نظم

یہ تحریر 507 مرتبہ دیکھی گئی

بہتے دریاؤں کے ساز کی لے پہ
میں پرندوں کی ڈاریں اڑایا کرتی تھی
رخ موڑ کے دریاؤں کا ان پہ ڈیم بن گئے
میرے پرندے خدا جانے کہاں مر گئے
میں پہاڑوں کے تاج پہ چڑھ کر
بادلوں کے گیت سنا کرتی تھی
غیر آباد پہاڑی چوٹیوں پہ اب
اداسی کی بارش برستی ہے
ریڑ اور چیڑ کے لمبے درختوں پہ
محبت کی بیلیں چڑھا کرتی تھیں
کٹے درختوں کی خوشبودار لکڑی اب
محبت کے سرد خانوں کا بالن بنتی ہے
اداسی اس درجہ دل میں سرائیت کر گئی
کہ ہنسی اب چہرے پہ اجنبی لگتی ہے