غزل

یہ تحریر 882 مرتبہ دیکھی گئی

پہاڑی راستے پر آبجو کی آزمائش ہے
سمندر کس طرف ہے جستجو کی آزمائش ہے
پرے دیوار جاں کے اک دھندلکے کے سوا کیا ہے
مرے اندر مسلسل آرزو کی آزمائش ہے
کئی لہریں سی اٹھتی ہیں جو لفظوں میں نہیں ڈھلتیں
ان آنکھوں کے مقابل گفتگو کی آزمائش ہے
میں اپنے دل کی خاموشی تجھے ای میل کرتا ہوں
سنا ہے میکدے میں ہاوہو کی آزمائش ہے
تعین سمت کا ہوتا نہیں آنکھیں بھٹکتی ہیں
قدم کیسے اٹھیں جب چارسو کی آزمائش ہے