منظوم ترجمہ

یہ تحریر 1124 مرتبہ دیکھی گئی

حافظ شیرازی /عبیرہ احمد

عمریست کہ دلدار پیامی نفرستاد
ننوشت سلامی و کلامی نفرستاد
مدت سے مجھے دوست نے پیغام نہ بھیجا
تسلیم کو اک  نامہء اکرام نہ بھیجا

صد نامہ فرستادم و آن شاہ سواران
پیکی ندوانید و سلامی نفرستاد
سو خط لکھے اس قافلہ سالار کو جس نے
ہرکارہ کبھی کوئی مرے نام نہ بھیجا

سوی من وحشی صفت عقل رمیدہ
آہو روشی کبک خرامی نفرستاد
بھولے سے بھی مجھ وحشی و سودائی کی جانب
آہو سا کوئی قاصد خوش گام نہ بھیجا

فریاد کہ آن ساقی شکر لب سرمست
دانست کہ مخمورم و جامی نفرستاد
فریاد کہ اس شیریں زبان والے سخی نے
قصداً کبھی مجھ مست کو پھر جام نہ بھیجا

چندانکہ زدم لاف کرامات و مقامات
ہیچم خبر از ہیچ مقامی نفرستاد
اس ڈر سے کہ میں راز نہاں فاش نہ کردوں
نکتہ کوئی روشن’ کسی ہنگام نہ بھیجا

حافظ بہ ادب باش کہ واخواست نباشد
گر شاہ پیامی بہ غلامی نفرستاد
حافظ* تو ادب سیکھ کہ آتا ہے یہ واجب
گر شاہ نے خدام کو اعلام نہ بھیجا