نیا عہد نامہ: میں روشن خیالی کے بنیادی اشارے

یہ تحریر 856 مرتبہ دیکھی گئی

حصہ سوم

ہم یہاں سب سے پہلے ایک مغالطہ کی وضاحت کرتے ہیں، پھر اس کے بعد روشن خیالی کے ایک پہلو کو نمایاں کریں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے، ایک دفعہ معروف شیعہ عالم دین جناب طالب جوہری خطاب کر رہے تھے، موضوع ”شانِ رسالت“ تھا، دورانِ گفتگو وہ کچھ ایسے مبالغہ آمیز ہوٸے کہ انجیل سے ایک واضح بات کو توڑ پھوڑ کر آپ ص کی ذات سے منسوب کر دیا، جبکہ ایسی صریح بات سے اس طرح کا اغماض برتنا حقیقت کو دبانے کے مترادف ہے۔ ہم اس وضاحت سے پہلے وہ مختصر بات لُوقا کی انجیل سے رقم کرتے ہیں۔

”جب لوگ مُنتظر تھے اور سب اپنے اپنے دل میں یُوحنّا کی بابت سوچنے تھے کہ آیا وہ مسیح ہے یا نہیں۔ تو یُوحنّا نے اُن سب سے جواب میں کہا کہ میں تو تُمہیں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں مگر جو مجھ سے زور آور ہے وہ آنے والا ہے۔ میں اُس کی جُوتی کا تسمہ کھولنے کے لاٸق نہیں۔ وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا۔“

یہ بات یُوحنّا کی یسوع کے متعلق ہے نہ کہ یسوع کی حضرت محمد ص کے بارے میں ہے۔ دوسرا یہاں آگ سے بپتسمہ دینے سے کیا مراد ہے، آگ سے کونسا بپتسمہ دیا جا سکتا ہے؟ اس بابت ایک اشارہ تو کتابِ یسوع میں ہی موجود ہے۔ جس سے آگ سے بپتسمہ دینے کی وضاحت ہو جاتی ہے، آپ پہلے وہ اشارہ بعین لُوقا کے الفاظ میں ملاحظہ کریں۔
”اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے تا کہ وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے اور گیہوں کو اپنے کھتّے میں جمع کرے مگر بُھوسی کو اس آگ میں جلاٸے گا جو بُجھنے کی نہیں۔“
دوسرا آگ سے بپتسمہ دینے کا مطلب میرے خیال میں یسوع کا لوگوں کو عملی زندگی کی طرف راغب کرنے سے ہے۔ یعنی وہ ہر اچھے بُرے کے اوزار اِسی مادی دنیا سے مداوا کے طور پر پیش کرے گا نہ کہ لوگوں کو الہیاتی بیساکھیوں کی امید پر لا کھڑا کرے گا۔

عقل بھی اسی بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مادہ ہی مادے کو متشکل کرتا ہے، جبکہ فرقان حمید میں اس کے برعکس درج ہے، اس میں حضرت عیسی ع کو بغیر باپ کے پیدا کرنا بتایا گیا ہے۔ یعنی محض تجرید سے مادے کے وجود کا ذکر کیا گیا۔ البتہ مادے و تجرید کے تعلق کی بحث الگ ہے، لیکن سرے سے محض تجرید سے مادے کو جنم دینے کی بات نہ صرف خلافِ عقل ہے بلکہ قطعی طور پر مہمل بھی ہے۔ہم انجیل سے اسی بابت جاننے کی سعی کرتے ہیں، اس میں یسوع کے متعلق کچھ یوں رقم ہے۔ ”جب یسوع خود تعلیم دینے لگا قریباً تیس برس کا تھا اور یوسف کا بیٹا تھا“ یعنی انجیل میں یسوع کا باپ ثابت ہے، اور عقل بھی اسی بات کو تسلیم کرتی ہے جبکہ آخری الہیاتی کتاب میں یسوع کے بارے میں بات کا آغاز ہی تجرید یعنی خداوند خود اپنے سے کرتا ہے، بلکہ آغاز سے انجام تک کا سفر مجرد ہی مجرد نظر آتا ہے، چونکہ خداوند یسوع کے ذکر کا آغاز یعنی اس کی بغیر باپ کے پیداٸش کو اپنی الہیاتی طاقت کا کرشمہ قرار دینے سے کرتا ہے اور اختتام یعنی آسمان کی طرف اٹھاٸے جانے پر کرتا ہے۔

