فاروقی غیر متداول دیوان کے اشعار پر ہر مہینے ’ڈان‘ کراچی میں ایک کالم بھی لکھتی ہیں۔

                ایک دو باتیں اور بھی قابل غور ہیں۔ پہلی بات تو یہ غالب نے یہ انتخاب کیوں

کیا؟ یہ بات قطعی بعید از قیاس ہے کہ مرزا خانی کوتوال دہلی اور علامہ فضل حق خیرآبادی نے انھیں مجبور کیا کہ اپنے کلام سے مغلق اشعار نکال ڈالو۔ مرزا خانی صاحب تو قتیل کے شاگرد تھے اور غالب سے اس بات کی ہرگز توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ قتیل کے کسی شاگرد کی بات مانیں گے در حالے کہ وہ قتیل ہی کو ہیچ و پوچ گردانتے تھے۔اب رہے علامہ خیر آبادی، تو غالب ان کے معتقد اور ان کے دوست ضرور تھے۔لیکن فن شعر میں انھوں نے علامہ سے کبھی کسی قسم کا استفادہ کیاہو، یا دہلی والے ان کی شعر شناسی کے بہت قائل رہے ہوں، ان دونوں باتوں کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہے۔آسی نے بھی لکھا ہے کہ غالب جیسا شخص مرزا خانی جیسے شخص کے ہاتھ میں اپنا کلام نہ دے سکتا تھا۔مالک رام مرحوم نے بہت خوب لکھا ہے کہ محمد حسین آزاد نے جو مرزا خانی اور علامہ خیرآبادی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی رائے سے غالب نے انتخاب و رد کا کام کیا، ’یہ محض افسانہ طرازی ہے‘۔ اس کے بعد مالک رام فرماتے ہیں:

اس (افسانہ طرازی) سے مقصود سواے غالب کی نا اہلی اور کج فہمی ثابت کرنے کے اور کچھ نہیں ہے۔مولوی فضل حق فاضل دینیات اور امام معقولات تھےوہ عالم ہوں گے، انھیں شعر و سخن سے کیا واسطہ۔رہے مرزا خانی،تو وہ نظم و نثر فارسی خوب لکھتے ہوں گے، انھیں اردو سے کیا سروکار۔ اور اس پر ٹھہرے قتیل کے شاگرد!(دیباچہ ’گل رعنا‘ ص۳۶)۔

                مالک رام صاحب کہتے ہیں کہ ”گل رعنا‘کا جملہ انتخاب(چند مستثنیات سے قطع نظر)جوں کا توں متداول دیوان میں شامل ہے۔‘یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے،کیونکہ ’گل رعنا‘ میں غیر متداول دیوان کے اشعار بھی خاصی تعداد میں ہیں۔عبد الرزاق شاکر کے نام غالب کے مراسلے سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ متداول دیوان کے باب میں سارا فیصلہ اور انتخاب خود غالب نے کیا۔ لیکن چونکہ اس خط میں کئی باتیں بدیہی طور پر غلط ہیں، اس لئے اس کے مشمولات پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔لیکن بہت ممکن ہے کہ غالب ہی نے انتخاب کیا ہو۔ ’گل رعنا‘ ( ۱۸۲۸/۱۸۲۹) سے لے کر رامپور ی انتخاب (۱۸۶۶) تک غالب نے اپنے کلام نظم و نثر کے کئی انتخاب کئے،لیکن ’گل رعنا‘ کے بعد وہ سب متداول کلام ہی سے لئے گئے تھے۔

                انتخاب خود غالب نے کیا، یہ بات ابھی ایک حد تک بحث طلب ہے۔ لیکن غالب نے ، یا جس نے بھی یہ انتخاب کیا، اس نے اپنے سامنے معیار کیا رکھا؟اگر یہ کہا جائے کہ انتخاب کنندہ نے مشکل اور مغلق اشعار کو چھوڑ دیا، تو مشکل یہ ہے کہ بلا مبالغہ ایک چوتھائی دیوان ایسا ہے جوجسے متداول دیوان سے کسی طرح مشکل تر نہیں کہا جا سکتا۔ پھر وہ کلام کیوں چھوڑ دیا؟مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہوں

                                فکر سخن یک انشا زندانی خموشی

                                 دود چراغ گویا زنجیر بے صدا ہے           

                                موزونی دو عالم قربان ساز یک درد

                                مصراع نالہ نے سکتہ ہزار جا ہے

یہ شعر تو ایسے ہیں کہ بیدل بھی ان پر ناز کرتے۔ کچھ شعر اور دیکھئے

                                خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے

                                وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے

                                عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر

                                دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے

                                جام ہر ذرہ ہے سرشار تمنا مجھ سے

                                کس کا دل ہوں کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے

                                برہم ہے بزم غنچہ بیک جنبش نشاط

                                کاشانہ بسکہ تنگ ہے غافل ہوانہ مانگ

                                اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقت آرائش

                                لباس نظم میں بالیدن مضمون عالی ہے

                                خوں چکاں ہے جادہ مانند رگ سودائیاں

                                سبزہ صحراے الفت نشتر خوں ریز ہے

                                باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے

                                چاہوں گر سیر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے

ترے نوکر ترے در پر اسد کو ذبح کرتے ہیں

ستم گر ناخدا ترس آشنا کش ماجرا کیا ہے

                 مثلاًمیں یہ بات سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ

                                باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے    

                                سایہ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے

جیسا کمزور مطلع تو دیوان میں ہو اور جو مطلع میں نے اوپرنقل کیا وہ نہ ہو

                                باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے

                                چاہوں گر سیر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے

                بہر حال، یہ تین مسائل، کہ انتخاب کس نے کیا ،اور کیوں کیا، اور معیار انتخاب کیا رکھا، مہر فاروقی کی کتاب میں زیر بحث آئیں گے۔ہم سب ان کی کتاب کے منتظر رہیں گے

٭٭٭

الٰہ آباد، اپریل ۲۰۱۴   

شمس الرحمٰن فاروقی