سر بازار کھڑا چاک لبادہ ہے کہ بس
آدمی آج وہ مفروضۂ سادہ ہے کہ بس
دوستو! ایک حسیں شام کا مقروض ہوں میں
اور اس شام مرا آخری وعدہ ہے کہ بس
سر بہ زانو نہیں رہتا کوئی آمادۂ غم
مل کے رونے میں سکوں اتنا زیادہ ہے کہ بس
دیکھنے والے اٹھا لائے ہیں لہریں اپنی
ورنہ کب ٹوٹنے والوں کا ارادہ ہے کہ بس
ساتھ چلتے ہوئے رستے رگ جاں کھینچتے ہیں
اور دھندلکے میں مسافر وہ پیادہ ہے کہ بس
گھر کا گھر ڈوب گیا قوس قزح میں طالب
موسم ہجر وہ آشوب نہادہ ہے کہ بس
※※※※※