غزل

یہ تحریر 533 مرتبہ دیکھی گئی

ترا ذکر ہے وظیفہ، تری یاد نوکری ہے
ترے عشق کی فقیری ہی بڑی توانگری ہے

مری برگِ چشم تازہ، ترے نور کی غذا سے
مرے تن کی شاخِ نازک، تری دید سے ہری ہے

کبھی اصل کی حقیقت ، کوئی ہے جو جان پایا
میں بھی ہوں نظر کا دھوکا، تو بھی شعبدہ گری ہے

کوئی عشق کے محاذوں میں نہ تجھ سے جیت پائے
میں ہوں اک سپاہی زخمی، ترا درد لشکری ہے

ہے کٹھن بہت ہی لیکن، نہیں مصلحت سے خالی
چلے جیسے زندگانی، اسی طرح بہتری ہے

یہ جہان خاک و خستہ، مری خوءِ سرکشی سے
کسی لامکاں کی مٹی، مری خاک میں دھری ہے

نہیں قصّہ کل زماں کا، اِنھیں دو پلوں سے بڑھ کر
ترا کُن ہے نغمہ اوّل، مرا رقص آخری ہے