فاروقی صاحب کے لئے سوالات از عمر فرحت

یہ تحریر 2138 مرتبہ دیکھی گئی

(مدیر ’تفہیم‘، راجوری)

            عمر فرحت نے کچھ سوال لکھے تھے اور ان کا تحریری جواب مانگا تھا۔ان سوالوں کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا، وہ حاضر ہے۔

  سوال ۱ :    فاروقی صاحب ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کی تنقید شاید سو سال بعد کچھ پرانی لگے لیکن اس ناول کی وجہ سے آپ ہمیشہ نئے رہیں گے۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں؟  تفصیل سے بتائیں۔

            جواب: یہ بات تو بالکل صحیح ہے کہ میری تنقید سو برس بعد پرانی لگے گی، بشرطیکہ سو برس بعد بھی اس کو پڑھنے والا کوئی ہو۔ یہ بات تو میں مدت سے کہہ رہا ہوں کہ تنقید کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ اور ایک صدی تو بہت زیادہ مدت ہے، مجھے تو یقین ہے کہ اب سے دس بیس برس بعد بھی یہ تنقید پرانی لگے گی۔ خود مجھے اپنے پرانے مضامین کچھ اجنبی اور کچھ پرانے لگتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ تیس چالیس برس پہلے جو خیالات میں نے ظاہر کئے تھے ان کو اب میں غلط سمجھتا ہوں۔ بہت تھوڑی سی، دو ایک باتوں کو چھوڑ کر، میں اپنی پرانی تنقید کو غلط نہیں سمجھتا۔ لیکن اتنی مدت گذر گئی ہے کہ کہنے کا ا سلوب بدل گیا ہے، بعض باتوں پر میں اب زیادہ زور دیتاہوں، بعض پر کم۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ تنقید بہت جلد پرانی ہو جاتی ہے، خواہ وہ فاروقی کی ہو، خواہ کسی اور کی۔

            رہا سوال میرے ناول کا، تو مجھے امید ہے کہ یہ ناول ابھی کچھ دن تک پڑھا جائے گا۔سو برس تو نہیں،لیکن پھر بھی میری تنقید کی عمر سے زیادہ میرے ناول کی عمر ہو گی۔ ممکن ہے میرے ناول اور افسانوں پر ابھی اور لکھا بھی جائے۔ بس میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔

  سوال ۲ :   ”کئی چاند تھے سر آسماں“ کو لکھتے وقت اردو نثر کا کوئی مخصوص اسلوب آپ کے پیش نظر تھا۔ یعنی داستانوں کا یا فسانہئ عجائب والا اسلوب؟

            جواب: اردو کی مشہور کتاب ’فسانہ عجائب‘(مصنف رجب علی بیگ سرور، زمانہئ تحریر 1825-1840)کے اسلوب کو میں ہر گز قابل تقلید نہیں سمجھتا۔ ’فسانہ عجائب‘ نہ داستان ہے اور نہ اردو نثر کی اعلیٰ درجے کی کتاب۔ غالب نے اس کے بارے میں بالکل صحیح کہا تھا کہ اس کی نثر غیر مربوط اور پر تصنع ہے۔ ہاں، ’داستان امیر حمزہ‘ سے میں نے کچھ اثر ضرور قبول کیا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ’داستان امیر حمزہ‘ میں ہر طرح کی نثر کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں۔ اور اسے افسانہ گوئی کی بہترین مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ محمد حسن عسکری نے بہت صحیح لکھا ہے کہ داستان امیر حمزہ کی ’نثر اشیا کی پیاسی ہے۔‘ اس میں ہر طرح کی چیز، ہر طرح کا ساز و سامان، لباس، بناؤ سنگار کے سامان، جنگ اور محبت کے سامان، سب کچھ موجود ہے۔ اس پر میں اتنا اضافہ اور کر سکتا ہوں کہ ساستان امیر حمزہ کی چھیالیس جلدوں اور کم و بیش پچاس ہزار صفحات میں اردو نظر کے تمام امکانات کھلتے اور پھلتے پھولتے نظر آتے ہیں۔اس داستان کو اگر کوئی ٹھیک سے پڑھ لے تو پھر اسے نثر نگاری کے تمام طریقے، تمام انداز اور اسلوب دکھائی دے جائیں گے۔  میں اس زمانے میں شاید پہلا اور اکیلا شخص ہوں جس نے یہ تمام داستان، اس کی ساری جلدیں پڑھی ہیں۔ اور بعض کو تو میں نے دو یا تین بار پڑھا ہے۔

