غالب اور غالب انسٹیٹیوٹ

یہ تحریر 2052 مرتبہ دیکھی گئی

(۱)

سنہ ۱۹۶۹ کاسال غالب اور اردوادب کے لئے بڑا مبارک سال ثابت ہوا۔سارے زمانے میں غالب کی ایک لہر سی دوڑ گئی تھی۔ملکوں ملکوں سے غالب پر جلسوں اور غالب کے مطالعات سے متعلق تحریروں کا ایک سیلاب تھا جو امڈا چلا آرہا تھا۔یہ سلسلہ غالب کی سو سالہ برسی یعنی ۱۹۶۹ کے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا اور ۱۹۶۹ آتے آتے تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اردو نے غالب کے سوا کوئی شاعر پیدا ہی نہیں کیا۔اب تک جس اردو شاعر کی تھوڑی بہت موجودگی بین الاقوامی سطح پر تھی تو وہ اقبال تھے۔اقبال کے بعد تھوڑا بہت ذکر، لیکن بہت کم ذکر میر اور پھر میر انیس کا ہوتا تھا۔ اردو زبان کے حدود میں غالب کی غیر معمولی مقبولیت نے البتہ میر کو پیچھے چھوڑ دیا تھا،لیکن بین ا الاقوامی ادبی دنیا میں اردو کا کوئی شاعر معروف نہ تھا۔
اب اچانک سنہ ۱۹۶۹ میں لوگوں کو پتہ چلا کہ غالب ایسے شاعر ہیں جن کو دنیا کے ادب میں جگہ ملنی چاہیئے تھی۔اور ان چند برسوں میں دنیا کے گوشے گوشے میں مطالعات غالب کی رفتار تیز اور تیز تر ہوئی اور جگہ جگہ معیار بھی بلند تر ہوا،یا اگر بلند تر نہ ہوا تو غالب شناسی کا میدان اس قدر متنوع ضرور ہوا کہ ہمیں محسوس ہونے لگاغالب کو اب ان کا حق ملنے والا ہے۔
دہلی میں مرحوم حکیم عبد الحمید نے غالب اکیڈمی کی بنیاد ڈالی اور یہ ادارہ ایک محدود لیکن موثر طور پر غالب اور اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہوا۔اکیڈمی کی زندگی میں نشیب و فراز آئے اور غالب سے متعلق کاموں کی رفتار اور تنوع میں پہلے جیسی گرمی نہ رہی۔لیکن غالب اکیڈمی بہر حال اب شہر کے اہم اداروں میں ہے جہاں غالب اور اردو زبان کے نام لیواؤں کی قدر ہو تی ہے۔حضرت نظام الدین صاحب کی بستی کے عین بیچو ں بیچ واقع ہونے کی وجہ سے پرانے شہر کے لوگوں کی رسائی یہاں سہل تر اور عام تر ہے۔غالب کے مزار کے بالکل متصل ہونے کی وجہ سے، اور اپنے عا م ماحول کی وجہ سے بھی،کہا جاسکتا ہے کہ غالب اکیڈمی کے اطراف میں خود غالب کا زمانہ ایک حد تک زندہ معلوم ہوتا ہے۔
غالب انسٹیٹیو ٹ کے انعقاد میں مرحوم فخرالدین علی احمد اور ان کی وجہ سے حکومت ہند کا بڑا ہاتھ تھا۔مالی اعانت تو وافر تھی ہی، زمین بھی بہت اچھی ملی اور عمارت تو ایسی بنی کہ شہر کی جدید خوبصورت عمارا ت میں شمار ہوئی اور اب بھی شمار ہوتی ہے، اگرچہ اب اس کے گرد و پیش میں دہلی کی آبادی پھولتے پھولتے ایک اژدہا بن گئی ہے اور خوف پیدا ہونے لگا ہے کہ یہ اژدہا کچھ برس میں انسٹیٹیو ٹ کو بالکل گھیر اور دبا لے گا۔
