عتیقیت اور تاریخ

یہ تحریر 679 مرتبہ دیکھی گئی

(1)

عتیقیت اور تاریخ٭ آرتیگا۔ ای۔ گاست

آرتیگا ای گاست (۱۸۸۳ء-۱۹۵۵ء) __ہسپانوی انشاء نگار اور فلسفی۔ ہسپانیہ کے دارالحکومت میڈرڈ میں پیدا ہوا۔ ۱۹۰۲ء میں میڈرڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے فوراً بعد اس نے ایک رسالے میں اپنا ایک مقالہ شایع کیا۔ باوجودیکہ اس نے ماربُرگ یونیورسٹی جرمنی میں چند سال فلسفے کی تحصیل میں گزارے اور وہ پچیس برس تک میڈرڈ یونیورسٹی میں مابعد الطبیعیات کا پروفیسر رہا، وہ اپنے تصورات کے اظہار کے لیے مسلسل متعدد غیر معلمانہ وسیلے اختیار کرتا رہا۔ وہ لیما (پیرو) میں بھی فلسفے کا استاد رہا۔ متعدد اور متنوع موضوعات پر اس نے خاصی بڑی تعداد میں مقالات قلم بند کیے اور مخصوص معنوں میں فلسفیانہ نوعیت کی ایک کتاب بھی تصنیف نہ کی۔ اس کی متعدد کتب اصلاً اس کے مقالات کے مجموعے ہیں۔ اس کے ”کوندے دے ییبس“ کی شکاریاتی یادوں کے افتتاحیے میں بہت اہم فلسفیانہ مسالہ ملتا ہے۔ بیسویں صدی کے پہلے بیس پچیس برسوں میں ہسپانوی اور یورپی صورت احوال پر لکھے جانے والے اس کے تجزیے سب سے زیادہ تاثیر کے حامل ہیں مثلاً:

La rebelión de las masas (۳۰-۱۹۲۹ء)

España Invertebrada (۱۹۲۱ء)

اور El tema de nuestro tiempo (۱۹۲۳ء)۔ یہ کتابیں

The Revolt of the Masses (مترجم نامعلوم ۱۹۳۲ء) اور

Invertebrate Spain (مترجم ایم ایڈمز، ۱۹۳۷ء)

The Modern Theme (مترجم جے کلوغ J.Cleugh ۱۹۳۱ء) کے    زیرِ عنوان انگریزی میں ترجمہ کی گئیں۔ ان تمام کتابوں میں اس نے تاریخ کے ارتقا کے ان مختلف اوضاع کو خواہ وہ یورپ سے متعلق ہوں یا ہسپانیہ سے، دریافت کرنے کی کوشش کی جن کی مدد سے جدید صورت احوال کی توضیح یا اس کے عوارض کو طشت ازبام کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ ایک لحاظ سے تاریخی صورت احوال پر نظر ڈالنے کے اس طریق کار کو افراد اور ان کے حالات کے مابین تعلق اور ان حالات میں افراد کے زندگی کرنے کے باب میں گاست کی فلسفیانہ تشویش کی توسیع کہا جا سکتا ہے۔ اس نے پہلے پہل ان افکار کو تفصیل سے اپنی تحریر “Meditations on Quixote” (۱۹۱۴ء) میں ترقی دینا شروع کیا۔ گاست کے افکار مباحث خیز ثابت ہوئے۔ ہسپانیہ کی فکری زندگی میں ان افکار کی خصوصی اہمیت ہے۔ گاست نے ہسپانوی سیاست میں بھی حصہ لیا مگر ۱۹۳۶ء کی خانہ جنگی میں فریقین میں سے کسی سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اس نے جلا وطنی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ گاست اپنے عہد کا نہایت اثر انگیز دانش ور تھا۔ اس کی تحریروں کو بین الاقوامی شہرت ملی۔ اس کی دیگر اہم تحریروں میں:

“Toward a Philosophy of History” (۱۹۴۱ء)

