پہاڑی راستے پر آبجو کی آزمائش ہے
سمندر کس طرف ہے جستجو کی آزمائش ہے
پرے دیوار جاں کے اک دھندلکے کے سوا کیا ہے
مرے اندر مسلسل آرزو کی آزمائش ہے
کئی لہریں سی اٹھتی ہیں جو لفظوں میں نہیں ڈھلتیں
ان آنکھوں کے مقابل گفتگو کی آزمائش ہے
میں اپنے دل کی خاموشی تجھے ای میل کرتا ہوں
سنا ہے میکدے میں ہاوہو کی آزمائش ہے
تعین سمت کا ہوتا نہیں آنکھیں بھٹکتی ہیں
قدم کیسے اٹھیں جب چارسو کی آزمائش ہے
غزل
یہ تحریر 882 مرتبہ دیکھی گئی