غالب انسٹیٹیوٹ کی ایک بڑی خوبی اور اس کے بارے میں ایک اہم بات یہ تھی، اور اب بھی ہے، کہ انسٹیٹیوٹ اور اکیڈمی میں کوئی رقابت نہ تھی۔دونوں اپنی جگہ خدمت گذار انجمنیں تھیں۔ نہ یہ اس کے کاموں میں ہارج ہوتی تھی اور نہ وہ اکیڈمی کے کاموں کوچشم کم یا چشم حسد سے دیکھتا تھا۔نیم سرکاری، یا حکومت کا قائم کردہ ہونے کی وجہ سے انسٹیٹیوٹ شروع ہی سے با رتبہ بن گیا تھا۔لیکن اس کی بڑی وجہ در اصل یہ تھی کہ اس وقت کے بڑے محقق اور غالب شناس جواردو ادب میں فعال تھے،وہ سب انسٹیٹیوٹ کے بانیوں میں تھے:قاضی عبد الودود،مالک رام،نذیر احمد،آل احمد سرور، رشید حسن خان، اسلوب ا حمدا نصاری، سب یہاں موجود تھے۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ انسٹیٹیوٹ نے روز اول سے بیش قیمت انعامات کی طرح ڈالی۔اس سے پہلے اتنے انعامات اوراتنے گراں قدر انعامات اردو ادب میں کہیں نہ قائم تھے۔ساہتیہ اکادمی ہی کا انعام تھا جو وقعت اور ایک حد تک ہوس کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔شروع شروع میں انعام یافتگان کے انتخاب اور تعین میں احتیاط اورسختی برتی جاتی تھی۔اب ایسا نہیں رہا ہے، لیکن یہ جدید ہندوستان میں ادبی سماج اور سیاست، اور خاص کر اردو سماج اور سیاست کی بو قلمونیاں اور کروٹیں ہیں اور ان پر گفتگو کی یہاں ضرورت نہیں۔لیکن انسٹیٹیوٹ کے انعامات کی یہ خوبی ضرورقابل تحسین و تذکرہ ہے کہ اس کے انعامات جدید لوگوں پر بند نہیں ہیں بلکہ شروع ہی اچھے اور نئے لکھنے والوں کا اعتراف ہوتا رہا ہے۔
غالب انسٹیٹیوٹ کے بین الاقوامی سیمینار شروع سے خاص توجہ کامر کز رہے ہیں۔ ادھر کچھ برسوں سے ریسرچ اسکالروں کے لئے الگ سے سالانہ سیمینار منعقد ہونے لگا ہے۔یہاں نئے ریسرچ اسکالربڑی تعداد میں آتے ہیں اور اپنے مطالعات کے نتائج پر گفتگو کرتے ہیں۔ پرانے معاملات پر بھی بات ہوتی ہے۔ یہ خوشگوار تنوع تو ہے لیکن افسوس کہ اتنا سود مند یا کار آمد نہیں جتنا ہو سکتا ہے۔ ہمارے یہاں تدریس کا معیار اور اسی اعتبار سے تحقیق کا معیار روز بروز پست ہو تا جاتا ہے۔کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ نام نہاد تحقیق کا موضوع کچھ ہے لیکن لکھا کچھ اور گیا ہے۔ عسکری صاحب نے مدتوں پہلے ایک خط میں لکھا تھا کہ اردو کے پروفیسروں سے اردو کو جتنا نقصان پہنچ رہا ہے اس کا تدارک اور تلافی اللہ ہی کرے تو کرے۔تب سے اب تک دنیا اور بھی بدل چکی ہے اورتبدیلی کا رخ پستی ہی کی طرف رہا ہے۔ریسرچ اسکالر سیمیناروں سے توقع تھی کہ طلبا، اور ممکن ہوا تو ان کے استاد آپس میں بیٹھ کر علمی اور تحقیقی نکات اور معلومات کا تبادلہ کریں گے اور اس طرح شاید کچھ نئی راہیں بھی کھل سکیں۔لیکن ابھی تو تک ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
