غالب اور غالب انسٹیٹیوٹ

یہ تحریر 1992 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

پھر غالب اور میر، غالب اور مومن،غالب اور اقبال،جیسے موضوعات بھی ہیں۔ہمارے یہاں کبھی غالب اور مومن کا موازنہ بھی ہوا تو اس انداز سے،کہ نیازفتح پوری نے لکھا کہ اگرمجھے تمام شعرا کے دیوان سے صرف ایک دیوان منتخب کر نے کو کہا جائے تو میں بے تکلف دیوان مومن اٹھا لوں گا۔ یہ تو نیاز صاحب کی ادائیں ہیں۔مومن کے یہاں مضامین تنگ ہیں اور تنوع سے عاری ہیں۔ان کا کلام تو بس کبھی کبھی چکھ لینے کے لئے ہے۔مومن کے دیوان کے ساتھ ہم ایک دن دو دن سے زیادہ نہیں چل سکتے۔ غالب کے ساتھ آپ پوری عمر گذار سکتے ہیں۔ بلکہ حسرت موہانی نے اپنے سادہ انداز میں بڑی عمدہ بات کہہ دی تھی کہ اردو زبان کے لحاظ سے مومن افضل ہیں اور شاعری کے لحاظ سے غالب۔ اس بظاہر مبہم فقرے میں زبان شناسی کی باریکیاں پوشیدہ ہیں جن پر غور ہو سکتا ہے۔
آج کل تو یہ بات نہیں، لیکن بیسویں صدی کے نصف اول تک مومن کو غالب پرفوقیت دینے والوں کا اگر جم غفیر نہیں تو معتد بہ طبقہ ضرورموجود تھا۔ ان میں معجز سہسوانی ایک ممتاز شخصیت تھے۔انھوں نے موازنہ قسم کی ایک چھوٹی سی کتاب غالب اور مومن پر لکھی تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان لوگوں کے پاس وہ تنقیدی وسائل یا اوزار نہ تھے جن کی مدد سے یہ کام بہتر اور زیادہ وثوق انگیز طور پر انجام دیا سکتا تھا۔پرانی تعلیم کے وہ زوایاان کی نظر سے اوجھل تھے جن کا تعلق شعر کی تفہیم اور تعین قدر سے ہے۔مثلاً مومن کا بجا طور پر مشہور شعر ہے ؎
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس شعر پر غالب کا قول حالی نے عام کیا کہ کاش مومن خان میرا سارا دیوان لے لیتا اور اپنا یہ شعر نجھے دے دیتا۔ ظاہر ہے یہ ایک مستند معاصر کو ایک مستند معاصرکا خراج عقیدت تھا،اسے کوئی تنقیدی رائے نہیں کہہ سکتے۔لیکن معجز صاحب نے اسے سنجیدہ تمنا پر محمول کیا اور لکھا کہ بالآخر غالب کو صبر نہ ہوا اور یہ مضمون انھوں نے مومن سے لے ہی لیا۔انھوں نے اپنے خیال کے ثبوت میں غالب کا شعر نقل کیا ؎
ہے آدمی بجاے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ایمان کی بات یہ ہے کہ دونوں شعر بالکل مختلف مضمون اور مختلف طرز گذاری کے شعر ہیں۔ایک کو دوسرے سے کچھ لینا دینا نہیں، لیکن ایک سطحی سی مشابہت ضرورہے کہ کھینچ کھانچ کر دونوں میں تنہائی کا مضمون ڈھونڈ سکتے ہیں۔تنقید کا یہ طریق کار موازنے کے لئے کار آمد ہو سکتا ہے،نہ معنی کے تجزیے کے لئے،نہ شعر کی تعئین قدر کے لئے۔اور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ معاصرین اور متقدمین کی غزل پر غزل کہنا یا ان کے کسی مضمون کو اپنے طور پر نظم کرنا معیوب نہیں بلکہ مستحسن تھا۔
