نظم

یہ تحریر 252 مرتبہ دیکھی گئی

وجود کے سناٹے پر
ہجوم کی آڑی ترچھی بھِن بھِن سے
بے معنی لکیریں کھنچتی جاتی ہیں

گوشہِ تنہائی میں پھر
دل فریب سایوں سے مل جاتی ہیں وہ سچائیاں
جو کسی جھوٹے نبی کا انتظار کرتی ہیں

کھوکھلی تقدیروں پر
فریب کے گیت لکھنے والے پجاریوں سے
حروف کی دیویاں مگر روٹھتی جاتی ہیں

کھو جاتی ہیں اکثر
کھیل تماشوں کے شور میں وہ سرگوشیاں
جو خود تک رسائی چاہتی ہیں