حدوں سے باہر یا دل کے اندر کہاں رکھا ہے
اداسیوں کا بے پایاں بنجر کہاں رکھا ہے
سفید کشتی کے کالے پتوار جانتے ہیں
کہ خشک آنکھوں نے وہ سمندر کہاں رکھا ہے
جو چال الٹی چلا زمانہ کیا ہے سیدھا
قدم فلک پر نہ پوچھ یہ سر کہاں رکھا ہے
ہرے پہاڑوں کے پیش منظر میں گول چہرہ
نہ پوچھ یادوں سے ایسا منظر کہاں رکھا ہے
اکیلے رستوں میں کھو دیے ہیں پتہ ہی اپنا
ہمیں بھی معلوم اب نہیں گھر کہاں رکھا ہے
تقاضا کرنے سے منع کیوں ہو جلال اس روز
وہ مانگنے میں جو اپنا ہو ڈر کہاں رکھا ہے
وجودی زنداں سے چھوٹ جاؤ پتہ لگاؤ
بنانے والے نے باہری در کہاں رکھا ہے