زمانہئ حال میں جعفر علی خان اثر کو میر کا سب سے بڑا مداح کہا جاسکتا ہے۔اثر صاحب کے خیال میں میر کو غالب پر مکمل ترجیح تھی۔ لیکن اثر صاحب کا بھی طریق کار معجز صاحب سے کچھ مختلف نہ تھا۔مثلاً انھوں نے غالب کا مشہور شعر نقل کیا ؎
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
پھر انھوں نے میر کا شعر لکھا اور کہا یہ مضمون میر نے غالب سے پہلے اور بہترلکھ دیا ہے ؎
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
ایمان کی بات یہ ہے کہ دونوں کے مضمون میں باریک سا فرق ہے اور یہاں عسکری صاحب کی بات یاد آتی ہے کہ میر اپنی شخصیت کو معشوق کے سامنے بالکل غائب کردیتے ہیں اورغالب انا پرست ہیں، وہ اپنے کو لئے دئیے رہتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ غالب کا شعر ہم سب کو یاد تھا اورمیر کا شعربہت کم لوگوں نے پڑھا تھااوریاد تو شاید کسی نے نہ رکھا تھا۔لہٰذا جب غالب کے بعد میر کا شعر سامنے آئے تو لطیف اور ذرا تحیر انگیز جھٹکا سا لگتا ہے اور میرکا شعر کچھ سحر سا بن جاتا ہے۔لیکن ان باتوں کا تعلق ذوق اور وجدان سے ہے اور یہ دونوں قوتیں معروضی نہیں، ماحول، مطالعے اور رواج کی پابند ہیں۔اور رواج کا براہ راست رشتہ زبان سے ہے کہ زبان میں کیا زیادہ رائج ہے، کیا کم،اور کیا بالکل نہیں۔اشعار کا تقابل صرف یہ کہہ دینے کا نام نہیں کہ فلاں نے پہلے یوں کہا ہے اوروہ بہتر ہے،یانہیں ہے۔استعارے اور معنی کا تجزیہ نہ کریں تو شعر اور شاعر دونوں کا موازنہ بھر پور طور پر ہو ہی نہیں سکتا۔
غالب اور میر کا موازنہ ایک طرح سے جرأت کا بھی کام ہے۔ ہر طرف غالب کا غلغلہ اس قدر ہے کہ اس کی وجہ سے کچھ داب شاہی کا ساماحول پیدا ہو گیا ہے۔ایسی حالت میں میر یا کسی بھی شاعر کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا جس سے غالب کی ہیٹی کاپہلو نکلتا ہو،بہت مشکل ہے۔ میں نے ’شعر شور انگیز‘کی جلد اول کے دیباچے میں ’خداے سخن، میر کہ غالب؟‘کا عنوان قائم کیا تو مجھے کہنا پڑا کہ غالب کے ہوتے ہوئے میں میر کو خداے سخن نہیں کہہ سکتا۔ اس کے بعد میں نے اصطلاح ’خداے سخن‘کی وضاحت کی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ’خداے سخن‘ کے معنی ’سب سے بڑا شاعر‘ نہیں۔اس کا تعلق کسی شاعر کے یہاں اصناف اور طرز بیان کے تنوع سے ہے نہ کہ اس کے مرتبہئ شعر گوئی سے۔ مجھے اس بات تک پہنچنے میں بیس برس لگے اور بہت سار اخون جگر جلانا پڑا کہ میر کا درجہ غالب سے بلند ہے،یہ الگ بات کہ غالب کی انفرادیت اور عظمت پھر بھی اپنی جگہ قائم اورثابت ہے۔