“The Mission of the Univestiy” (۱۹۴۴ء)

“The Dehumanization of Art” (۱۹۴۸ء)

اور “Notes on the Novel” (۱۹۴۸ء) کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اس کی کتاب “The Revolt of the Masses” (اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ”عوام کی بغاوت“ کے نام سے مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد چند برس پہلے شایع کر چکی ہے۔ مترجم کا نام آئی یو جرال ہے۔) کے دو فکر افروز مضامین کے اردو ترجمے مجلہ معاصر لاہور کے پہلے شمارے (۱۹۷۹ء) میں ”اختصاص کا وحشی پن“ اور ماہِ نو کے ستمبر اکتوبر ۱۹۸۰ء کے شمارے میں ”عتیقیت اور تاریخ“ کے زیر عنوان شایع کیے تھے۔ یوں ان دونو ترجمہ شدہ مقالوں کو اردو میں ترجمہ شدہ مذکورہ کتاب پر زمانی تقدم حاصل ہے۔ ان دونو فکر انگیز مقالوں میں گاست نے علاوہ اور باتوں کے عامی آدمی (Mass Man) کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ یہ مذکورہ کتاب کے نویں اور بارھویں مقالے ہیں۔ جن پر نظر ثانی کرلی گئی ہے۔ گاست کے باب میں مندرجہ بالا معلومات کا بڑا حصہ “The Penguin Companion to Literature (European) No.2” اور “Longman Companion to Twentieth Century Literature” سے ماخوذ ہے۔

*****

عتیقیت اور تاریخ

فطرت ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ اپنی مدد آپ کرتی ہے۔ فطرت کے جنگلوں میں ہم سزا کے خوف سے بے نیاز ہو کر وحشی بنے رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اسی حالت میں رہیں __ آیندہ کے کسی خدشے یا خطرے کے بغیر سوائے غیر وحشی اقوام کے ظہور میں آجانے کے __ لیکن اصولاً ایسی اقوام کا قائم رکھنا ممکن ہے جو مستقلاً وحشی ہوں __ بریسگ (Breyssig) نے ایسے لوگوں کو ”اربابِ فجرِ نامختتم“ کہا ہے۔ ایسی اقوام جو ایک جامد اور ٹھس صبح میں سانس لے رہی ہیں __ ایسی صبح جو دوپہر کی طرف پیش قدمی نہیں کرتی۔

فطرتِ محض کی دنیا میں یہی کچھ ہوتا ہے لیکن دنیاے تمدن میں ایسا وقوعہ نہیں ہوتا____ دنیائے تمدن جو ہماری ہے۔ ایسی دنیا میں تمدن ڈھلا ڈھلایا نہیں ملتا۔ تمدن اپنی ذاتی مدد کے تحت وجود میں نہیں آتا۔ یہ مصنوعیت کا مرہون ہوتا ہے۔ اس کے لیے فنکار یا معمار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ تمدن کی برکات سے فیض یاب ہونا چاہتے ہیں لیکن تمدن کے تسلسل کے مسئلے سے دوچار ہونے کو تیار نہیں تو سمجھ لیں کہ آپ کی قضا آگئی۔ ایک ہی لمحے میں آپ خود کو تمدن سے محروم یکہ و تنہا پاتے ہیں:

یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور ُشد

اور پھر قدیم جنگل اپنی اصلی صورت میں ہمارے سامنے آ موجود ہوتا ہے۔ جیسے فطرتِ محض پر پڑے ہوئے پردے کھینچ دیے گئے ہوں۔ جنگل ہمیشہ سے قدیم ہے اور قولِ محال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہر قدیم شے محض جنگل ہوتی ہے۔

