مغربی دنیا کے چیلنج اور عالمِ اسلام

یہ تحریر 835 مرتبہ دیکھی گئی

مغربی دنیا کے چیلنج اور عالمِ اسلام٭

سید حسین نصر

سید حسین نصر (۱۹۳۳ء) ممتاز اطبا اور علماء کے خاندان میں بمقام تہران پیدا ہوئے۔ ان کے دادا احمد، عنفوانِ شباب میں تحصیل علوم طب کے لیے تہران آگئے تھے۔ جلد ہی وہ ایک ممتاز طبیب کی حیثیت سے اتنے معروف ہوگئے کہ   شاہِ ایران نے انھیں ”نصر الاطبا“ کا خطاب دیا۔ اسی خطاب کے باعث ”نصر“ خاندان کے ناموں کا جزو لازم قرار پایا۔ سید حسین نصر کے والد ٹیچرز کالج کے ریکٹر اور تہران یونیورسٹی کے متعدد کلیات کے ڈین رہے۔ حسین نصر اسی علمی اور فکری ماحول میں پروان چڑھے۔ فارسی ادب اور مذہب کی کلاسیکی تعلیم ان کے تعلیمی نصابات کا جزو اعظم تھی۔

نصر نے ۱۹۵۸ء میں ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے سائنس اور فلسفے کی تاریخ اور اسلامی سائنس کے خصوصی مطالعے کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔ وہ اسی دانش گاہ سے ۱۹۵۶ء میں جیالوجی اور جیو فزکس میں ایم ایس کر چکے تھے۔ اس سے قبل انھوں نے امریکہ کے نہایت ممتاز ادارے MIT میں داخلہ لیا۔ امریکہ میں اپنی تحصیل علمی کے دوران انھوں نے مغربی فلسفے کے اہم کلاسیکی نمایندوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ وہ ڈیکارٹ سے اے این وائٹ ہیڈ تک کی تمام فتوحات علمی سے گزرے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ برعظیم پاک و ہند کی فکریات کی طرف بھی ان کا میلان بڑھا۔ اسی زمانے میں انھیں گینوں، شوآں اور ٹیٹس بُرکہارٹ کے علمی کارناموں سے واقفیت ہوئی اور یوں ان کا عمر بھر کا اٹوٹ رشتہ روایتی فکریات سے جڑ گیا۔ ۱۹۵۸ء میں ہارورڈ سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد نصر ایران واپس آئے اور تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لیٹرز سے فلسفے اور تاریخِ سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ایران واپس آ کر نصر نے سوسن دانشوری سے، جن کے خاندان کے خاندانِ نصر کے ساتھ دیرینہ مراسم تھے، شادی کی۔ ۱۹۵۸ء سے ایران کے انقلاب ۱۹۷۹ء تک نصر تہران یونیورسٹی کی مذکورہ فیکلٹی سے بطور پروفیسر وابستہ رہے۔ وسیع علمی اور فکری تگ و تاز کے نتیجے میں اس زمانے میں نصر کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ دنیا صرف ایران یا مغرب کا نام نہیں۔ چناں چہ انھوں نے ایران کے مشرق میں واقع سرزمینوں کے فلسفیانہ افکار کے تعارف و ترویج کے لیے بھی بڑی جدوجہد کا آغاز کیا۔ فیکلٹی میں سنسکرت کی تدریس کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں جب دار یوش شایگاں نے شعبے سے وابستگی اختیار کی تو یہاں ہندی فلسفے کی تدریس بھی شروع کر دی گئی۔ نصر کے بہترین طالب علموں میں رضا داوری، حداد عادل، نصراللہ پو رجوادی اور محسن جہانگیری کے نام معروف ہیں۔

سید حسین نصر نے اُس زمانے میں تہذیبوں کے مابین مکالمے کی ضرورت کا احساس دلایا جب ابھی اس مکالمے نے فیشن کا درجہ اختیار نہیں کیا تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ایران کے مذہبی رہنما ڈاکٹر علی شریعتی کے ساتھ جو اصلاً انقلابی اسلام کے علمبردار تھے، فلسفیانہ مباحث کا آغاز کیا مگر کچھ عرصے بعد انھوں نے شریعتی سے قطعِ تعلق کر لیا۔

سید حسین نصر نے اسلامی فلسفہ، سائنس، تصوف، حکمتِ خالدہ، جدیدیت  پر جرح و نقد، فلسفہ اور ادیان کا تقابلی مطالعہ جیسے موضوعات پر عمدہ اور فکر افروز کتابیں اور مقالات تحریر کیے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے انھوں نے اسلامی کونیات پر جو مقالہ تحریر کیا تھا اسے بعد ازاں ۱۹۶۳ء میں فارسی میں ”نظرِ متفکرانِ اسلامی دربارہئ طبیعت“ کے زیرِ عنوان شایع کیا۔

