غزل

یہ تحریر 457 مرتبہ دیکھی گئی

پیچھے پڑا ہے وقت کہاں خود کو چھپا لیں
بے ساختہ دوڑیں کہ زمیں کو ہی گھما لیں

وہ چاندنی ہے گاؤں میں تیرے کہ ہنر ساز
گلیوں میں بِچھی خاک سے آئینہ بنا لیں

دل بوجھ نہ سہہ پائے گا دونوں کا اکٹھا
جی بھر کے تجھے دیکھیں کہ باتوں کا مزا لیں

مل جائے تو جو صبح کے معصوم پلوں میں
پلکوں سے تجھے چھوئیں چھو کے دل سے لگا لیں

غربت ہے بڑی چیز پہ کس نے کہا ناداں
اس مشت زمیں دل میں بھی ارمان اگا لیں

مذہب کی دکانوں پہ بکیں رنگ برنگے
ہم ہیں کہ کھڑے سوچتے ہیں کیسا خدا لیں