انجیل میں یسوع کا وجود مادے سے جڑا نظر آتا ہے۔ سوال تو یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر انجیل و قرآن کا خدا وہی ایک ہے تو پھر ان کے بیچ اس قدر تضاد آخر کیوں کر اور کیسے آ گیا؟ یا ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جاٸیں کہ حقیقت اس کے قطعی اُلٹ ہے، یا پھر یہ تسلیم کیا جاٸے کہ ہر پیامبر اپنا الگ خدا ساتھ لے کر آتا تھا، بہرحال اس تناظر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر اصل کہانی کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو حقیقت کے آشکار ہونے تک عام ذہنوں کو درپیش رہیں گے، یہ بات بھی اپنی جگہ قطعی درست معلوم پڑتی ہے کہ آج ساٸنسی دور میں ان سوالوں کی وقعت کچھ اس لیے بھی زاٸل ہو چکی ہے کہ کاٸنات کی ہر شٸے کو عقل سے جانا جا سکتا ہے اور جانا جا رہا ہے۔

انبیا کی سلیکشن کا الہیاتی معیار بھی عجب دکھاٸی دیتا ہے، خداوند اپنے بندوں میں سے اپنا ناٸب منتخب کرنے کے بعد انہیں آزمانا شروع کر دیتا تھا، یعنی گوناگوں کٹھن آزماٸشوں میں ڈال دیتا تھا، تا کہ اُن کو دیکھے کہ وہ اپنی آزماٸش میں پورا اترتے ہیں یا نہیں؟ حالانکہ یہ انتخاب سے پہلے کا معاملہ ہونا چاہیے تھا نہ کہ بعد میں۔ اسی حوالہ سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدانخواستہ وہ اپنے سخت امتحان میں ناکام ہو جاتے تو اس کا مطلب الہیاتی انتخاب پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جانا تھا، لہذا خداوند کو یہ کام پہلے سے کر لینا چاہیے تھا تا کہ بعد میں اُس کے اپنے لیے کسی قسم کی مشکل پیدا نہ ہو۔ ایسی باتوں کا ذکر تقریباً ہر الہیاتی کتب میں ملتا ہے، اسی بابت ہم یہاں انجیل سے ایک مثال رقم کرتے ہیں۔
”پھر یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا اور چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا۔ اور ابلیس اسے آزماتا رہا۔“
خلافِ عقل باتوں سے تو الہیاتی شبد بھرے پڑے ہیں بعض دفعہ تو قاری کو اکال مرت آنے لگتی ہے۔مثلاً سر راہ ایک بات ملاحظہ کریں، یہ انجیل میں ہی ایک جگہ رقم ہے بلکہ درج بالا آیات کے بالکل ساتھ ہی ہے۔
” اُن دنوں میں اُس نے کچھ نہ کھایا اور جب وہ دن پورے ہو گٸے تو اُسے بھوک لگی۔ اور ابلیس نے اُس سے کہا کہ اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اس پتھر سے کہہ کہ روٹی بن جاٸے۔“
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ چالیس روز بغیر کچھ کھاٸے ایک آدمی کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور وہ بھی آج سے دو ہزار سال قبل، جب کوٸی جدید ٹیکنالوجی بھی نہ تھی۔