شروع شروع میں غالب انسٹیٹیوٹ کے غالب سیمیناروں کا موضوع غالب ہی سے متعلق قائم کیا جاتا تھا۔بعد میں فیصلہ ہوا کہ اس دائرے کو ذرا پھیلایا جائے تاکہ تکرار کا احساس نہ ہو۔ چنانچہ غالب کے بعض اہم معاصرین پر بھی سیمینار ہوئے۔ادھر کچھ دن سے توجہ پھر غالب کی طرف منعطف ہوئی ہے تو کئی سیمینار غالب ہی پر مرکوز رہے ہیں۔ لیکن موضوعات کچھ ایسے مقرر کئے گئے ہیں جن سے گمان ہوتا ہے کہ غالب بچارے کوپھر ایک بار مغرب کی بھٹی میں تپانے کی کوشش ہو رہی۔یعنی یہ موضوعات ایسے ہیں جو شاید کسی مغربی شاعر کے لئے تھوڑے بہت مناسب ہوں تو ہوں لیکن غالب، یا کسی بھی قبل جدید مشرقی شاعر کے لئے ہر گز مناسب نہیں ہو سکتے۔ دو مختلف شعریات اور ادبی روایات کا کوئی نقطہئ اتصال نہیں ہو سکتا۔ غالب یا حافظ کی مدد سے شیکسپیئر کو سمجھنے کی سعی لا حاصل ہی رہے گی۔اور شیکسپیئر،یا کسی بھی قبل جدید مغربی شاعر،خواہ وہ گوئٹے ہی کیوں نہ ہو، ان کی روشنی کو غالب کو پڑھنا ہی ناممکن ہے،سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔
گوئٹے کا نام میں اس لئے لیا کہ ایک زمانہ تھا، اوروہ بھی ہم سے کچھ اتنا بہت دور نہیں، جب غالب کو گوئٹے سے بھڑانے کا فیشن سا بن گیا تھا۔ حتیٰ کہ ’غالب اینڈ گوئٹے‘ کا فقرہ
ایک مذاق کے طور پر استعمال ہونے لگا تھا۔ مشرق کے شعرا کو مغرب کی نظر سے دیکھنا، اور مشرق کو مغرب کے ہم پلہ قرار دینے کی رسم اب سو برس سے زیادہ پرانی ہو چکی ہے۔ حالی نے مغرب کا شعرا کا نام لے کر انھیں غالب کے سامنے لانے کی کوشش نہیں کی تھی لیکن اشارے انھو ں نے ایسے کر دئیے تھے کہ غالب کو مغربی ایوان ادب میں جگہ مل سکتی ہے۔اس کا نتیجہ فوراً سامنے آیا کہ سنہ ۱۹۱۰ میں صلاح الدین خدا بخش نے ایک رسالہ لکھا جس میں انھوں نے غالب اور جرمن شاعر ہائنہ (Heine)میں مماثلت اور برابری ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر اس کے دس ہی گیارہ سال بعد عبد الرحمٰن بجنوری نے اپنے مختصر دیباچے ’محاسن کلام غالب‘(۱۹۲۱) میں فرانس اور جرمنی کے کئی شعرا کے نا م لئے اور انھیں غالب سے بہت مماثل اور بسا اوقات بہتر پایا۔ ان شعرا میں ہائنہ بھی تھا اور گوئٹے بھی۔پھر تو ایک دوڑ مچ گئی کہ غالب کو مغرب کے بازار میں لے ہی آیا جائے ع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
ڈاکٹر عبد اللطیف نے ’فلسفہئ کلام غالب‘ میں غالب کو فلسفی شاعر بتایا۔اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ بچارے پر خوب برسے بھی کہ غالب کے یہاں ’حقیقت نگاری‘ بالکل نہیں، مبالغہ اور فضول خیالی باتیں بہت ہیں۔