فراق صاحب نے میر کی صفات کوبیان کرنے کے لئے یہ طریقہ استعمال کیا ہے کہ وہ میرکے چند شعر نقل کر کے فرماتے ہیں:’کیا اردو کے بڑے سے بڑ ے شاعراس خلوص،اس صداقت،اس معصومی،اس انسانی لہجہ اور اس تہ رسی کے ساتھ کوئی شعر کہہ سکتے ہیں؟‘لیکن مشکل یہ ہے کہ فراق صاحب کی بیان کردہ صفات اپنی مرضی اور ذوق کی بنا پرکسی بھی خراب یا اچھے شاعرکے کلام میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔اس سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان صفات میں کوئی اصطلاحاتی قوت نہیں، یہ صرف رائیں ہیں۔مزید یہ کہ میر نے جس شعریات کے تحت شعر کہے تھے اس میں فراق صاحب کی بیان کردہ صفات کا کہیں ذکر نہ تھا۔ان کے بل بوتے پر میر کے شعر کا تجزیہ یا اس کے معنی کا بیان غیر ممکن ہے۔ظاہر ہے کہ اس تنقیدی ساز وسامان کی مدد سے غالب اور میرکا موازنہ شروع بھی نہیں ہو سکتا۔
مختصر یہ کہ غالب اور مومن، غالب اور میر،اس طرح کے موضوعات بھی غالب انسٹیٹیوٹ کے سیمیناروں میں زیر بحث لائے جاتے تو خوب ہوتا۔علیٰ ہٰذالقیاس، معنی آفرینی، مضمون آفرینی، خیال بندی، یہ سب اصطلاحیں کم سے کم ایک ایک سیمینار کا تقاضا کرتی ہیں۔ خیال بندی،یا خیالی شعر کے مضمون پر مصحفی، ناسخ اور ذوق نے بعض بڑے فکر انگیز شعر کہے ہیں۔ مثلاً ؎
سو خیالی بھی ایسا جس کے حضور
گرد ہے میرزا جلال کا شعر٭ مصحفی،چہارم
اس کے عشق کمر میں اے یارو
ہم تو کہنے لگے خیال کا شعر٭مصحفی، چہارم
ہے شعر ہی میں معنی لفظ خیال بند
نزدیک ہے بہت جسے سمجھے ہیں دور ہے٭ ناسخ،اول
نازک ایسی کمر ا س کی کہ سمجھنا مشکل
جس طرح شعر خیالی میں ہوں معنی ادق٭ذوق،قصیدہ
سترہویں اٹھارویں صدی میں سبک ہندی کے فارسی شعرا نے معنی نازک اور معنی نہ بستہ کی اصلاحیں یا مصطلحات بھی برتی ہیں ؎
عشرت ما معنی نازک بدست آوردن است
عید ما نازک خیالاں را ہلال اینست و بس٭صائب
خیال اگر ہوس آہنگ مشق آزادیست
چو بوے گل بہ صبا معنی نہ بستہ نویس٭بیدل
ان اصطلاحوں (اس طرح کی اور بھی ہیں) کو سامنے رکھ کرشاہ نصیر، ناسخ،غالب، ذوق اور اصغر علی خاں نسیم وغیرہ شعرا کے موازنے اور مطالعے پر بہت عمدہ سیمینار ہو سکتا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملات تو بے وقت کی راگنی ہیں۔ہمیں غالب کو زمانہئ حال سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ایسے موضوعات کو لانا چاہیئے جن کا وجود ہی پہلے نہ تھا۔اس بات کے کئی جواب ممکن ہیں۔لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ شاعر نے کیا کہا اور کن اصولوں کی روشنی میں کہا، تو آپ نئی چیزوں کو توڑ مروڑ کرانھیں قول شاعر کے تابع،یا قول شاعر کو ان کا تابع نہیں کر سکتے۔ مثلاً ڈاکٹر سید عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میر نے اپنے والد کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے والد ’کھوئے ہوئے سے رہتے تھے‘اور وہ ’ایک آفتاب تھے جواپنے سائے سے گریزاں تھا۔‘ پھر ڈاکٹر صاحب میر کا شعر سناتے ہیں ؎
تجرید کا فراغ ہے یک دولت عظیم
بھاگے ہے اپنے سائے سے بھی خوشتر آفتاب٭دیوان ششم