ایک تشویش کا اظہار بطور استفسار کرنا چاہوں گا، انجیل میں ایک جگہ مَے کی بابت کچھ اس طرح کا بیان آیا ہے۔
”اور کوٸی شخص نٸی مَے پُرانی مشکوں میں نہیں بھرتا نہیں تو نٸی مَے مشکوں کو پھاڑ کر خود بھی بہ جاٸیں گی اور مشکیں بھی برباد ہو جاٸیں گی۔ بلکہ نٸی مَے نٸی مشکوں میں بھرنا چاہیے۔ اور کوٸی آدمی پرانی مَے پی کر نٸی کی خواہش نہیں کرتا کیوں کہ کہتا ہے کہ پرانی ہی اچھی ہے۔“
اب مَے کا اس طرح عمدگی سے ذکر کیا ثابت کرتا ہے؟ میرے خیال میں ”نیا عہد نامہ“ میں چیزوں کو اُس طرح سخت انداز میں پیش نہیں کیا گیا جس طرح آخری الہیاتی مہابیانیے میں کٸی چیزوں کے بارے میں احکامات موجود ہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی اس بات کی صراحت کر آٸے ہیں کہ یسوع کی آٸیڈیالوجی انسان دوست تھی، اور وہ لوگوں کو خوش اسلوب، متین انداز اور اپنے دل پسیج لفظوں راہیں خیر کی طرف بلاتا تھا۔ مزید ان باتوں کی تکرار سے ہم دو نکات آپ پر اچھی طرح وا کرنا چاہیں گے، ایک یہ کہ یسوع کے نظریات نہایت لچکدار تھے نہ کہ سخت و درشت مزاج۔ اور دوسرا انجیل کا بالخصوص قرآن مجید سے اور بالعموم پرانا عہد نامہ سے تقابل، تقابل بھی مماثل و تضاد والا۔۔ اسی حوالہ سے ہم لُوقا کی انجیل سے ایک طویل اقتباس رقم کریں گے، ملاحظہ ہو۔

”لیکن میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں ان کا بھلا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں ان کے لیے برکت چاہو۔ جو تمہاری تحقیر کریں ان کے لیے دعا کرو۔ جو تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے اور جو تیرا چوغہ لے اس کو کُرتہ لینے سے بھی منع نہ کر۔ جو کوٸی تجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تیرا مال لے لے اُس سے طلب نہ کر۔ اور جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا احسان ہے؟ کیونکہ گنہگار بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ اور اگر تم اُن ہی کا بھلا کرو جو تمہارا بھلا کریں تو تمہارا کیا احسان ہے؟ کیونکہ گنہگار بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اور اگر تم اُن ہی کو قرض دو جن سے وصول ہونے کی امید رکھتے ہو تو تمہارا کیا احسان ہے؟ گنہگار بھی گنہگاروں کو قرض دیتے ہیں تاکہ پورا وصول کر لیں۔ مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر نا امید ہوٸے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہو گا اور تم خدا تعالی کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ نا شکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔ جیسا تمہارا باپ رحیم ہے تم بھی رحم دل ہو۔ عیب جوٸی نہ کرو۔ تمہاری بھی عیب جوٸی نہ کی جاٸے گی۔ مجرم نہ ٹھہراٶ تم بھی مجرم نہ ٹھہراٸے جاٶ گے۔ خلاصی دو تم بھی خلاصی پاٶ گے۔ دیا کرو تمہیں بھی دیا جاٸے گا۔ اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کر کے تمہارے پلّے میں ڈالیں گے کیوں کہ جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے لیے ناپا جاٸے گا۔“

