غزل

یہ تحریر 289 مرتبہ دیکھی گئی

حدوں سے باہر یا دل کے اندر کہاں رکھا ہے
اداسیوں کا بے پایاں بنجر کہاں رکھا ہے

سفید کشتی کے کالے پتوار جانتے ہیں
کہ خشک آنکھوں نے وہ سمندر کہاں رکھا ہے

جو چال الٹی چلا زمانہ کیا ہے سیدھا
قدم فلک پر نہ پوچھ یہ سر کہاں رکھا ہے

ہرے پہاڑوں کے پیش منظر میں گول چہرہ
نہ پوچھ یادوں سے ایسا منظر کہاں رکھا ہے

اکیلے رستوں میں کھو دیے ہیں پتہ ہی اپنا
ہمیں بھی معلوم اب نہیں گھر کہاں رکھا ہے

تقاضا کرنے سے منع کیوں ہو جلال اس روز
وہ مانگنے میں جو اپنا ہو ڈر کہاں رکھا ہے

وجودی زنداں سے چھوٹ جاؤ پتہ لگاؤ
بنانے والے نے باہری در کہاں رکھا ہے