ہر عہد کے رومانیت پسند اصولی خلاف ورزی کے ان مناظر سے ہمیشہ لطف لیتے پائے گئے ہیں۔ انسان سے فروتر فطری قوتیں اور مخلوقات سفید عورتوں پر اچانک حملے کرتی ہیں۔ چناں چہ ان رومانیوں نے لیڈا اور ہنس، پاسیفی اور بیل اور انٹی اوپ اور بکرے کی تصویر کشی کی ہے۔ اگر اس تصویر کو عمومی رنگ دیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کسی تباہ شدہ کھنڈروں کے منظر نامے میں انھوں نے ایک ایسا غیر مناسب منظر دریافت کیا ہے جس میں ایک متمدن جیومیٹرائی پتھر جھاڑ جھنکاڑ کی بوجھل چادر کے نیچے پڑا دم توڑ رہا ہے۔ جب بھی تمھارے رومانوی ذاتِ شریف کی نظر کسی عمارت پر پڑتی ہے تو اس کے ڈھیلے جس پیلی شے کی تلاش میں گھومتے نظر آتے ہیں وہ ہے لمبی پیلی پوہلی جسے وہ چھت اور کارنس پر تلاش کرتا ہے اور یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ انجام کار ہر شے کو دھرتی بننا ہے ___ اس بات کا اعلان کہ جنگل ہر جگہ از سرنو اپنا ظہور کر رہا ہے۔ اس رومانوی پر ہنسنا حماقت ہے، رومانوی بھی اپنی جگہ غلط نہیں۔ اصل میں ان بظاہر معصوم مگر نامعقول تمثالوں کے بطون میں ایک بڑا دائمی مسئلہ کروٹیں لے رہا ہے۔ تمدن اور فطرت کے مابین یا یوں کہیے کہ معقول (ریشنل) اور ماحول (کاسموس) کے درمیان تعلقات کا مسئلہ۔ میں اس مسئلے سے نپٹنے کا حق کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتا ہوں اور کسی مناسب وقت پر خود رومانوی بننے کا مسئلہ بھی!

سرِ دست تو میں ایک الگ کام میں جتا ہوا ہوں __ میرا اس وقت کا مسئلہ یہ ہے کہ مسلسل حملہ آور جنگل کی مزاحمت کر سکوں۔ فی الحال ہمارے ”اچھے یورپی بھائی“ کو اس قسم کے مسئلے سے نپٹنے کے لیے خود کو وقف کرنا ہوگا جس قسم کے مسئلے نے آسٹریلوی ریاستوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی تھی۔ تشویش اس بات پر تھی کہ پریکلی پیئر Prickly Pear جیسی بے کار ”کیکٹس نما“ بوٹی کو سطحِ زمین پر تیزی سے پھیلنے سے اور نتیجۃً انسانوں کو سمندر میں دھکیل دینے کے خطرے سے کس طرح روکا جائے۔ شاید ۰۴۸۱ء کا زمانہ تھا جب بحیرہئ روم کا ایک مہاجر ____ جسے سسلی، شاید ملاگا(۱) کے اپنے مقامی منظر نامے کی یاد بے حد تڑپاتی تھی، اپنے ساتھ آسٹریلیا میں اسی بے ہودہ پریکلی پیئر کا ایک گملا لے گیا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ آسٹریلوی قومی بجٹ اسی  پریکلی پیئر کے خلاف جنگ کرتے کرتے بھاری بوجھ تلے دب گیا ہے جو اس براعظم پر حملہ آور ہو چکی ہے، اور یوں ہر سال ایک مربع کلو میٹر پر پھیلتی چلی جا رہی ہے۔

ازدحامی آدمی (Mass Man) کو اس بات کا مکمل یقین ہے کہ جس تہذیب کے آغوش میں وہ پیدا ہوا اور جس سے وہ فیض یاب ہو رہا ہے وہ اسی طرح برجستہ اور بخود مظہر ہے جیسے فطرت۔ چناں چہ اس کی ُجون ایک قدیم جنگلی آدمی سے بدل گئی ہے۔ اب اس کے نزدیک تمدن جنگل ہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ اب میں اسے ذرا تفصیل سے بیان کرتا ہوں۔

