وجود کے سناٹے پر
ہجوم کی آڑی ترچھی بھِن بھِن سے
بے معنی لکیریں کھنچتی جاتی ہیں
گوشہِ تنہائی میں پھر
دل فریب سایوں سے مل جاتی ہیں وہ سچائیاں
جو کسی جھوٹے نبی کا انتظار کرتی ہیں
کھوکھلی تقدیروں پر
فریب کے گیت لکھنے والے پجاریوں سے
حروف کی دیویاں مگر روٹھتی جاتی ہیں
کھو جاتی ہیں اکثر
کھیل تماشوں کے شور میں وہ سرگوشیاں
جو خود تک رسائی چاہتی ہیں