سید حسین نصر نے اس زمانے میں انگریزی زبان میں بھی متعدد کتب تصنیف کیں جن میں “Science & Civilization in Islam”, “Three Muslim Sages” اور “Islamic Science __ An Illustrated Study” نے بڑی شہرت پائی۔ ان تینوں کتابوں کو احمد آرام جیسے ممتاز مترجم نے فارسی میں ترجمہ کر کے شایع کیا۔ ان کتابوں میں اول الذکر اردو میں ”تین مسلمان فیلسوف“ کے زیر عنوان ترجمہ ہو چکی ہے۔ یہ ترجمہ ممتاز اقبال شناس مرزا محمد منور نے کیا تھا۔

اسی زمانے میں حسین نصر نے نامور ایرانی فلسفی مُلّا صدرا کے افکار کا گہرا مطالعہ کیا اور بعد ازاں ان پر بہت کچھ لکھا۔ حسین نصر پہلے آدمی ہیں جنھوں نے انگریزی بولنے والی اقوام میں مُلّا صدرا کو متعارف کیا۔ وہ ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۲ء، تہران یونیورسٹی کے ڈین اور اکیڈمک وائس چانسلر بھی رہے۔

سید حسین نصر کا ایک امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے عبداللہ نسیف (صدر شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ) اور سابق مشرقی پاکستان کے ممتاز دانش ور سید علی اشرف کے اشتراک سے مسلم تعلیم کے موضوع پر مکہ میں ۱۹۷۷ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں ملائشیا سے نائیجیریا تک متعدد اسلامی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ اسی کانفرنس کے نتیجے میں علم کی اسلامی اصولوں پر استواری ___ Islamization of Knowldege کا تصور سامنے آیا جسے اسماعیل الراجی الفاروقی نے مزید آگے بڑھایا۔ یہ تصور آج مسلم دنیا کی فکریات میں مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

سید حسین نصر نے جن ممتاز علما اور دانش وروں سے بہ طور خاص فیض حاصل کیا ان میں سید محمد کاظم عصّار، ہادی حائری، سید ابوالحسن قزوینی اور سید محمد حسین طباطبائی کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ موخر الذکر شخصیت یعنی طباطبائی نے کئی برس فرانسیسی دانشور ہنری کوربیں کے ساتھ فکری مکالمے میں گزارے۔ اس مکالمے میں نصر مترجم کے فرائض انجام دیتے تھے۔

سرزمینِ ایران سے باہر سید حسین نصر کا سب سے اہم فلسفیانہ رابطہ پاکستان سے رہا جہاں وہ اپنے بیس سالہ قیام ایران کے دوران کم و بیش بیس بار آئے اور یہاں کے دانش وروں مثلاً اے کے بروہی، اشتیاق حسین قریشی اور سی اے قادر وغیرہ سے ان کے رابطے رہے۔

سید حسین نصر نے ۱۹۷۵ء میں ہسپانیہ کی قومی یونیورسٹی میڈرڈ میں بین الثقافتی امور پر لیکچر دیے اور ہسپانیہ کے مسلم عہد کو تاریخ کا بے نظیر عہد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ وقت تھا جب تین ابراہیمی مذاہب نے دوش بدوش رہ کر ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا تھا جسے انسانی تاریخ میں بے مثال کہا جا سکتا ہے ___ ایک ایسا عہد جو روحانیت، فنون، علوم اور فلسفہ سب میں حد درجہ باثروت تھا۔ سید حسین نصر کا قول ہے کہ یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس نے ہسپانیہ خصوصاً جنوبی ہسپانیہ سے میرے ذہنی رابطے کو متعین اور مستحکم کیا ہے۔ نصر نے اگرچہ ہسپانیہ میں لیکچر بھی دیے مگر اس خاکِ خواب میں ان کے اسفار، علمی اور فکری سے زیادہ روحانی امور و فنون سے مربوط تھے۔ اسی دوران نصر نے ہسپانوی موضوعات پر نظمیں لکھیں جو “Poems of the Way” کے زیر عنوان شایع ہو چکی ہیں۔

جنوری ۱۹۷۹ء میں سید حسین نصر نے دو ہفتے کے لیے ملک سے باہر جانے کا ارادہ کیا مگر اسی دوران میں امام خمینی ایران میں انقلاب لے آئے جس کے نتیجے میں نصر کو یورپ رک جانا پڑا۔ چوں کہ نصر کے شاہ کی حکومت سے گہرے تعلقات تھے لہٰذا نئی صورتِ حال سے سمجھوتا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ چناں چہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے نصر بالآخر امریکہ میں مقیم ہوگئے اور اب تک وہیں ہیں۔ ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۴ء تک وہ امریکہ کی ٹمپل یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کے فل پروفیسر رہے اور ۱۹۸۴ء سے تادم تحریر وہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں علومِ اسلامیہ کے یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔

