غزل

یہ تحریر 1041 مرتبہ دیکھی گئی

کواڑ بند سہی، طاقچے اجال کے رکھ
نئے دنوں کے لیے دستکیں سنبھال کے رکھ

میں برف جھاڑ کے آیا ہوں آسمانوں سے
مرے پیالے میں تھوڑی سی آگ ڈال کے رکھ

یہ دُزد مرگ اچانک نہ چھین لے سب کچھ
مری غزل مری تصویر دیکھ بھال کے رکھ

جہت پذیر ہیں دیرینہ خواب اور مہتاب
سو احتیاط سے آئینے خد و خال کے، رکھ

میں جنگلوں کا وہ مقروض ہوں کہ کمرے میں
ہوائیں جھانک کے کہتی ہیں: جاں کھنگال کے رکھ

اداسیاں کسی ترتیب سے نہیں آتیں
بچھڑنے والے! دکھوں کا حساب ٹال کے رکھ

مصوروں سے ملاقات سہل کرنے کو
نظر میں رنگ سبھی موسم وصال کے رکھ

کشادہ چھوڑ کے بانہوں کے دائرے طالب
دلوں میں فاصلے گلدستۂ خیال کے رکھ