غزل

یہ تحریر 794 مرتبہ دیکھی گئی

ایذا نہ دے دلوں کو تامل سے اے صبا
“ملنے نہ دیں گے پھر تجھے ہم گل سے اے صبا” *

کنج چمن میں بیٹھ کے فرصت سے کر کشید
نشہ کوئی تو نکہت کاکل سے اے صبا

جھلسا رہی ہے مزرع احساس ان دنوں
کچھ دل جلوں کی یاد تسلسل سے اے صبا

ہے نامہءحبیب ترے دوش پر دھرا
ہنگامہ ء خرام تحمل سے اے صبا

آتی بہار میں تجھے معزول کر نہ دیں
اکتا گئے ہیں تیرے تعطل سے اے صبا

مانا کہ رشک دید ہیں کچھ ادھ بھرے ایاغ
کیا فائدہ کسی کے تقابل سے اے صبا

مت کان بھر کوئی نہیں اس سمت ملتفت
کیا کام تجھ کو مینا و قلقل سے اے صبا

دو چار شب کی رونق خانہ سے کیا گریز
وہ بھی گئے ہوؤں کے توسل سے اے صبا

سمٹی ہوئی بساط کو بار دگر نہ کھول
باقی ہے کچھ امید تعافل سے اے صبا

گر اجتناب ہے تو عبیرہ سے بات کر
اور آرزوے وصل تو بلبل سے اے صبا

*مصحفی