سید حسین نصر کی شخصیت تعلیمی اور ثقافتی اُمور کے حوالے سے بصیرت اور تجربے کی حامل ہے۔ وہ مختلف اوقات میں متعدد عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۷۶ء میں انھوں نے لندن سائنس میوزیم میں مسلم سائنس کی نمائش کا اہتمام کیا۔ وہ امپریل اکیڈمی آف فلاسفی ایران کے بانی صدر تھے۔ ۷۱-۱۹۷۰ء میں وہ تہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور ۷۵-۱۹۷۲ء میں آریا مہر یونیورسٹی کے صدر (چانسلر)۔ ۱۹۹۹ میں وہ روس میں عالمی مکالمے کے مرکز کے رکن بنے۔

سید حسین نصر کی زندگی بے حد ہنگامہ خیز گزری ہے۔ وہ اقبال کے مصرعے: طلبم نہایتے آں کہ نہایتے ندارد کی زندہ تصویر کہے جا سکتے ہیں۔ وہ متعدد ملکی اور بین الاقوامی مذاکروں اور کانفرنسوں میں شریک رہے۔ انھوں نے مسلم دنیا، مغربی یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ، ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا میں اسلام، فلسفہ، تقابلِ ادیان اور ماحولیاتی بحران پر کثرت سے لیکچر دیے اور مقالات پڑھے۔ یہی ان کی فکریات کے مرکزی موضوعات ہیں اور ان موضوعات پر وہ تیس سے زاید کتابیں اور دو سو سے زاید مضامین و مقالات شایع کر چکے ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر انگریزی اور فارسی میں اور گاہے گاہے فرانسیسی اور عربی میں بھی لکھا۔ ان کے متعدد مقالات اور کتب کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔

سید حسین نصر نے اپنی خودنوشت میں، جسے انھوں نے “Intellectual Autobiography” سے تعبیر کیا ہے لکھا ہے:

”میری زندگی دراصل ایک ایسے سانچے میں ڈھل گئی ہے جس میں علم (ظاہری و باطنی)، فکری موضوعات پر تقاریر، تحریریں، اور وہ وقت جو میں باطنی روحانی زندگی اور تفکر میں صرف کرتا ہوں، ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ فطرت کے بے آمیز شباب اور  فنونِ مقدسہ سے میری محبت، جس میں موسیقی اور شاعری بھی شامل ہیں، اب تک اسی شدت سے میرا احاطہ کیے ہوئے ہے کیوں کہ  میں افلاطونی مفہوم کے مصداق ایک ایسی فلسفیانہ دنیا کا باسی ہوں جس کا گہرا تعلق ایک طرف تدبر، باطنی تہذیب، اندرون بینی اور حقایقِ علویہ سے ہے اور دوسری طرف اتنی ہی بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ نہایت متحرک فکری اور علمی زندگی سے قائم ہے۔ میری مرکزی دعا وہی ہے جو روایتی اسلامی دعا ہے: رب زدنی علما، اور یہ دعا اُس علم کی تلاش کے لیے ہے جو اس عالم ناسوت کی جکڑ بندیوں اور بندھنوں سے ہمیں رہائی دیتا ہے۔

سالہا دل طلبِ جام جم از ما می کرد

آنچہ خود داشت ز بیگانہ تمنا می کرد

پیشِ نظر مقالہ “The Westren World & It’s Challenges to Islam” سید حسین نصر کی مشہور کتاب “Islam & the Plight of Modern Man” کے آخری اور ایک اعتبار سے اہم ترین باب کا ترجمہ ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف نے مذکورہ کتاب کے مباحث کو نہ صرف خوبی سے سمیٹ لیا ہے بلکہ فکری سطح پر عالم اسلام کو مغرب کی جانب سے درپیش مسائل و خطرات سے نمٹنے کے  لیے اسلام کی فکری میراث کی روشنی میں، رہنما اصول فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

سید حسین نصر کے باب میں مندرجہ بالا معلومات زیادہ تر ان کے سوانحی خاکے اور ان کی فکریات پر لکھی گئی ضخیم کتاب “The Philosophy of Syed H. Nasr” (۲۰۰۱ء طبع امریکہ) سے ماخوذ ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔

* WESTERN WORLD & ITS CHALLENGES TO ISLAM