بیسویں صدی کے اوائل، یا پہلی چوتھائی تک یہ دو تین باتیں ہماری تنقید میں قائم ہو گئیں:غالب فلسفی نہیں تو فلسفیانہ میلان بے شک رکھتے ہیں، وہ فکری شاعر ہیں۔غالب بہت نازک خیال اوربلند پرواز شاعر ہیں۔اور غالب کا کلام از حد مشکل ہے(شاید اس لئے کہ اس میں فلسفہ بہت ہے)۔خوبی کی بات یہ ہے کہ یہ باتیں ہماری تنقید نے رفتہ رفتہ ترک کردیں، یاشاید مسترد ہی کردیں۔ مثلاًغالب کے تفلسف پر گفتگو اب کم ہوتی ہے۔’فلسفہئ کلام غالب‘ تو اب شاید کوئی پڑھتا بھی نہیں۔غالب کو ’مشکل‘ کے بجاے ’مبہم‘ بتایا گیا اور ان کے ابہام کو جدید شاعری کے ابہام کا جواز بھی بتایا گیا۔جدید شاعری پر بحث ہو تو غالب کا اس میں در آنا لازمی سا ہو گیا۔
یہ بھی ہوا کہ غالب پر بحث و مباحثہ کے لئے کچھ نئے نکات اور نئے پہلو سامنے آئے۔ مثال کے طور پر محمد حسن عسکری اور پھر ان کی تقلید میں سلیم احمد نے یہ بات بڑے زور و شور سے کہی کہ غالب اپنی شخصیت کی نگہبانی کرتے ہیں، وہ اسے محبوب کے سامنے عاجزانہ پیش نہیں کردیتے۔ خود کومحبوب پر فنا کر دینے یا اپنی شخصیت کومحبوب کے وجود پر قربان کرنا انھیں نہیں آتا،اور میر کا خاصہ یہ ہے کہ وہ محبوب کے سامنے اپنی نفی کرتے ہیں،اپنی ہستی کو معشوق کے سپرد کر دیتے ہیں۔عسکری کے خیال میں میر کی یہ صفت انھیں غالب پرتفوق دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح یا غلط جیسی بھی ہو،بنیادی طور پر غیر ادبی ہے۔ اس کا شعر کے معیار سے کوئی رشتہ نہیں۔یہ کوئی شاعرانہ معیار نہیں، محض ذاتی اور داخلی معیار ہے۔ سلیم احمد نے عسکری کی بات کو اور پھیلایا اور کہا کہ تمام شاعری کی صفت یہ ہے کہ اس میں شاعر اپنی شخصیت کو محبوب کی نذر کردیتا ہے کہ سپردم بتو مایہئ خویش را۔اب شخصیت جتنی مہتم بالشان ہو گی، شاعر بھی اتنا ہی عظیم ہو گا۔ اس لئے سلیم احمد نے جرأت کو بہت کمتر ٹھہرایا،کہ ان کے خیال میں جرأت کی ذات، شخصیت، جو بھی کہیں،بہت معمولی اور فرومایہ تھی۔
خدا جانے سلیم احمد نے جرأت کو کتنا پڑھا تھا، پڑھا تھا بھی کہ نہیں، لیکن عسکری اورسلیم احمد کی اس بات نے کچھ اثر ضرور دالا کہ میر کا رتبہ بالا تر ہے کیوں کہ میر تو معشوق کے سامنے اپنی مکمل نفی کرکے خود کو معشوق کے سامنے محض گرد و غبار اور بے حقیقت بناکر پیش کرتے ہیں اور غالب اپنا آپا بر قرار رکھتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، یہ باتیں غیر ادبی باتیں تھیں۔لیکن ان کا بھی رشتہ بھی وہیں جا کر قائم ہو تا ہے کہ مغرب میں شاعر ی کو شخصیت کا اظہار بھی کہا گیا ہے۔اور یہ مفروضات تو بالکل فضول تھے کہ غالب کے یہاں فلسفہ ہے،فکر ہے، وغیرہ وغیرہ۔لکریشئس (Lucretius)کو مغرب میں فلسفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ عسکری نے لکھا کہ خاقانی کے سامنے لکریشئس کیا بیچتا ہے۔