روایت کا ایک ترجمان: رینے گینوں

یہ تحریر 681 مرتبہ دیکھی گئی

(۴)

چوں کہ جدید سرگرمیاں اس مقصد تک ہماری خفیف ترین رہنمائی بھی نہیں کرتیں، اسی وجہ سے گینوں جدید دنیا کی مذمت میں اتنا تلخ لہجہ اختیار کرتا ہے اور چوں کہ ایک روایتی معاشرے میں ہر شے، اگر وہ عملاً ہمیشہ نہ بھی ہو تو کم از کم نظریے کی حد تک ایک مافوق الفطرت مقصد کے حصول کے لیے (اور ایک فطری مقصد تک بھی) منظم ہوتی ہے، اسی لیے وہ روایت ہی کو ایک ایسا قالب تصور کرتا ہے جس کے ذریعے حیات انسانی آفاقی نظام میں اپنے مقصد کو پورا کر سکتی ہے۔ ہماری سرگرمیوں کی بے ثمری کی ایک مثال کے طور پر وہ تحقیق و تفتیش کے جنون کا حوالہ دیتا ہے جو اس فکر سے بے نیاز ہوتی ہے کہ اسے انجام کار کسی حد تک بھی پہنچنا ہے اور جو فی ذاتہٖ ایک مقصد سمجھ لی گئی ہے۔ انا جیل کی اس نصیحت کو کہ ”تلاش کرو اور تم پالو گے“ نذر نسیان کرتے ہوئے جدید مغربی صرف تلاش کی خاطر تلاش میں جتا ہوا ہے۔ وہ کسی بھی حتمی اور حقیقی شے کو پا لینے سے خائف نظر آتا ہے کیوں کہ وہ کسی مطلق حتمیتکو ”موت“ سے تعبیر کرتا ہے اور بے مقصد بے چینی کو زندگی کے نام سے تعبیر کرتا ہے۔ تحقیق کا یہی غیر صحت مند ذوق، یہی حقیقی، ذہنی سیماب فطرتی، گینوں کے نزدیک اپنی نمایاں ترین صورت میں خود کو جدید فلسفے کی صورت میں ظاہر کرتی ہے۔

وہ قدیم یونانیوں کو اور اس شے کو جسے وہ ”کلاسیکی تعصب“ کا نام دیتا ہے، جدید دور کی بہت سی بنیادی خامیوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ”کم و بیش یہی نظر آتا ہے کہ جب یونانیوں پر تاریخ کے منظر نامے سے غائب ہونے کی گھڑی آئی تو انھوں نے اپنی نارسائیوں کا انتقام لینے کے لیے نوعِ انسانی کے پورے منطقے پر اپنے ذہنی افق کی تحدیدات کو چپک دینا چاہا۔“ وہ ان پر یہ الزام بھی دھرتا ہے کہ انھوں نے سچے عقلی زاویہئ نظر کے متبادل کے طور پر فکری نقطۂ نگاہ اور مابعدالطبیعیات کی جگہ سائنس اور فلسفہ پیش کر ڈالا۔ وہ بتاتا ہے کہ ان کے تمدن میں ایک فراموش شدہ اور قدیم روایت سے ورثے میں ملنے والے شعائر اور علائم اپنے صحیح معانی تیزی سے کھو بیٹھے اور پھر اس نمایاں طور پر فنکار قوم کے تخیل نے اپنے شعراء کے انفرادی تصورات کے ذریعے آزادانہ اظہار کرتے ہوئے ان علائم کو ناقابلِ نفوذ پردے میں ڈھانپ لیا۔ حتیٰ کہ قدیم مابعدالطبیعیاتی اساطیر زوال پذیر ہو کر محض تماثیل Allegories بن کر رہ گئیں۔