وہ اصول جن پر متمدن دنیا کی بنیاد ہے۔ (متمدن دنیا جسے بہرحال قائم رکھنا ضروری ہے) ان کا آج کے متوسط آدمی کے نزدیک کوئی وجود ہی نہیں۔ اسے بنیادی ثقافتی اقدار سے کوئی دلچسپی نہیں __ ان سے کوئی وابستگی نہیں اور وہ ان اقدار کی خدمت کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ یہ سانحہ کیسے رونما ہوا؟ اس کے کئی وجوہ ہیں لیکن سردست میں ایک ہی وجہ پر زور دوں گا۔ قصہ یہ ہے کہ تمدن جوں جوں پیشت رفت کرتا جاتا ہے، پیچیدہ اور نازک تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ آج اس تمدن نے ہمارے سامنے جو مسائل رکھے ہیں وہ بے حد گنجلک ہیں اور وہ اذہان جو ان مسائل کے شافی حل پیش کر سکتے ہیں، روز بروز تعداد میں کم سے کم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جنگِ عظیم سے مابعد کا زمانہ اس صورتِ حال کی ایک واضح مثال پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں یورپ کی تعمیرِ نو کا مسئلہ قریب قریب الجبریائی نوعیت کا ہے اور ایک عام یورپی خود کو اس اہم مسئلے کے مقابلے میں فروتر ثابت کر رہا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ وسائل مسائل کے مقابلے میں کم ہیں، کمی تو دماغوں کی ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ دماغ تو چند ایک ہیں لیکن وسطی یورپ کا عوامی ازدحام انھیں اپنے کندھوں پر رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

مسائل کی بے حد پیچیدگی اور نزاکت اور ان کو حل کرنے والے اذہان کے مابین  عدمِ تناسب اس وقت تک بڑھتا چلا جائے گا جب تک اس کا کوئی علاج تلاش نہ کر لیا جائے اور یہیں سے ہمارے تمدن کے المیے کا آغاز ہوتا ہے۔ اپنے اصولِ موضوعہ کی زرخیزی اور صلابت کے سبب سے اس تمدن کی پیداوار اپنی کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے ایک عام آدمی کی اخذ وجذب کرنے والی قوتوں سے آگے نکل گئی ہے۔ میرا خیال ہے ماضی میں کہیں ایسا حادثہ نہیں ہوا۔ ماقبل کی تمام تہذیبیں اپنے اصولوں کے ناکافی ہونے کے سبب سے موت سے ہم کنار ہوگئیں مگر یورپ کی موجودہ تہذیب کے رفتہ رفتہ موت سے قریب تر ہوتے جانے کا سبب قطعی الگ ہے۔ یونان اور روم میں شکست انسان نے نہیں بلکہ اصولوں نے کھائی۔ رومی سلطنت کا زوال عدم تکنیکیت کے سبب ہوا۔ جب یہاں آبادی کا تناسب بہت بڑھ گیا اور یہاں کے باسیوں نے اپنے بعض مادی مسائل کو حل کرنے کا مطالبہ کیا جو صرف تکنیکی مہارتوں ہی کے باعث ممکن تھا تو قدیم دنیا کی بساط لپٹنے لگی اور وہ رجعت اور زوال کا شکار ہونے لگی۔

مگر آج کا انسان ناکام ہو چکا ہے کیوں کہ وہ اپنی ہی تہذیب کی تیز رفتاری کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔ اور تو اور مناسب حد تک متمدن آدمیوں کو بھی آج کے نہایت بنیادی قسم کے مسائل پر پریشان ہوتے دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے۔ ان کی مثال ان اَن گھڑ مزارعین کی سی ہے جو اپنی موٹی اور بھدّی انگلیوں کے ساتھ میز پر سے سوئی اٹھانے کی کوششِ ناکام کر رہے ہوں۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ سیاسی اور سماجی مسائل کو بھی فکر کے ایسے ہی دور ازکار آلات سے سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جو دو سو سال پہلے کے ایسے مسائل کے سلجھانے کے لیے وضع کیے گئے تھے جو آج کے مسائل کے مقابلے میں دو سو گنا کم پیچیدہ تھے۔

ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، کٹھور مسئلوں ہی کا دوسرا نام ہے۔ پس یہ سمجھ لیا جائے کہ جوں جوں ترقی زیادہ ہوتی جائے گی۔ اتنے ہی زیادہ خطرات اس کا مقدر بنتے جائیں گے۔ زندگی تدریجاً بہتر ہوتی جا رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ بدیہی طور پر پہلے سے زیادہ پیچیدہ بھی۔ یہ طے ہے کہ جوں جوں مسائل زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں انھیں حل کرنے کے وسائل بھی مکمل تر ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہر نئی نسل کا فرض ہے کہ ان مکمل تر وسائل پر عبور حاصل کرے مثلاً ان وسائل میں ایک وسیلہ جو تہذیب کے ارتقا کا بڑا واضح ضامن ہے وہ ہے تہذیب کی پشت پر ماضی کے ایک کثیر حصے کی موجودگی__ ایک معتدبہٖ تجربہ اور جسے ایک لفظ میں کہنا چاہیں تو اس کا نام ہے تاریخ۔ تاریخی علم ہی وہ اعلیٰ تکنیک ہے جس کے بل پر ایک پہلے سے ارتقا یافتہ تہذیب محفوظ بھی رہ سکتی ہے اور اپنا سفر بھی جاری رکھ سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تکنیک جدید صورتِ احوال سے نپٹنے کے لیے مثبت حل پیش کرتی ہے۔ یہ اس لیے کہ زندگی پہلے سے ہمیشہ مختلف رہی ہے۔ ہاں یہ تکنیک ہمیں ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں کے دوبارہ مرتکب ہونے سے باز رکھتی ہے لیکن اگر بوڑھا ہو جانے اور نتیجۃً زندگی کو بوجھ سمجھنے کے ساتھ ہی ساتھ آپ اپنا حافظہ بھی کھو بیٹھیں اور ماضی کے تجربات سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں تو اس کا مطلب ہوا کہ ہر پہلو سے گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اس وقت یورپ کی صورتِ حال ایسی ہے۔ آج کے بے حد مہذب افراد بھی تاریخ سے ناقابلِ یقین حد تک نابلد ہیں __ میرا دعویٰ ہے کہ آج کا یورپی لیڈر اپنے اٹھارویں بلکہ سترھویں صدی کے ہمزاد سیاستدانوں سے تاریخ کے معاملے میں کہیں کم آگاہ ہے۔ حکمران اقلیتوں کا (یہاں حکمران زیادہ عمومی معنوں میں آیا ہے) تاریخی شعور ہی  انیسویں صدی کی حیرت انگیز ترقی کا باعث ہوا __ اٹھارویں صدی میں ان کی پالیسی پر غور و فکر کیا گیا۔ تاکہ سابقہ سیاسیات کی کوتاہیوں سے بچا جائے__ ان کوتاہیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس پالیسی پہ سوچ بچار کی گئی اور اس کے نظام نامے میں تجربے کی تمام جہات کا احاطہ کیا گیا تھا لیکن انیسویں صدی آغاز ہی میں اپنی تاریخی ثقافت سے بے بہرہ ہونے لگی۔ اگرچہ اس صدی میں متخصّصین نے اسے بحیثیت ایک سائنس کے کافی ترقی دی۔(۲) اسی صرفِ نظر کے باعث ان مخصوص کوتاہیوں اور غلطیوں نے جنم لیا جو ہمیں آج پریشان کر رہی ہیں۔ اسی انیسویں صدی کی آخری تہائی میں ایک غیر محسوس انداز میں اس وحشی پن کی طرف مراجعت ہوئی __ انسان کے اس پھوہڑ پن اور قدامت کی طرف، جس کا یا کوئی ماضی نہیں یا وہ اسے بھول چکا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


٭ Primitivism and History (Ortega y-Gasset)