لیکن کولرج صدی سے زیادہ پہلے یہ کہہ چکا تھا کہ جہاں ’لکریشئس کے یہاں فلسفہ ہے، وہاں شاعری نہیں، اور جہاں شاعری ہے،وہاں فلسفہ نہیں۔‘کولرج ادبی معیار سے بات کر رہا تھا اور عسکری کا معیار یہاں بہر حال غیر ادبی تھا۔یہ ضرور ہے کہ ان کے اس قول نے ہماری خود اعتمادی کوکسی حد تک اپس لانے میں معاونت کی۔ ورنہ یہاں تو اب تک یہ حال ہے کہ غالب انسٹیٹیوٹ کے ایک جلسے میں ہمارے زمانے کے ایک بہت بڑے میر و غالب شناس نے کہہ دیا تھا کہ میر کچھ بڑے شاعرنہیں ہیں۔
ہماری خود اعتمادی کے زوال کی تاریخ میں اواخر انیسویں صدی کے مصلحین اورتنقیدی مفکرین کا نام سب سے زیادہ نمایاں رہے گا۔ آزاد نے ’آب حیات‘ میں کہہ دیا کہ ہماری پرانی شاعری اب ختم ہو چکی ہے اور اس قول کی پابندی انھوں نے اس حد تک کی کہ انھوں نے اپنی بات کو انیسویں صدی کے بڑے اور محبوب شعرا (جن میں ذوق بھی شامل تھے)اور میر انیس پر لا کر ختم کردیا۔گویا آزاد کے نزدیک مظفر علی اسیر، امراؤ مرزا انور دہلوی، ظہیر دہلوی، میر مہدی مجروح، امیر مینائی،ضامن علی جلال، اور ان سب سے بڑھ کر ان کے محترم اور تقریباً آسمانی استادذوق کے شاگرد داغ دہلوی بھی ان کی نگاہ التفا ت کے شایان نہ تھے۔’آسمانی‘ میں نے اس لئے کہا کہ مولانا نے ذوق کا تذکرہ شروع ہی ان الفاظ سے کیا ہے کہ انھوں نے مضاین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں۔ ’آب حیات‘ (۱۸۸۰)کے تین کم بیس برس بعد مولانا حالی نے ’یاد گار غالب‘(۱۸۹۷)جیسی یادگار کتاب شائع کی تو نفس مضمون پر آنے کے پہلے انھوں نے اس بات کی وضاحت کردی کہ شاعری کے سواکوئی ایسی صفت غالب میں نہ تھی جو انھیں امتیاز بخشتی،لیکن اب اس شاعری کا رواج کم سے کم ہورہا ہے،بلکہ اٹھتا ہی جا رہا ہے اور بظاہر اس کا کوئی مستقبل ہے نہیں۔ بنا ٌعلیہ یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ غالب کے حالات و خواص کو ضبط تحریر میں لا دیا جائے۔ گویا معنوی طور پر حالی نے ’یاد گار غالب‘کی تنقیدی سوانح نہیں، بلکہ وہ تقریر لکھی جس میں مغربی رسم کے مطابق مردہ کے صفا ت بیان کئے جاتے ہیں۔اسے وہاں کی اصطلاح میں Eulogyکہتے ہیں جس کے اصل معنی ہیں ’مبالغہ آمیز تعریف‘۔
خیر، غالب انسٹیٹیوٹ کے حالیہ غالب سیمیناروں میں جو معاملات زیر بحث لائے گئے ہیں ان سے گمان ہوتا ہے کہ ہم کئی دہائی پیچھے جا کر پھر ان غیر ادبی اور غیر مشرقی معیاروں کو اعتبار دلوا رہے ہیں، یا ان کا جواز ضرور پیدا کر رہے ہیں جنھیں ہم بڑی حد تک چھوڑ چکے تھے۔
غالب انسٹیٹیوٹ کے اوائلی زمانے میں غالب اور جدید ذہن پر البتہ گفتگوئیں ہوئیں۔آل احمد سرور نے اچھا مضمون لکھا۔غالب اور جدید ذہن کی چھان بین بنیادی طور پرادبی نہیں لیکن ادب فہمی اور غالب تنقید میں معاون ضرور ہو سکتی ہے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ
