شفق مزاج کبھی مطلع سحر کی طرح
ملا ہے رزق سخن بھی تری نظر کی طرح
اسے وداع کیا پورے چاند میں اور پھر
تمام رات میں لرزاں رہا شجر کی طرح
اور ایک دن کہیں اکتا کے توڑ پھوڑ نہ دے
یہ زندگی کسی مایوس کوزہ گر کی طرح
سفر بخیر نجانے کہاں کہاں مہکیں
حکایتیں بھی ہیں دیرینہ ہم سفر کی طرح
جنوں نہ ہو تو وہ تجرید کار ہے کہ نہ پوچھ
وصال و ہجر بھی آخر میں خیر و شر کی طرح
یہی ہے عشرت مبہم کہ بعد مرگ بھی لوگ
دعا میں یاد رکھیں اجر مختصر کی طرح
کہاں کی نیند کہ پھر فصل خواب سے طالب
بھرا پڑا ہے یہ مہتاب میرے گھر کی طرح