درج بالا اقوال سے خیال اس طرف بھی بار بار جاتا ہے کہ یسوع کی طرح اُس کا خدا بھی نہایت شفیق تھا۔ اِن شبدوں کا اگر فرقان حمید سے تقابل کریں تو اس قدر تضاد دکھاٸی دیتا ہے، کہ الہیاتی اکاٸی کو ہی عقل تسلیم کرنے سے بالکل قاصر ہو جاتی ہے، تقابل کے طور پر کتاب محمد ص سے دو چار حوالے رقم کروں گا۔
سورہ البقرة کی آیت اننانوے میں رقم ہے، ”خدا کی لعنت ان منکرین پر،“ جبکہ وہ منکرین محض الہیاتی احکام سے تھے۔ یسوع لعنت کرنے والوں کے لیے بھی نرم گوشہ لیے ہوٸے تھا اور بالکل ویسے ہی دلربا احکامات صادر کیا کرتا تھا۔ آگے ایک جگہ پر البقرة کی ہی ایک آیت میں کچھ اس طور سے ذکر ملتا ہے۔ ”اور یہ کہ ابراہیم ص نے دعا کی: ‘ اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انھیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔، جواب میں اس کے رب نے فرمایا: ”اورجو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اُسے بھی دوں گا، مگر آخر کار اُسے عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔“
اب یہاں ”عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹنے“ جیسا ڈر پیدا کرنا کیا ہے؟ اسے الہیاتی لسانیات کی متقاضی جانا جاٸے یا ایسا ڈر واقعی انسانیت کے بھلے کے لیے تھا۔ اسی طرح سورہ توبہ کے بالکل آغاز میں ارشاد باری تعالی ہے، ”اور اے نبی ص انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوش خبری سنا دو“ اب یہاں محض انکار پہ ہی خداوند کا اس قدر جلال میں آ جانا، اور یہاں سوچنے کی بات یہ ہے وہ انکار ان کا سماجی معاملات میں نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی کی ذات سے تھا جبکہ الہیاتی احکامات تو لوگوں کے لیے تھے اور وہ ان پر کسی نہ کسی طرح کاربند تو تھے ہی۔ سورہ توبہ میں ایک اور سخت وعید بھی ملاحظہ کریں۔ ”پس جب حرام مہینے گزر جاٸیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاٶ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔“ اب یہاں فرد کی وجودی حیثیت کو ہی سرے سے ختم کرنے کا فرمان جاری کر دیا ہے۔ لگے ہاتھوں دو امثال اور بھی ملاحظہ کریں۔ ”اے لوگو !!! جو ایمان لاٸے ہو اپنے باپوں اور بھاٸیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناٶ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بناٸیں گے وہی ظالم ہوں گے۔“ یہاں اپنے انتہاٸی قریبی عزیزوں کو چھوڑنے کا کہہ دیا، دوسری مثال ملاحظہ ہو، ”تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو۔“ یعنی اگر وہ سیدھے نہ رہیں تو تم بھی نہ رہنا، جبکہ یسوع اپنے لوگوں سے ان تمام درج بالا بیانات کے بالکل برعکس کہتا نظر آتا ہے۔ پس ان مذکورہ الہیاتی وعیدوں سے ثابت یہ ہوا کہ حضرت محمد ص کا خدا انتہاٸی جابر تھا اور یسوع کا نرم و معتدل۔۔

یسوع کی کٸی باتیں مادی تقاضوں کی نماٸندہ نظر آتی ہیں، انجیل میں نِری ماوراٸیت کی تکرار سے بھی گریز دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ کٸی ایک چیزوں کو محض سماجیت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اسی بابت انجیل سے ایک مثال ملاحظہ ہو۔
”اچھا آدمی اپنے دل کے اچھے خزانہ سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور برا آدمی برے خزانہ سے بری چیزیں نکالتا ہے کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی اس کے منہ پر آتا ہے۔“
انجیل میں درج اس آیت پر غوروخوض کے بعد یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ یسوع لوگوں کے اچھے برے ہونا کا تعلق الہیاتی تعلیم سے ناگزیر قرار نہیں دیتا بلکہ ایک سماجی تجربے کے طور پر اس کا اظہار کرتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