غزل

یہ تحریر 594 مرتبہ دیکھی گئی

ہو جاۓ کہاں اس کی شروعات کا کیا ہے
دل ہو تو محبت میں مقامات کا کیا ہے

ہر روز بدل جاتی ہے بازار میں قیمت
اس شہر میں مزدور کی اوقات کا کیا ہے

آنکھوں میں سدا تیرتے رہتے ہیں یہ بادل
ہو جاۓ کسی وقت بھی برسات کا کیا ہے

مشکل ہوں تو مشکل سہی آساں ہوں تو آساں
آخر کو گزر جاتے ہیں دن رات کا کیا ہے

دو دن نہ ملا وہ تو پریشان ہو کتنے
ہو جاۓ گی اک روز ملاقات کا کیا ہے

آنکھیں تو دکھا دیتی ہیں جو موڑ بھی آۓ
اب اس میں کسی کشف و کرامات کا کیا ہے

موسم کے بدلنے پہ بدل جاتے ہیں خود ہی
اس دل میں بھڑکتے ہوۓ جذبات کا کیا ہے

خوابوں کی زمیں اور ہے خوابوں کا فلک اور
ہوتے ہیں تو ہوں ارض و سماوات کا کیا ہے