مولاناباقر آگاہ

یہ تحریر 2266 مرتبہ دیکھی گئی

مولانا باقر آگاہ کا نام ان اطراف میں کم لوگوں نے سنا ہے اور ان کا کام تو اور بھی کم لوگوں نے دیکھا ہے۔ اسے اتفاق سے زیادہ شمالی ہند والوں کا تعصب کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ دہلی میں جب اردو شاعری کا دور دورہ ہوا تو لاعلمی کی بنا پر یا تعصب کی بنا پر یا دونوں وجہوں کے باعث دکن کے شعرا کا ذکر نہیں کیا گیا اور اگر کیا بھی گیا تو بہت سرسری اور تحقیری لہجے میں۔ اس کے برخلاف دکن کے شعرا کو دہلی اور شمال کے اردو شعرا سے دلچسپی تھی اور انھیں شمال کے باکمالوں کا اعتراف کرنے میں کوئی تذبذب نہ ہوا۔ مثلاً خود مولانا باقر آگاہ نے اپنی مثنوی ”گلزار عشق“ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ سودا کا غلغلہ از ہند تا کرناٹک ہے۔ لیکن ملانصرتی کے بارے میں لوگ کم جانتے ہیں، ہر چند کہ نصرتی کا درجہ کسی طرح سودا سے کم نہیں۔

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ جنوبی ہند میں اور خاص کر حیدرآباد اور کرناٹک میں اردو ادبیات کا سنجیدہ مطالعہ شروع ہوا تو دکنیات پر بھی غائر نظر ڈالی گئی۔ گجری کا نمبر ذرا اور بھی دیر میں آیا یعنی دکنیات کے اولین ماہرین مثلاً ڈاکٹر زور کو یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ گجرات میں اردو کا چلن حیدرآباد سے پہلے ہوگیا تھا اور شاہ برہان الدین جانم سے لے کر شیخ خوب محمد چشتی اور عبدالولی عزلت اور عباس علی تک ایک سے ایک باکمال شاعر نے اردو میں طبیعت کا جوہر دکھایا ہے۔

افسوس کہ دکنی اور گجری مطالعات کا سلسلہ اس زمانے میں ذرا کمزور پڑ گیا ہے۔ لیکن راہی فدائی جیسے چند محقق دکن، اور خاص کر ویلور، کے ادب کو منظر عام پر لانے اور اس کی اہمیت اور خوبیوں کو واضح کرنے میں مصروف ہیں۔ مولانا باقر آگاہ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ زبان کی دونوں طرزوں، یعنی دکنی اور دہلوی، میں شعر گوئی پر یکساں قادر تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے شعر کی ماہیت پر بھی غور کیا۔ شعر کی زبان کے بارے میں بھی ان کی اپنی رائے تھی۔ راہی فدائی نے بجا طور پر ان کو اردو کا اولین نقاد کہا ہے۔ فاخر مکین نے فارسی استادوں کے اشعار پر بزعم خود اصلاحیں کی تھیں اور خود اپنے اشعار بھی جگہ جگہ درج کئے تھے اس پر سودا کی تنقید جو ”عبرت الغافلین“ نامی رسالے میں ملتی ہے، باقر آگاہ کی نثر سے پہلے کی ہے۔ لیکن سوداکی یہ سب تحریریں فارسی میں ہیں اور باقر آگاہ کی نثر اردو میں ہے۔ لہٰذا انھیں حقیقی معنوں میں اردو میں تنقیدی نثر کا قافلہ سالار کہا جا سکتا ہے۔

باقر آگاہ کی مثنوی ”ندرت عشق“ اب تک غیر مطبوعہ رہی ہے۔ ڈاکٹر راہی فدائی نے یہ بڑا کام کیا کہ اس کا مسودہ مدون اور مرتب کرکے دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ مثنوی ”ندرت عشق“ باقر آگاہ کے خمسہء مثنویات میں سے ایک ہے۔ ان تمام مثنویات کا طرز وہی ہے جسے پریم آکھیان کی شاعری کہا گیا ہے، یعنی عشقیہ مثنوی جس میں صوفیانہ معنی پنہاں کر دئے گئے ہیں۔ شمالی ہند میں ملا داؤد کی ”چندائن“ (۱۳۷۹)سے یہ روایت شروع ہوتی ہے اور ”پدماوت“ اس کا مشہور ترین نمونہ ہے۔ مولانا باقر آگاہ نے اسی روایت کی پابندی کرتے ہوئے پریم آکھیان کے طرز کی مثنویاں لکھیں۔ یہ بات بھی ان کے مزاج کی وسعت اور نظرکی گیرائی پر دال ہے کہ انھوں نے شمال کی ایک روایت کو جنوب میں زندہ کیا۔

میں ڈاکٹر راہی فدائی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انھوں نے ”ندرت عشق“ سے دنیا کو روشناس کیا۔ اردو ادب پر ان کے کئی احسانات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ اور ہے۔ مجھے یقین ہے کہ راہی فدائی کی یہ کاوش گذشتہ کاوشوں کی طرح مقبول ہوگی۔

الٰہ آباد، دسمبر۲۰۱۸                                          شمس الرحمن فاروقی