سلیماں کی روندی ہوئی ایک چیونٹی

یہ تحریر 593 مرتبہ دیکھی گئی

سلیماں! مرے ساتھ لشکر نہیں تھا
اکیلی تھی میں اور دن ڈھل رہا تھا
مجھے میرے دانے کی پروا تھی
میرے لیے بار ہستی بہت تھا
مزید اس پہ بار ندامت
سلیماں!
مری کل جسامت سے تگنا
مرا ایک دانہ
مرے بازووں سے پھسلنے لگا تو خدا جانتا ہے
نہ میں نے دہائی تری ذات کی دی
نہ اپنے لیے تیرے لشکر سے ہی کوئی ہرجانہ چاہا
فقط آبرو اور جاں لے کے بھاگی
سلیماں! مرے ساتھ لشکر نہیں تھا
جو کہتا کہ “دیکھو
سلیماں کا لشکر بڑھا آرہا ہے
ڈرو
راستہ دو
مبادا تمھارا نشاں نہ رہے
چیونٹیو! بچ رہو”
سلیماں!
مجھے مختصر راستوں سے کبھی کوئی رغبت نہیں تھی
فقط ابر باراں کا ڈر تھا
مرے زیر خاشاک مسکن میں میرا ذخیرہ پڑا تھا
بعجلت میں خود اپنے مدفن کی جانب رواں تھی
سلیماں!
مجھے سر جھکائے ہوئے بار ڈھونے کی بس اک جبلت ملی تھی
مرا جرم یہ تھا
تری سلطنت میں کہیں زیر خاشاک میری گلی تھی
 مرا ایک دانہ مرے بازووں سے جدا ہوگیا تھا
اسے ڈھونڈتی تھی
۔۔۔۔۔۔
مرے ساتھ لشکر نہیں تھا
اکیلی تھی میں اور دن ڈھل رہا تھا