             لیکن میں  اپنے ناول میں در اصل جدید فکشن کے اس اسلوب کو اختیار کیا ہے جس میں کئی راوی ہوتے ہیں اور کئی نقطہ ہائے نظر ہوتے ہیں۔’قبض زماں‘  اور ’آفتاب زمیں‘میں بھی یہی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں نے اپنے واقعات کے نظام کو پیچیدہ نہیں بنایا۔ کرداروں کی کثرت اور اشیا کی تفصیل اور جزئیات نگاری کے انداز جدید مغربی ناول میں بہت ہیں۔ میں نے اس کا اثر قبول کیا ہے۔لیکن کرداروں کی کثرت تو داستان میں بھی بہت ہے۔ممکن ہے وہ بھی کچھ میرے ذہن میں رہا ہو۔لیکن مشہور اور مقبول اردو ناول نگاروں یا نثری نمونوں میں سے کسی کا اثر میں نے قبول نہیں کیا۔بہت سے بہت غالب کے اردو خطوط کا نام لے سکتا ہوں،کہ میں انھیں برسوں سے پڑھ رہا ہوں اور ایک حد تک ان کا اسلوب اب پرانا ہو چکا ہے، لیکن وہ اب بھی جاندار نثر معلوم ہوتے ہیں۔شبلی اور محمد حسین آزاد کو بھی میں استاد مانتا ہوں،لیکن ان سے سیکھا میں نے شاید کچھ نہیں۔

   سوال ۳ :  اس ناول کا ترجمہ انگریزی میں کرتے وقت آپ کو دقت پیش آئی۔ یعنی کیا ایسا لگا کہ انگریزی آپ کے مطالب کو پوری طرح ادا کرنے سے قاصر ہے؟

            جواب:دقت تو بہت ہوئی، لیکن اس میں انگریزی کا قصور نہیں۔ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور ہر زبان کے اپنا ماحول۔ اردو کا مزاج اور ماحول انگریزی سے بہت مختلف ہے۔ پھر مشکل یہ کہ میرے ناول میں زبان کے کئی رنگ ہیں اور انگریزی میں ان میں سے کوئی رنگ بھی منتقل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً عورتوں کی زبان، رسمیاتی اور درباری زبان، پرانی اردو، بات بات پر شاعری کو مکالمے یا بیانیے میں داخل کرنا، ’اعلیٰ‘(یعنی فارسی عربی سے بھری ہوئی) اردو۔ اور پھر یہ کہ پورے ناول میں (اس کے شروع کے صفحات کو چھوڑ کر) پرانی اردو استعمال ہوئی ہے، یعنی ایسی اردو جو اٹھارویں -انیسویں صدی میں رائج تھی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس ناول کی زبان میں آپ کو کوئی لفظ بھی ایسا نہ ملے گا جو انیسویں صدی کے بعد اردو زبان میں داخل ہو اہو۔ انگریزی میں ان باتوں کا گذر کہاں؟ اور جہاں تک زبان کا معاملہ ہے، وہاں تو دس برس، بیس برس میں زبان پرانی ہوجاتی ہے۔ نئے محاورے اور روز مرے رائج ہونے لگتے ہیں اور اگر آپ نے اپنے ناول میں ایسا کوئی محاورہ استعمال کریں جو بیس برس پہلے رائج تھا اور اب نہیں سنا جاتا، تو لوگ اعتراض کریں گے۔

            ایک بات میں نے ضرور کی، اور وہ یہ کہ اردو ناو ل میں جہاں جہاں پرانی زبان تھی، میں اپنے ترجمے میں وہاں پرانی ہی انگریزی کو استعمال کیا، یعنی ایسا کوئی لفظ نہ لکھا جو انیسویں صدی کی انگریزی میں رائج نہ رہا ہو۔ اس پر بعض لوگوں کو اعتراض بھی ہوا، لیکن میں نے اکثر یہ فرض کرنے کی کوشش کی کہ میں یہ ناول انگریزی ہی میں لکھ رہا ہوں، اردومیں نہیں۔لیکن یہ بات بھی چل نہ سکی۔ بہر حال چونکہ میں مصنف بھی تھا اور مترجم بھی، اس لئے متن کے ساتھ کہیں کہیں آزادی بھی میں نے برت لی۔             ہندی ترجمے کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے لائق مترجم نریش ندیم نے سادہ اور سلیس ہندی لکھی تھی۔ میں نے جب کرانتی شکلا کے ساتھ اس پر نظر ثانی کی تو ان کے مشورے کے مطابق اکثر جگہ اصل اردو ہی کو رکھا۔ اردو کے اشعار کو بھی یوں ہی رہنے دیا۔ ہاں فارسی کے شعروں اور عربی فارسی محاوروں کا ترجمہ جس طرح انگریزی میں کیا تھا، اسی طرح ہندی میں بھی کردیا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہندی پڑھنے والوں کو زبان کے بارے میں کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ انگریزی کے کچھ لوگوں نے، جیسا کہ میں نے ابھی کہا، شکایت کی کہ زبان بہت پرانی ہے۔ اردو والوں کو شکایت ہوئی کہ فارسی کے شعر بہت ہیں اور مشکل لفظ بہت ہیں۔ پاکستان میں ایک صاحب اردو اور فارسی کے ان تمام الفاظ کی فرہنگ بنا رہے ہیں جو میں نے ناول میں استعمال کئے ہیں۔ دیکھئے یہ کوشش کتنی کامیاب ہوتی ہے۔