سر بازار کھڑا چاک لبادہ ہے کہ بس آدمی آج وہ مفروضۂ سادہ ہے کہ ...

کواڑ بند سہی، طاقچے اجال کے رکھ نئے دنوں کے لیے دستکیں سنبھال کے رکھ ...

سمیٹتے ہوئے جنموں کی پیاس چلتے رہے بلا کی دُھن میں ستارہ شناس چلتے رہے ...

گری یہ اوس کہ بوسے جھڑے درختوں سے روا نہ تھا کہ صبا یوں لڑے ...

شفق مزاج کبھی مطلع سحر کی طرح ملا ہے رزق سخن بھی تری نظر کی ...