مظفر ابدالی

یہ تحریر 2533 مرتبہ دیکھی گئی

          مظفر ابدالی کا کلام پڑھئے تو ایک تازہ مسرت اور تحیر کا احساس ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ان کا کلام خامیوں سے بالکل پاک ہے(یہ بات تو آج کسی کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی)، لیکن ان کے یہاں نئے مضامین کی تلاش اور اظہار ذات کی ایک سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے۔ بڑ ی بات یہ کہ ان کے یہاں آج کے چلتے ہوئے مضامین کا شائبہ بھی نہیں۔مثلاًمظفر ابدالی کے کلام میں سیاسی اور سماجی حوالے، شہر اور گاؤں کی بات، محبت اور شکایت کے روایتی، ٹھٹھرے ہوئے انداز نہیں ہیں۔دوسرے الفاظ میں،ان کے یہاں ہر وہ چیز نہیں ہے جس سے کسی بھی سنجیدہ قاری کو الجھن،بلکہ گھبراہٹ ہونے لگتی ہے کہ یا خدا کیا آج کے شاعر کے لئے نئی بات،یا نیا جذبہ، یا نیا تجربہ، ممنوع قرار دے دئیے گئے ہیں؟

          مظفر ابدالی کا یہ نیا مجموعہ ان کے پچھلے مجموعے سے بہتر ہی نہیں، مختلف بھی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اب وہ سوال قائم کرتے ہیں، ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، حیات و کائنات کی گتھیوں کو سلجھانے کادعویٰ نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ کہ وہ دنیا کو، اور اس سے بڑھ کر یہ خود کو،تنقیدی اور تفتیشی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اور تیسری بات یہ کہ ان کی دنیاان کی اصلی دنیا ہے۔ اصلی سے میری مراد Authenticدنیا ہے، ’حقیقی‘ یا ’حقیقت پسندانہ‘ یعنی Realisticنہیں۔ وہ کسی خاص سماجی یا سیاسی ماحول کی تصویر کشی نہیں کرتے۔ان کے یہاں آج کے فیشن کے برخلاف، بچے، والدین، بجلی کا کھمبا، حتیٰ کہ شہر کے جانور(چڑیا، کتے، بلیاں) بھی موجود نہیں۔اس لئے میں کہتا ہوں کہ ان کی دنیا،ان کی اپنی اور اصلی دنیا ہے۔اس میں ’رواج عام‘ کی چیزوں کا گذر نہیں۔

          ایسانہیں ہے مظفر ابدالی اپنے باہر کی دنیا سے بے خبر ہوں۔ معاملہ صرف یہ ہے کہ وہ ادبی یا غیرا دبی فیشن کا پابند نہیں ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ پہلے وہ اپنی دنیا کو، اپنے داخلی وجود کو سمجھ لیں، اس کا ذکرکر لیں (ذکر کرنا سمجھنے ہی کا ایک عمل ہے)،تو پھر خارجی محسوسات کی طرف متوجہ ہوں۔

          آج کل نظم ہی کا شاعر نہیں، غزل کا بھی شاعراس سعی لاحاصل میں مصروف لگتاہے کہ ’معاصر‘دنیا اس کے دائرے سے باہر نہ رہ جائے۔ میرا خیال ہے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب شاعروں کے پاس کہنے کے لئے اپناکچھ نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں محفوظ راستہ یہی ہے کہ ’حدیث دیگراں‘ کا بہانہ لے کرکچھ کچا، کچھ پکامشاہدہ بیان کر دیا جائے۔ خیر یہی غنیمت ہے کہ ان شعرا کو کسی خاص فارمولے، یا کسی لگے بندھے نظریاتی موقف کی پابندی کا شوق نہیں ہے۔اپنے خیال میں وہ’اپنی ہی بات‘کہتے ہیں، لہٰذا بخیال خود وہ کامیاب بھی ہیں۔لیکن اچھا شاعر کسی بندھے ٹکے اصول، کسی بنی بنائی رسم کے مطابق شعر نہیں کہتا۔مشکل یہ ہے آج بہت سے اچھے اور سنجیدہ شاعر بھی آداب شعر گوئی سے بے بہرہ ہیں، شعر کے داخلی اور فنی تقاضوں سے بے خبر ہیں، یا انھیں نظر انداز کرتے ہیں۔(سنجیدہ سے مراد وہ شاعر ہیں جنھوں شعر گو ئی کو محض ایک شوقیہ مشغلہ، محض وقت گذاری اور محفلوں میں داد حاصل کرنے کاوسیلہ سمجھ کر نہیں اختیا رکیا۔)ایسے حالات میں مظفر ابدالی جیسے شعرا کا دم غنیمت ہے۔ و ہ آداب شعر سے اس قدر واقف نہیں جس قدرانھیں ہونا چاہیئے(مجھے خوف ہے کہ مشاعروں کاکچھ شوق انھیں بھی ہے۔یہ شوق شاعر کی ترقی کی راہ اگر مسدود نہیں تو مشکل ضرور کردیتا ہے۔)لیکن پھر بھی، میں ان کی غزل میں وہ نفاست اور شائستگی دیکھتا ہوں جس کی توقع ہمیں ان شعرا سے ہوتی ہے جو آزمودہ کار ہوں لیکن ان کی مشاقی صرف اس بات میں نہ ہو کہ مصرعے پر مصرع بہت خوبی سے بٹھا دیتے ہوں، بلکہ وہ اتنی ہی خوبی سے اپنی داخلی واردات کو بھی بے نقاب کر دیتے ہوں۔