اس شعر پر کوئی گفتگو نہیں کی گئی ہے،یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس شعر میں کون سا صوفیانہ، یا فکری اشارہ ہے۔میں پوچھتاہوں بھلا ایسی محنت سے کیا نتیجہ نکل سکتاہے۔اور اگر کوئی صوفیانہ نکتہ ہے بھی تو اس غزل کے مطلعے کو کہاں لے جائیں؟ ؎
منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب
کھاوے گا آفتا بہ کوئی خود سر آفتاب
جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ شعر دیوان ششم کے ہیں۔ دیوان اول میں بھی میر نے آفتابہ اور سورج کا مضمون باندھا ہے ؎
منھ دھوتے وقت اس کے اکثر دکھائی دے ہے
خورشید لے رہا ہے اک روز آفتابہ
(کلیات میں یہ غزل ردیف الف میں درج ہے۔)اسی دیوان اول میں میر کا یہ شعر بھی ہے ؎
لے جھاڑو ٹوکرا ہی آتا ہے صبح ہوتے
جاروب کش مگر ہے خورشید اس کے ہاں کا
غالب کے یہاں اس طرح کے مضمون نہیں ملتے۔لیکن میر کے کلام میں بھی فراغ عظیم اور آفتاب جیسے شعرکے سہارے ہم کوئی نظام فکر نہیں بر آمد کرسکتے اور نہ آفتابہ لینا یا آفتابہ کھاناکی دلچسپ مگر معمولی رعایتوں کی بنا پر،یا پنجہئ خورشید کو جھاڑو سے تعبیر کرنے سے میر کی’فکر‘ یا ان کے ’جذبات‘ پر کچھ بات ہوستی ہے۔اور نہ ہی شعر میں خود شاعر کے سوانح پڑھنا کوئی مستحسن بات ہے۔اب تو مغرب والے بھی اس طریق کار سے بھاگنے لگے ہیں۔
شعر کی بنیاد مضمون پر ہے،باقی سب فروعی اور ضمنی ہے۔اس بات کو سمجھے بغیر میر اور غالب کا موازنہ شروع ہونے کے پہلے ہی ناکام ہوجائے گا۔ خیر،موازنہئ میر و غالب یا موازنہئ غالب و مومن تو محض دو موضوع ہیں جن پر اظہار خیال کی میں تمنا کرتا ہوں کہ غالب انسٹیٹیوٹ میں منعقد ہو۔اقبال اورغالب کی فارسیت اور فارسی تراکیب کا مطالعہ بھی اچھا موضوع ہو سکتا ہے، خاص کر اس پہلو سے کہ انھوں نے فارسیت سے اپنے اپنے طور پر کیا کام لیا ہے۔ضروری بات تو یہ ہے کہ پہلے ہم اپنا گھر درست کرلیں، پھر مغربیوں (یا کسی اور) سے کہیں کہ تشریف لائیے ذرا علمی مذاکرہ ہو جائے۔
بہر حال، غالب انسٹیٹیوٹ کے اکثر سیمیناروں نے یہ فرض تو بخوبی ادا کیا ہے کہ سال بسال، بلکہ کبھی کبھی ایک سے زیادہ بار اردوادب، اور غالب کی محفل گرم رہے اور ہم لوگوں کو،جو زیادہ تر موبائل اور پری پیڈ بل میں مبتلا رہتے ہیں، یہ تو یاد آجائے کہ ہم اردو کے آدمی ہیں۔چہل پہل ہو جاتی ہے۔اپنے وقت کے سب بڑے آدمی، کیا ہندوستانی کیا پاکستانی،ان محفلوں کی گرمی میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔کچھ نہ کچھ ہنگامہئ محفل اور کچھ نہ کچھ معرکہ آرائی تو رہی ہے۔اب جب زمانہ بقول محمد حسین آزادسب ورق پلٹ چکا، جو کچھ ہے قیمتی ہے۔
