بہتے دریاؤں کے ساز کی لے پہ
میں پرندوں کی ڈاریں اڑایا کرتی تھی
رخ موڑ کے دریاؤں کا ان پہ ڈیم بن گئے
میرے پرندے خدا جانے کہاں مر گئے
میں پہاڑوں کے تاج پہ چڑھ کر
بادلوں کے گیت سنا کرتی تھی
غیر آباد پہاڑی چوٹیوں پہ اب
اداسی کی بارش برستی ہے
ریڑ اور چیڑ کے لمبے درختوں پہ
محبت کی بیلیں چڑھا کرتی تھیں
کٹے درختوں کی خوشبودار لکڑی اب
محبت کے سرد خانوں کا بالن بنتی ہے
اداسی اس درجہ دل میں سرائیت کر گئی
کہ ہنسی اب چہرے پہ اجنبی لگتی ہے
نظم
یہ تحریر 507 مرتبہ دیکھی گئی