غزل

یہ تحریر 794 مرتبہ دیکھی گئی

سر افلاک ہے بکھرا ہوا شیرازہ انجم کا
“نشاں چھاتی پہ ہے میری کسی کے رخش کے سم کا” *

یہ تخم زرد اپنے اندروں میں ہی کہیں بو
دے
اگر اک ذرہ باقی ہو ترے دل میں ترحم کا

چباتے انگلیاں اور کوٹتے سینہ’ پٹکتے سر
مزہ دوچند ہوجاتا ہے رہ رہ کر تظلم کا

ہوئی پھر چشم گریاں بے کہے بخشش پہ آمادہ
ارادہ باندھنے کو تھے ابھی یاراں تیمم کا

جبیں بے منت غیرے وہیں تسلیم میں خم ہے
کسی کے مشورے میں شائبہ سا اک تحکم کا

موخر ہے لبوں کی خندگی اور چشم کا گریہ
چکا دیتے رلا کر ہی کبھی جھگڑا تبسم کا

نہ تھی زیبا ہماری پیش گفتاری کو حد شکنی
زباں نے ذائقہ چکھا نہیں کب سے تکلم کا

بہت کچھ روشنی ہے طاق جاں میں ایک نسبت سے
مگر اک مرحلہ باقی ہے تعلیم و تعلم کا

مصحفی *