دنیاے جدید حقیقی علم کے امکان کے انکار میں قدیم یونانیوں سے بھی کہیں آگے نکل گئی ہے __ حقیقی علم جو انفرادی ذہنیت کی تنگناسے ماوراء ہوتا ہے۔ ”عقلی اضمحلال کو ایک ایسے سدراہ میں تبدیل کر دینا جسے کوئی عبور نہ کر سکے، ایک ایسی حرکت ہے جس کی مثال نہ اس سے پہلے دیکھی گئی نہ سنی گئی۔“ اور لا ادریت جہالت کے بہروپ میں، اعتراف ایمان کے طور پر خود کو ظاہر کرتی ہے، کم از کم اس شکل میں جس میں ہم اسے جانتے ہیں خصوصاً ایک جدید وقوعہ ہے۔ لاادری اور متشککین اپنی جہالت کا اعتراف صرف اس ”شرط پر کرتے ہیں کہ کسی شخص کو بھی اس شے کے علم کا کوئی حق حاصل نہیں جسے وہ خود نہیں جانتے“ اور مساوات اور یکسانیت کی خواہش نے، مع ہر اس شے سے حاسدانہ نفرت کے جس سے ”رعایت“ کی بُو آتی ہو، جدید تشکیک کو ایک مخصوص کینہ پرور دھار مہیا کی ہے۔

اب یہ حقائق کہ جہلاء علم کی تذمیم کرنے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں اور بے ایمان لوگ ایمان پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں، اس امر کو بدیہی طور پر واضح کر رہے ہیں کہ ہمارا جدید تمدن، خواہ وہ فلسفے کے دائرہ کار میں ہو، خواہ سیاست، فن یا سائنس کے دوائر میں، ایسا تمدن ہے جو بے اصولا ہے۔ گینوں کے نزدیک یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زندہ مخلوق کا سرکاٹ کر اس کو بدستور سخت اور غیر منظم زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جائے۔ سچی اور خالص عقلیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہر مخصوص اور ثانوی شعبہئ کار کو ایک آزاد خود مختار حیثیت میں دیکھا جانے لگا ہے۔ ایک شعبہ دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے لگا ہے اور یوں ہر شے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو کر بے چہرہ ہوگئی ہے۔ فطری تعلقات اتھل پتھل ہو گئے ہیں اور جس شے کو ماتحت ہونا چاہیے تھا وہ سماجی اور ذہنی طور پر اپنے خود مختار ہونے کا اعلان کرتی پھرتی ہے۔ تمام نظام مراتب کو اس آسیب کے نام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے جسے مساوات کہاجاتا ہے اور چوں کہ مساوات بہرحال عملاً ناممکن ہے اس لیے جھوٹے مراتب وضع کر لیے گئے ہیں جن میں کسی بھی شے کو، خواہ وہ سائنس ہو یا صنعت، اخلاقیات ہو یا سیاسیات یا مالیات یا خواہ وہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، اس ایک شے کی غیر موجودگی میں جسے بہرحال سیادت اختیار کرنی چاہیے اور وہ کر سکتی ہے، ایک مرتبہ پھر سچے اصولوں کے عنقا ہو جانے کی وجہ سے ارفع ترین منصب عطا کر دیا گیا ہے۔

رہا یہ خیال کہ واقعات یا حسی مظاہر کے مطالعے سے اصول مرتب کیے جا سکتے ہیں یا یہ کہ انھیں استدلالی قوت کے زور پر جنم دیا جاسکتا ہے، گینوں کے نزدیک ایک عبرت ناک مغالطے کے سوا کچھ نہیں۔ ترکیب و امتزاج Synthesis کبھی بھی عقل کی پیداوار نہیں ہوتے اور ایک درجے کے حقائق کی جمع آوری اس سے الگ درجے کے حقائق کے علم تک ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ جدید سائنس کے نام نہاد امتزاجات خالصتاً مفروضاتی ہیں جب کہ ایک سچی ترکیب و تالیف چوں کہ اپنا آغاز وجدانی طور پر معلومہ اصولوں سے کرتی ہے اس لیے یہ ان کے یقین سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ سائنس کبھی یقین تک ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی اور روایتی حوالے سے عمومی ترتیب اشیا میں اس کا مقام نہایت ماتحت قسم کا ہے لیکن جب سائنس ان اصولوں سے، جو ماضی میں اس پر حکومت کرتے تھے، پیچھا چھڑا کر آزادانہ طور پر برسرِ کار ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی کہ واقعات کا مشاہدہ کرے اور قوانین احتمال Laws of Probability مرتب کرسکے۔ چوں کہ ان قوانین احتمال کو، اور بشری استدلال کی مدد سے ان سے حاصل کردہ نتائج کو، عموماً اشیا کی فطرت اصلیہ کے ٹھوس بیانات کے طور پر مان لیا جاتا ہے اسی لیے گینوں اس طریق کار کو اس ”اجتماعی قوی ہیکل فریبِ نظر سے تعبیر کرتا ہے جس کے باعث نوعِ انسانی کے ایک پورے حصے نے کلیتہً بیکار ترین خیال آرائیوں کو ناقابلِ تردید حقائق کا مترادف سمجھ لیا ہے۔“