          مثال کے طور پر، اس مجموعے کی پہلی ہی غزل کے یہ شعر دیکھئے    ؎ 

          یہ کوچہ و بازار کہاں اور کہاں میں

          آتے ہیں خریدار کہاں اور کہاں میں

          ہر عکس ترا عکس نظر آتا ہے مجھ کو

          تفریق کا پندار کہاں اور کہاں میں

دونوں شعروں میں کچھ ابہام کی فضا ہے،لیکن یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے کہنے کے لئے کچھ نہیں چھوڑا، ہاں سمجھنے کے لئے بہت کچھ چھوڑا ہے۔متکلم جس کوچہ و بازار میں (مقید؟) ہے، وہ اس کے لئے حیرت، بلکہ گھبراہٹ اور کچھ خوف کا سا مقام لگتا ہے:یہاں مجھے نہ ہو نا چاہیئے تھا۔ یہ بات بین السطور میں ہے۔لیکن بین السطور میں ایک سوال بھی پوشیدہ معلوم ہوتا ہے: ایسا تو نہیں کہ یہاں وہ اپنی مرضی سے آیا ہو، یعنی وہ مقید نہیں، آزاد ہے،لیکن کسی غلط فہمی یا گمراہی کے سبب یہاں آنکلا ہے؟لیکن دوسرے مصرعے میں ایک نئی طرح کا استفہام پیدا ہوتا ہیع آتے ہیں خریدار کہاں اور کہاں میں؟اب معلوم ہوا کہ وہ خود کو بیچنے ہی آیا تھا لیکن کسی غلط جگہ پر آنکلا ہے۔ خریدار تو یہاں نظر ہی نہیں آتے، وہ کچھ سراسیمہ ہو کر خود سے پوچھتا ہے۔یا خریدار تو ہیں،لیکن اس جنس کے خریدار نہیں جسے وہ بازار میں لایا تھا۔ تو کیا پھر یہ متاع کس مخر کا سا معاملہ ہے، کہ بکاؤ جنس تو ہے لیکن اسے کوئی خریدتا نہیں؟ میر نے اس موقعے پر کیا عجیب اور کیا دلپذیر بات کہی ہے     ؎

          قدر و قیمت اس سے زیادہ میر تمھاری کیا ہو گی

          جس کے خواہاں دونوں جہاں ہیں اس کے ہاتھ بکاؤ تم

          مظفر ابدالی کے شعر میں امید شکستگی یا فریب شکستگی ہے، کہ آئے تو تھے شاید اسی کے ہاتھ بکنے دونوں جہاں جس کے خواہاں ہیں، لیکن وہ خریدار وہاں ہے نہیں جہاں متکلم پہنچا تھا۔میر کے شعر میں ایک امید ہے، ایک ولولہ ہے،اور سب سے بڑھ کر کہ اپنی قدر و قیمت کا بھی احساس اور شعور ہے۔ایک دنیا وہ تھی جہاں ہرا بھرا سبزہ تھا، اور سبزے سے بھری ہوئی بلند کوہ کی چوٹی تھی جہاں سے میر ہم سے مخاطب تھے اور ایک دنیا غالب کی تھی جہاں خرید و فروخت کی گرم بازاری تھی اور فروخت مظفر ابدالی کے شعر میں امید شکستگی یا فریب شکستگی ہے، کہ آئے تو تھے شاید اسی کے ہاتھ بکنے دونوں جہاں جس کے خواہاں ہیں، لیکن وہ خریدار وہاں ہے نہیں جہاں متکلم پہنچا تھا۔میر کے شعر میں ایک امید ہے، ایک ولولہ ہے،اور سب سے بڑھ کر کہ اپنی قدر و قیمت کا بھی احساس اور شعور ہے۔ایک دنیا وہ تھی جہاں ہرا بھرا سبزہ تھا، اور سبزے سے بھری ہوئی بلند کوہ کی چوٹی تھی جہاں سے میر ہم سے مخاطب تھے اور ایک دنیا غالب کی تھی جہاں خرید و فروخت کی گرم بازاری تھی اور فروخت ہونے والے کو اپنی قدر و قیمت پر ایک غرور بھی ہے اور اپنی فروختگی کا احساس بھی،کہ ہم بہر حال بکنے آئے ہیں۔ اور جہاں کہتے ہیں کہ مال نہ بکے تو اس کی قیمت گھٹ جاتی ہے،وہاں غالب کی دنیا میں مال کی فروخت مشروط ہے خریدنے والے کے ظرف اور علوے طبع پر۔ خریدنے واا ہمارے معیار کا نہ ہوا تو ہم میر کی طرح عمتاع سخن پھیر لے کر چلو پر عمل کریں گے   ؎

          بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ

          لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر

          ان دونوں کے بعداب مظفر ابدالی کی دنیا ہے جہاں کسی چیز کا کچھ ٹھیک نہیں۔ یہ فرق صرف زمانوں کا فرق نہیں، اور محض مضمون آفرینی کا فرق بھی نہیں، یہ طبیعتوں کا فرق ہے۔ غالب کے زمانے میں ایسا شعر شاید ممکن نہ تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں مظفر ابدالی کو میر واور غالب کی محفل میں جلوہ گر کر رہا ہوں۔ میں صرف  مزاج اور افتاد طبع کا فرق دکھا رہا ہوں۔

          مندرجہ ذیل غزل کے شعروں میں جدید ذہن کی خاص صفت، یعنی شک اورانکارکا اظہار عجب درویشانہ سر افرازی کے ساتھ ہوا ہے۔ ان شعروں میں سر پھرا پن نہیں، بلکہ انفراد کا آہنگ بھی ہے۔ مادی دنیا یہاں سے دور ہے، لیکن روز مرہ کے ’احوال‘ بھی نہیں ہیں   ؎

          رفو کریں گے گماں کا دامن ہر ایک شک کو یقیں لکھیں گے

          جہاں جہاں پر فلک لکھا ہے وہاں وہاں ہم زمیں لکھیں گے

           زمانہ تب بھی یزید کا تھا  زمانہ اب بھی یزید کا ہے

          پہ ہم بھی ٹھہرے حسین والے نہیں لکھا تھا نہیں لکھیں گے

          تری گلی سے گذر رہے تھے تو دل میں کیا کیا نہ بات آئی

          کبھی یہ سوچا کہاں لکھیں گے کبھی یہ سوچا یہیں لکھیں گے

          مظفر ابدالی کو نئی نئی زمینیں نکالنے میں خاص مہارت ہے، جیسا کہ اوپر کی غزلوں سے اندازہ ہوا ہو گا۔ ان کے کلام کی ایک اور خوبی روانی کی ہے،جو بظاہرصرف محسوس ہو سکتی ہے، لیکن موزونیت بھی تو صرف حاسہ پر منحصر ہوتی ہے۔ تو کیاہم اس کے وجود سے انکار کر سکتے ہیں؟خسرو سے لے کر آج تک تمام شاعری میں روانی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ مثلاً حافظ سے منسوب ایک نہایت مشہور شعر ہے    ؎   

          آں را کہ دانی استاد گر بنگری بہ تحقیق

          صنعت گر است اما شعر رواں نہ دارد

مظفر ابدالی کی نظم میں مجموعی کیفیت غزلوں سے کچھ مختلف ہے۔اور یہ بڑی دلچسپ بات ہے، کیونکہ عام طور شاعر کا ایک ہی انداز ہوتا ہے جو غزل اور نظم دونوں میں یکساں نمایاں ہوتا ہے۔پرانے شاعر کی قصیدہ گوئی اور غزل گوئی میں ایک ہی اصول اور ایک ہی شعریات کارفرما ہے۔لیکن جدید نظم کی شعریات پر مختلف طرح کے اثرات ہیں، بلکہ یہ بھی کہا سکتا ہے کہ جدید نظم کی شعریات ابھی پوری طرح مرتب نہیں ہو ئی ہے۔اس صورت حال میں کوئی تعجب یا افسوس کا مقام نہیں۔ محمد قلی قطب شاہ سے لے کر آج تک ہمارے یہاں اتنی طرح کی نظم کہی گئی ہے کہ اسالیب کی گنتی اور ان کا بیان بہت مشکل ہو گیا ہے۔خوشی محمد ناظر کی طویل نظم ’جو گی‘ بھی نظم ہے اور افتخار جالب کی ’نفیس لا مرکزیت اظہار (قدیم بنجر)‘بھی نظم ہے لیکن دونوں ہیئت اور معنی کے لحاظ سے اس قدر مختلف ہیں کہ کوئی اناڑی سمجھ لے کہ یہ دو الگ الگ زبانوں کی نظمیں ہیں، تو کچھ تعجب کی بات نہ ہو گی۔

