نظم

یہ تحریر 658 مرتبہ دیکھی گئی

وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں لاہور میں
پھر اس نے میرے شہر کو زندہ کیا
پلکیں اٹھائیں اور بنا ڈالی یہاں امکان کی
خالی نہ لوٹایا کبھی آئے ہوئے مہمان کو
تکریم کی ہر جان کی
ابرو کی جنبش سے صفا ہوتے گئے سب کاخ و کو
مسکن بنائے چار سو
محفل کو اپنی تابناک آمد سے دی رخشندگی
اتنی کہ آنکھیں نور کی یلغار سے چندھیا گئیں
ایسی کہ جتنے شعلہ رخ تھے
بار استکبار سے شرما گئے
وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں لاہور میں
حیرت ہوئی اس بادشاہ وقت کی پہچان پر
اس نے مجھے ٹوکا تو میرے مختصر سامان پر
میرے قلم کی کاٹ’ میرے ہاتھ کہ لکھی ہوئی تحریر پر
میری محبت پر’ مرے ایمان پر
حیرت ہوئی
اور عالم حیرت میں لب سے ایک کوتاہی ہوئی
وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں لاہور میں
اک طائر بسمل کی صورت بندہ ناچیز کو
جس شخص کی جانب سے آنے والی اک آواز نے زندہ رکھا
باہر سے میرے شہر میں آئے ہوئے اک شخص نے مسند جمائی اور اپنے نغمہ خواں اک طائر نایاب کو
دامن سے اتنی دور اور
جی بھر کے شرمندہ رکھا
وہ شخص بھی باہر سے آیا تھا یہاں
لاہور میں
نسبت اسے تھی سید ہجویر سے
سرکار کے چاہے سے آیا تھا مگر
جب بادشاہ وقت کی مسند ملی
اور بندہ ناچیز کی چاہت نے اپنے نامصفا خون سے “سرکار میں چوکی بھروں؟” لکھا
اور اس کے سامنے عرضی رکھی
اس نے بلایا دیر سے