غالب اور میر، یا غالب اور مومن،یا غالب کے کسی اور معاصر یا بزرگ شاعر پر غالب کو ترجیح دینے یا دلانے کے لئے یہ نکتہ بہت کارآمد،بلکہ بنیادی ہو سکتا ہے کہ جدید ذہن اور غالب کے ذہن میں بہت سی ہم آہنگیاں ہیں اور میر،مومن، ذوق، بلکہ خود غالب کے پسندیدہ شعرا مثلاً قائم چاندپوری اور غالب کے ذہن کے درمیان ایسی اور اس حد تک ہم آہنگیاں نہیں مل سکتیں۔
ایسا نہیں ہے کہ غالب پر تنقیدی گفتگو کے لئے اب موضوعات نہیں رہ گئے۔بر ٹرنڈ رسل (Bertrand Russell)نے وٹگنشٹائن کے بارے میں لکھا تھا کہ وٹگنشٹائن نے فلسفہ اس لئے چھوڑ دیا کہ اس کے پاس موضوعات نہیں رہ گئے تھے۔یعنی فلسفے کے جتنے مسائل پر اسے لکھنا مقصود تھا، وہ سب نبڑ چکے تھے۔لہٰذا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھاسوا اس کے کہ فلسفہ ترک کر کے بچوں کے اسکول میں ماسٹر بن جائے۔تو ایسا تو نہیں ہے کہ غالب کے بارے میں بات کرنے کے لئے موضوعات نہیں رہ گئے۔اور کچھ نہیں تو جمال عبد الواجد،شہزاد منظر،اور ان سے بڑھ کر رشید حسن خان کے جو قابل قدر کام غالب کی لفظیات اور فہرست الفاظ کے میدان میں سامنے آئے ہیں، ان کاہی مطالعہ اور ان کا محاکمہ ایسا مضمون ہے جس پر کم سے کم دو سیمینار تو ہو سکتے ہیں۔مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ اور سننے والے بھی کم ملیں گے،لکھنے والوں کا کیا مذکور ہے۔ کیا یہ بات رنج اور افسوس کی نہیں ہے کہ کم سے کم رشید حسن خان کی دو جلدی کتاب ہی پر ہم لوگوں کو دو لفظ لکھنے کی توفیق نہ ہوئی؟
خیر یہ تو لوہے کے چنے ہیں، اب ہم لوگوں میں دانت ہی نہ رہے کہ ہرے چنے بھی چبا سکیں۔ لیکن موازنے کا میدان تو پورا کاپورا خالی ہے اور وہ اتنا کڈھب بھی نہیں۔نام ہی کو سہی، ہم غالب کی فارسی شاعری کے بھی قائل اور مشتاق ہیں۔اور کچھ نہیں تو غالب کی غزل اور سبک ہندی کے بعض شعرا جن کے خودغالب بڑے مداح تھے(عرفی،نظیری،ظہوری)،توان کی غزل اور غالب کی غزل کے موازنے پردو چار مضمون تو ہو ہی سکتے تھے۔ اپنے فارسی قصیدے کے باب میں غالب نے لکھا کہ تشبیب میں تو افتاں و خیزاں عرفی تک پہنچ جاتا ہوں لیکن مدح میں وہ بات نہیں آتی۔ ممکن ہے اس میں غالب کا اشارہ ہو کہ میں مدح کی گوں کا آدمی نہیں۔مدح کو انھوں نے ایک جگہ ’بھٹئی‘سے تعبیر کیا ہے اور یہ تو بار بار لکھا ہے کہ میرے قصیدے میں تم تشبیب کے شعر بیش تر اور مدح کے کم تر پاؤ گے۔ تو یہ بھی ایک پہلو ہے موازنے کا، کہ غالب اور عرفی یا کسی اور کے قصائدکا مطالعہ تشبیب اور مدح کے باب میں کیا جائے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