وہ کہتا ہے کہ عہدِ جدید سے پہلے حسی دنیا کے مطالعے کو کبھی بھی خود مکتفی نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی کبھی اس فانی اور بدلتی ہوئی کثرت سے متعلق اس علم کو علم کا نام دینے کا واقعی اہل سمجھا گیا ہے۔ ایک قدیم نظریے کے مطابق کسی علم کافی ذاتہٖ کوئی احترام نہ تھا بہ مقابلہ اس درجے کے جس پر وہ اپنے طریقِ کار کے مطابق اشیا کے مخصوص مدارج کے دائرے میں رہ کر، ایک ایسے ارفع اور غیر متغیر حق کے انعکاس کی نمایندگی کرتا تھا جس سے کسی بھی حقیقت کی ہر چیز لازماً بہرہ ور ہوتی ہے اور چوں کہ اس حقیقت کے خصائص تصور روایت میں مندمج تھے اس لیے تمام سائنس روایتی اصولوں کی توسیع کے مترادف سمجھی جاتی تھی جو اگرچہ اپنے اطلاقات کے اعتبار سے تو بے شک ثانوی اور معاون کی حیثیت رکھتی تھی لیکن پھر بھی یہ ایک حقیقی علم تھی کیوں کہ اس کا رشتہ اس علم ارفع سے قائم و برقرار تھا جو خالص عقل کے درجے سے متعلق ہوتا ہے۔

پس گینوں کا دعویٰ ہے کہ جدید علوم، قدیم روایتی علوم کے زوال یافتہ نشانات ہیں۔ کیوں کہ اوّل الذکر مؤخرالذکر کے کھنڈرات کے اس مواد سے تعمیر ہوئے ہیں جو مسترد کر دیا گیا تھا اور جہلاء اور دنیوی لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ پس اس سلسلے میں ایک مثال ہی لیجیے کہ جدید کیمسٹری کی بنیادیں بعض لوگوں کی اس بے بسی میں تلاش کی جاسکتی ہیں جس کا سامنا انھیں کیمیا دانوں کے علائم کو سمجھنے اور ان کی تہ تک پہنچنے اور کیمیا دانی کی اصل فطرت اور مقصد کے سلسلے میں غلط فہمی کے باعث ہوا، چناں چہ یہ سوچتے ہوئے کہ مادی تصرفات کے علاوہ کسی دوسرے عمل کی حاجت نہ تھی انھوں نے ان تجربات کا آغاز کیا جس میں کسی سچے کیمیا دان کو کوئی ممکنہ دل چسپی نہ ہو سکتی تھی۔ اسی طرح علم نجوم، جو ایسا قدیم علم تھا جس میں اجرام فلکی کی ظاہری حرکات کو بطور علائم کے جانا جاتا تھا __ ایسے علائم جو ایک طرف تو انسان کے روحانی ارتقا کا استعارہ تھے اور دوسری جانب حسی دنیا سے ماورا حقائق کا، زوال پذیر ہو کر علم فلکیات میں مبدل ہو گیا جو اپنا ناتا صرف کائنات کے ڈھانچے سے جوڑتا ہے (نہ کہ اس کے معنی سے) جب کہ علم نجوم اپنی بگڑی ہوئی شکل میں نام نہاد ”غیب گوئی“ کے فن کی صورت میں باقی رہا۔

