وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں لاہور میں
پھر اس نے میرے شہر کو زندہ کیا
پلکیں اٹھائیں اور بنا ڈالی یہاں امکان کی
خالی نہ لوٹایا کبھی آئے ہوئے مہمان کو
تکریم کی ہر جان کی
ابرو کی جنبش سے صفا ہوتے گئے سب کاخ و کو
مسکن بنائے چار سو
محفل کو اپنی تابناک آمد سے دی رخشندگی
اتنی کہ آنکھیں نور کی یلغار سے چندھیا گئیں
ایسی کہ جتنے شعلہ رخ تھے
بار استکبار سے شرما گئے
وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں لاہور میں
حیرت ہوئی اس بادشاہ وقت کی پہچان پر
اس نے مجھے ٹوکا تو میرے مختصر سامان پر
میرے قلم کی کاٹ’ میرے ہاتھ کہ لکھی ہوئی تحریر پر
میری محبت پر’ مرے ایمان پر
حیرت ہوئی
اور عالم حیرت میں لب سے ایک کوتاہی ہوئی
وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں لاہور میں
اک طائر بسمل کی صورت بندہ ناچیز کو
جس شخص کی جانب سے آنے والی اک آواز نے زندہ رکھا
باہر سے میرے شہر میں آئے ہوئے اک شخص نے مسند جمائی اور اپنے نغمہ خواں اک طائر نایاب کو
دامن سے اتنی دور اور
جی بھر کے شرمندہ رکھا
وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں
لاہور میں
نسبت اسے تھی سید ہجویر سے
سرکار کے چاہے سے آیا تھا مگر
جب بادشاہ وقت کی مسند ملی
اور بندہ ناچیز کی چاہت نے اپنے نامصفا خون سے “سرکار میں چوکی بھروں؟” لکھا
اور اس کے سامنے عرضی رکھی
اس نے بلایا دیر سے
نظم
یہ تحریر 658 مرتبہ دیکھی گئی