غزل

یہ تحریر 548 مرتبہ دیکھی گئی

پتّے کا تن سبز ہوا ہے، پھول نے خوشبو پا لی ہے
خون لگا سارا پودے کا، کاٹنے والا مالی ہے

شاہد بازی دلکش عادت، برسوں سے دنیا کی ہے
غم بھی بنا دل چسب تماشا، ہم نے بزم سجا لی ہے

مرتبوں والا اُتنا ہی ہے ،جتنا جس کا زور چلا
پیار، وفا، اخلاق، مروّت، سب کچھ خام خیالی ہے

جھوٹ اور دھوکا دور نئے میں، معراجوں کی سیڑھی ہیں
جتنا ہوگا کوئی منافق، اتنا ہی وہ عالی ہے

رنگ برنگے شہر نہ جانیں، من میں بسے ویرانوں کو
اندر کیا جو کال پڑا ہے، باہر تو خوشحالی ہے

روشن ہو جا ہیروں جیسا، تاکہ جڑا تاجوں میں جائے
کنکر چھان کے باہر پھینکے، لالچ ایسی جالی ہے

دیکھنے کو اُس سورج رخ کو، ہم سایہ دیوار کا ہیں
جب دل چاہا ایک جَھلک کو، ہم نے آنکھ اُچھالی ہے

کیسے سُنے مصروف زمانہ، دُکھتے لہجے، چُبتے بول
دل کو تسلی کے لیے ہم نے یونہی بات بنا لی ہے