اگر اس قسم کا رویہ جدید دور میں قریب قریب ناقابل یقین نظر آتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تمام قوتوں کے اس میکانکیت کے کھوج لگانے پر مرتکز ہونے کی وجہ سے جس کے ذریعے ہنگامی وقوعات جنم لیتے ہیں، اور باتوں کے علاوہ ایک نتیجہ انسانی تجربات کی مسخ شدہ شکل میں نکلا ہے۔ قدیم علوم ہمارے اردگرد کی پھیلی ہوئی دنیا کے بارے میں ہمارے انسانی تجربے کو ایک ٹھوس بنیاد کے طور پر استعمال کرتے تھے جس پر دانش کی سیڑھی جمائی جاتی تھی۔ پھر یہ حقیقت اپنی جگہ سہی کہ یہ تجربہ اشیا کی طبعی اصلیت سے اس طرح کلی مطابقت  نہیں رکھتا جس طرح کہ دُوربین یا کسی دوسرے سائنسی آلے کے ذریعے اس کا انکشاف ہوتا ہے، لیکن اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اس حقیقت سے اس کی اصلیت میں کمی نہیں آجاتی۔ ہم مشرقی سمندر سے سورج کو اُبھرتے دیکھتے ہیں اور پھر آسمان پر اسے اپنے متعینہ رستے پر چلتے ہوئے مغرب میں ڈوب جانے کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہ تجربہ علائم کے ایک مؤثر نظام کی فراہمی کا باعث بنتا ہے۔ اب اس بات کا علم کہ ”واقعی“ (مطلب یہ کہ ایک مجرد وجود کے نقطۂ نظر سے جو خارجی خلا میں موجود ایک مرکز سے نظام شمسی کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو) زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، اس علامتیت میں کسی شے کے اضافے کا باعث نہیں بنتا اور یوں بڑی حد تک غیر متعلق ہے۔

بظاہر تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کوپرنیکس کا نظام اتنی ہی ثمر آور علامتیت مہیا نہ کر سکے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ قدیم روایت حقیقی اور قبل از سائنسی تجربے کی صورتوں میں منظم رہی ہے اور ہے۔ ذہن انسانی، جیسا کہ ہم اسے پاتے ہیں، ایک ایسی مخلوق کے اس عمومی تجربے میں گہرا جما ہوا ہے جو افلاک کا محض انسانی آنکھ کے نقطۂ نظر سے جائزہ لے سکے اور جب یہ ذہن ایک قسم کی ملکوتی غیرجانب داری کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے تاکہ زمین سے اوپر منڈلائے اور چیزوں کو ”معروضی“ نقطۂ نظر سے دیکھے، تو یہ کائنات کی طبعی میکانکیت کے بارے میں تھوڑا بہت جان سکتا ہے، لیکن وہ اس کی معنویت کا ایک شمہ بھی دریافت نہیں کر سکتا۔ اس کی اہمیت کو گرفت میں لانے کے لیے اور عمومی تجربے کی داخلیت سے واقعی بلند ہونے کے لیے ہمیں ایک ایسی قوت کو استعمال کرنا پڑتا ہے جو زمین سے ماورا ہے اور ہم اپنی حسیات کی قوت کو ایک حیرت انگیز حد تک پھیلا کر نہیں (جس طرح دُوربین آنکھ کی قوت کو پھیلاتی ہے) بلکہ حسیات کو وہیں چھوڑ کر جہاں ان کا اصل مقام ہے ان کی ممکن الخطا شہادت کو بنیاد بنا کر اس مقام تک پیش قدمی کرتے ہیں جس کی دریافت قوی ترین دُوربین کے بس کا روگ نہیں۔

قرآن کہتا ہے کہ: انّ اللّٰہ لاَ یَسْتَحْیٖ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَ لاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَ وْقَہا(۷) گویاکسی بھی قسم کا ایسا کوئی واقعہ یا مظہر نہیں جسے حقائق الٰہیہ کی ایک معتبر علامت کے طور پر استعمال نہ کیا جاسکے کیوں کہ روایتی علم کے مطابق حقیقت کے تمام مراتب میں ایک مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے۔ وہ سہارا جس کی مدد سے ہم خود کو اپنے وجود کی مخصوص سطح کی محدود ّیتوں سے بلند کرتے ہیں، ذرہ ریگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، شاید کسی بچّی کے بالوں پر سورج کی روشنی کے لمحاتی اثر سے زیادہ نہیں لیکن جب تک ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ہمیں اس کو کس طرح استعمال کرنا ہے، یہ ہمارے وزن سہارے گا۔ تاہم عملاً انسانوں کا تجربہ ان کے لیے ایک مضبوط سہارا بھی بن سکتا ہے۔ جب وہ کافی مستحکم دنیا میں رہتے ہوں اور اگرچہ ایک خاص پہلو سے اس دنیا کی بے شمار مختلف تصاویر سچ ہو سکتی ہیں لیکن لوگوں کو ایک خاص تصور پر بہ حیثیت ایک خاکے کے، متفق ہونا ہو گا جس میں ان کی ارضی زندگی متمکن ہے۔ جدید دنیا میں سائنس کے اثرات کے باعث طبعی کائنات کے بارے میں ہمارا تصور تقریباً روز بروز بدلتا رہتا ہے اور اس قسم کی ریگ رواں پر ہمیں کوئی انحصار نہیں۔ اس بات سے ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑتا کہ یہ میز، یہ کرسی ”فی الاصل“ کس شے سے بنے ہیں (اور اطلاقی سائنس کے ذریعے ان کے واقعی سانچے کا علم ایک طرف تو ہماری مادی ضروریات میں اور دوسری جانب جنگ میں  ہماری تباہی کے ذرائع میں اضافے کا موجب بنے گا)، ہاں جو بات زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ کرسی اور میز کو ہمارے سہاروں کے طور پر اپنا مخصوص منصب انجام دینا ہو گا اور  ہم آزاد ہیں کہ انھیں مفروضاتی ایٹموں سے مرکب سمجھنے کے بجائے دنیا کے اصول غائیہ Ultimate Principles کا ایک جز سمجھیں۔

