غزل

یہ تحریر 1160 مرتبہ دیکھی گئی

شفق مزاج کبھی مطلع سحر کی طرح
ملا ہے رزق سخن بھی تری نظر کی طرح

اسے وداع کیا پورے چاند میں اور پھر
تمام رات میں لرزاں رہا شجر کی طرح

اور ایک دن کہیں اکتا کے توڑ پھوڑ نہ دے
یہ زندگی کسی مایوس کوزہ گر کی طرح

سفر بخیر نجانے کہاں کہاں مہکیں
حکایتیں بھی ہیں دیرینہ ہم سفر کی طرح

جنوں نہ ہو تو وہ تجرید کار ہے کہ نہ پوچھ
وصال و ہجر بھی آخر میں خیر و شر کی طرح

یہی ہے عشرت مبہم کہ بعد مرگ بھی لوگ
دعا میں یاد رکھیں اجر مختصر کی طرح

کہاں کی نیند کہ پھر فصل خواب سے طالب
بھرا پڑا ہے یہ مہتاب میرے گھر کی طرح