          مظفر ابدالی کی نظموں میں تلخی اور شکایت، اور محزونی اور اپنے اندر کچھ کمی کا احساس، یہ عناصر کبھی کبھی الگ الگ اور کبھی کبھی ایک ہی نظم میں جھلکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غزلوں کے مظفر ابدالی کی جگہ کسی کچھ سن رسیدہ، کلبی مزاج، خود پر بھی نکتہ چینی کا رجحان رکھنے والے شاعر نے لے لی ہے۔ ان نظموں کو جو چیز اور بھی قابل توجہ بناتی ہے وہ ان کا ابہام اور ان کا ٹھنڈا، ظاہری برہمی سے عاری انداز ہے۔ نظم ’ہم لوگ‘ کا پہلا مصرع کچھ روایتی سا معلوم ہوتا ہیع

          ہم لوگ ترے عشق کے مارے ہوئے لوگ

چھوٹی سی نظم ہے، لیکن جب ختم ہوتی ہے تو عجب نقصان اور بے چارگی کا احساس ہوتا ہے۔ آخری چارمصرعے ہیں:

          ہم لوگ جنھیں ٹھیک سے چلنا نہیں آتا

          ہم لوگ جنھیں ٹھیک سے جلنا نہیں آتا

          کچھ دور ابھی اور چلیں گے تری خاطر

          کچھ دیر ابھی اور جلیں گے تری خاطر

نظم کا ابہام باقی رہتا ہے، کہ یہ معشوق سے شکوہ ہے، کہ اظہار حال ہے، کہ خود پر طنز ہے، کہ خود سے شکوہ ہے؟اور یہ فیصلہ کس کا ہے کہ انھیں نہ جلنا آتا ہے،نہ چلنا؟کیا یہ معشوق کا بیان ہے جو طنزیہ نقل کیا گیا ہے، یا خود متکلم اپنی حقیقت بیان کر رہا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس سب کے پردے میں ایک طنز یہ بھی ہو کہ ہم تیرے لئے اتنا کچھ سہ رہے ہیں، تو بھی اتنا سمجھ لے کہ ہم سا جانباز اور مستقل مزاج تجھے پھر نہیں ملنے والا۔ حافظ    ؎

          شبے مجنوں بہ لیلیٰ گفت کاے معشوق بے ہمتا

          ترا عاشق شود پیدا ولے مجنوں نہ خواہد شد

تو ہو سکتا ہے کہ نظم کا متکلم اس زمانے کا مجنوں ہو۔

          ایک چھوٹی سی نظم اور دیکھتے ہیں، ’آئینہ‘۔یہاں ابہام کو اسرار کی منزل تک پہنچا دیا گیا ہے۔ خود سے شکایت اسی طرح ہے،لیکن تھوڑی سی باہر کی دنیا بھی جھانک رہی ہے۔ نظم پر خاموشی کی فضا حاوی ہے، یہاں تک کہ آخری مصرعے میں آئینے اور متکلم کی ہنسی بھی اندر ہی اندر سنائی دیتی ہے۔لیکن یہ خاموشی ہے، سکوت نہیں۔ یہاں خاموشی تناؤ اور پھر زوال کی علامت ہے۔ بحر بھی بہت تازہ ہے، ہر مصرعے کا آخری رکن عام رواج کے مطابق فاعلن نہیں بلکہ فاعلاتن ہے۔ اس کی وجہ سے ہر مصرعے کے اختتام پر کچھ ادھوری خاموشی کا احسا س ہوتا ہے،کہ شاید ابھی کچھ اور ہوگا۔ لیکن جب نظم ختم ہوتی ہے تو ’تمام شد‘ کی سی کیفیت حاوی نظر آتی ہے:

          بند کمرے کے سبھی کردار چپ تھے

          اک پرانی میز تھی دو کرسیاں تھیں

          جن پہ کچھ بوسیدہ کاغذ رہ گئے تھے

          آتے جاتے موسموں کا عینی شاہد

          کھردری دیوار پر اک آئینہ تھا

          آئینے کے سامنے کچھ دیر تھا میں

          آئینہ مجھ پر ہنسا میں آئینے پر

آئینہ باہر کی دنیا کی علامت ہے،لیکن شاید متکلم کی بھی علامت ہے۔ یہ تناؤ نظم کو مزید مستحکم کرتا ہے۔

مظفر ابدالی زبان و بیان پر مزید قابو پا لیں اور شعر کے لوازم کو، جنھیں پرانے لوگ خوب جانتے تھے، احتیاط سے برتنا سیکھیں تو اور بھی اچھا کہیں گے۔اہلاً و سہلاً۔