غالب انسٹیٹیوٹ کے قیمتی کاموں میں اشاعت کتب اور ’غالب نامہ‘کا اجرا اور مسلسل اشاعت ہے۔’غالب نامہ‘ نے تمام اچھے اور ہونہار لوگوں کی پذیرائی کی ہے اور ظاہر ہے کہ قائم شدہ بزرگوں کو پورے احترام اور خلوص دل سے مدعو کیا ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ اس دور پر آشوب میں بھی ’غالب نامہ‘ نے اپنے ادبی اور اشاعتی معیارکو بر قرار رکھا ہے۔اس کے وہ نمبر جن میں سیمیناروں میں پیش کردہ مضامین شائع کئے گئے ہیں،اہمیت رکھتے ہیں۔ ذوق اور داغ پر جو دو شمارے ہیں،میں انھیں خاص اہمیت دیتا ہوں۔ پروفیسر نذیر احمد اور پروفیسر حنیف نقوی مرحومین کی تحریروں پر مبنی کتابیں بھی یاد گار حیثیت رکھیں گی، خاص کر ’برہان قاطع‘ اور ’قاطع برہان‘ پر نذیر صاحب کی دو کتابیں جو انسٹیٹیوٹ نے شائع کی ہیں لغت شناسی، عمومی علمیت اور معروضی انداز بیان کے لئے مثالی نمونہ ہیں۔
غالب انسٹیٹیوٹ کی لائبریری بھی قابل ذکرہے۔یہاں حالیہ مطبوعات، پرانی مطبوعات اور کئی قیمتی مخطوطات کا اچھا ذخیرہ ہے۔کچھ تصویریں بھی ہیں۔اب شاید وسائل کی تنگی کے باعث کتابوں کی تعداد میں اضافہ بھی سست ہوگیا ہے۔ ایک مفصل فہرست تو بہر حال شائع ہونی ہی چاہیئے۔امید کرتا ہوں کہ انسٹیٹیوٹ اس طرف جلد توجہ کرے گا۔یہاں کا چھوٹا موٹا میوزیم بھی دلچسپی کا حامل ہے۔لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، کسی نئی شے کا یہاں کئی سال سے اضافہ نہیں ہوا ہے۔ادھر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ہمیں یا درکھنا چاہیئے کہ غالب کی پیدائش کو اب کم و بیش سوا دو سو برس ہوگئے ہیں اور ان کی دنیا بہت تیزی سے ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو رہی ہے اور بڑی حد تک گم ہو بھی چکی ہے۔ان کے وقتوں کا جو بھی مصنوع یا فن پارہ مل سکے اسے غالب کے میوزیم میں محفوظ کر لینا چاہیئے۔مثلاً غالب کو پنجاب ہریانہ کی رنگین لنگیاں بہت پسند تھیں جنھیں وہ پگڑی کی طرح استعمال کرتے تھے۔ان کے خطوط میں ایسی لنگیوں کے رنگ، حتیٰ کہ ان میں کس طرح کی سرخ لکیریں نہ ہوں،ان کی بھی انھوں نے وضاحت کی ہے۔اب ظاہر ہے وہ لنگیاں تو ممکن نہیں،لیکن ان سے ملتے جلتے کپڑے کا نمونہ مل سکے تو اسے بھی نمائش میں لکا نا چاہیئے۔اس طرح کی روزمرہ استعمال کی بہت سی چیزیں ہیں جن کے پرانے یا نئے نمونے میوزیم میں داخل کئے جائیں تو بہت خوب ہوگا۔
آخر میں یہ ایک بات ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غالب کی تصویر جوانسٹیٹیوٹ کی کتابوں اور دوسرے کاغذات پر شائع کی جاتی رہی ہے،وہ بالکل فرضی ہے۔غالب کی مصدقہ تصاویر انسٹیٹیوٹ میں موجود ہیں۔ان کے ہوتے ہوئے اور ایک فرضی اور بالکل خیالی شبیہ کو مسلسل سامنے لاتے رہنا غالب کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی ہے۔ا نسٹیٹیوٹ سے ہم توقع کرتے ہیں کہ غالب کے بارے میں جو کچھ وہاں سے جاری ہو،وہ معتبر اور متحقق ہو اور جسے حوالے کے لئے ہر جگہ پیش کیا جاسکے۔
دسمبر ۲۰۱۹ شمس الرحمٰن فاروقی