غزل

یہ تحریر 397 مرتبہ دیکھی گئی

میں زیر ہو رہا تھا پھر جِلَو میں آیا کوئی
رہی نہ سامنے پھر ڈھال، سر نہ پایا کوئی

نہیں بچے گا کوئی اُس کو رونے والا بھی
لگا کے دیکھے تجھے ہاتھ ماں کا جایا کوئی

میں صدقے جاؤں ترے عشق کی سہولت پر
نہ روئیں راتیں تری نہ ہی زخم کھایا کوئی

وہ دسترس میں نہیں، گرچہ ہم کو یوسف ہے
گو خواب دیکھے کئی، اس کو نہ سنایا کوئی

ہمھیں کے جیسے رکھیں ربط ہم فقیروں سے
ستم نصیب کوئی رزق کا ستایا کوئی

تو اپنی بزم میں کِھلنا ہمارا بھی تو دیکھ
وہ کیا کہ تحفوں میں جو مہنگے پھول لایا کوئی

سنا تھا، دیکھ لیا اب تو آ کے غربت میں
رہا نہ اپنا کوئی نہ ملا پرایا کوئی

کوئی ستارہ شناسی مری پرکھتا ہے
کہیں بجھایا کبھی تو کہیں جلایا کوئی

بچھڑنا تجھ سے ہو یا زندگی کو کرنا ہو
نظر نہ کم پہ کی جو رنج بھی اٹھایا کوئی