گری یہ اوس کہ بوسے جھڑے درختوں سے
روا نہ تھا کہ صبا یوں لڑے درختوں سے
چھپا گئے ہیں تہہ,برگ کتنے نقش,قدم
مسافروں کو گلہ ہے کھڑے درختوں سے
بیان کرتے ہیں پیاسی حکایتیں کیا کیا
بندھے ہوئے کئی ٹوٹے گھڑے درختوں سے
میں دیکھنے سے زیادہ دعا پہ ہوں مامور
مری نظر نہ کہیں رس پڑے درختوں سے
پکارتی تھی ڈھلی شام پھر بھی آخر,کار
کنواریوں کے دوپٹّے اڑے درختوں سے
ہم ایسے، گھاس کی مانند سبز بخت رہے
ہوا لڑی ہے ہمیشہ بڑے درختوں سے
※※※※※