غزل

یہ تحریر 1195 مرتبہ دیکھی گئی

سمیٹتے ہوئے جنموں کی پیاس چلتے رہے
بلا کی دُھن میں ستارہ شناس چلتے رہے

شفق نے ہاتھ بڑھایا تو ہم گریباں چاک
تری نظر سے بچھڑ کر اداس چلتے رہے

لگا تھا شہر میں میلہ سفید پوشوں کا
سو گھٹڑیوں میں اٹھا کر کپاس چلتے رہے

وہ شکل یاد نہ آئی تو سانحہ یہ ہوا
ہزار نام پس,اقتباس چلتے رہے

ہوا رُکی رہی، لہروں نے کوئی بات نہ کی
ہم اپنی موج میں دریا کے پاس چلتے رہے

وہ ٹوٹتی ہوئی انگڑائیاں تھیں توبہ شکن
سو خوش معاش بچا کر حواس چلتے رہے

پتہ کسی سے نہ پوچھا چراغ چہروں کا
لہو میں آگ بھری، خوش لباس چلتے رہے
※※※※※