اس مسئلے پر طول کلامی بہت ضروری تھی لیکن روایتی عقائد کی تفہیم اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ تسلیم نہیں کر لیا جاتا کہ دنیا سے متعلق قدیم قبل از سائنسی نظریہ محض فریب نظر نہیں تھا جس کی بنیاد جہالت پر رکھی گئی ہو بلکہ ایک ایسا زاویہئ نگاہ ہے جو اپنے درجے اور مرتبے میں مکمل طور پر قابل اعتماد ہے۔

جب تک ہمارے اذہان خلا کے ویرانوں یا بین الذراتی مکانیت سے انسانی تجربے کے اس حقیقی مرکز تک مراجعت نہیں کرتے (جس میں نہ تو سدیم Nebulae اور نہ ہی ذرات کی کوئی جگہ ہے) ہم سچے، مؤثر اور تغیر آفریں علم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ بناتُ النعش کے پڑوس میں آسمانی بادشاہت ملنی ممکن نہیں۔

اگر گینوں انسانی علم کی تصحیح کی غرض سے مشرق کی جانب دیکھتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ایک مترجم کے الفاظ میں مغرب کی مثال ان کم عقل کنواریوں کی سی ہے جو دھیان کے کسی دوسری سمت بہک جانے کے باعث، اپنے چراغ گل کر بیٹھیں۔ اب اس مقدس آگ کو دوبارہ روشن کرنے کے لیے جو خواہ کہیں بھی لو دے رہی ہو اور جو اپنے جوہر میں ایک ہی ہے، انھیں اپنی دانا تر سہیلیوں کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن کے چراغ ابھی تک روشنی بانٹ رہے ہیں۔

حواشی __ از مترجم:

۱۔            فرانسیسی کے لفظ سے مصنف کا اشارہ اہل فرانس کی فکری ذکاوت اور معروف ذہانت کی طرف ہے جس کے باعث انھیں یورپ کی ذہنی قیادت حاصل رہی ہے۔

۲۔           ۱۹۴۷ء کے بعد بھی گینوں کی چند کتب شایع ہوئی ہیں۔ تفصیل اگلے حاشیے میں ملاحظہ کیجیے۔

۳۔           مضمون کی تصنیف کے وقت گینوں کی سولہ کتابیں ہی شایع ہوئی تھیں جب کہ بعد کی کتب کو ملا کر اب تعداد پچیس بنتی ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1)           LE RÈGNE  DE LA  QUANTITÉ  ET  LES  SIGNES  DES  TEMPS

2)           LES  PRINCIPES  DU  CALCUL  INFINITÉSIMAL

3)           LA  CRISE  DU  MONDE  MODERNE

4)           L’ ÉSOTÉRISME  DE  DANTE

5)           LA  GRANDE  TRIADE

6)           LE ROI  DU  MONDE

7)           SŸMBOLES  FON DAMENTAUX  DE  LA  SCIENCE SACRÉE

8)           FORMES  TRADITIONNELLES  ET CYCLES  COSMIQUES

9)           APERÇUS  SUR L’  ÉSOTÉRISME  ISLAMIQUE  ET  LE  TAOISME

10)        INTRODUCTION  GÉNÉRALE, À L’ÉTUDE  DES  DOCTRINES HINDOUES.

11)        LE  THÉOSOPHISME,  HISTOIRE  D’UNE  PSEUDO-RELIGION.

12)        L’  ERREUR  SPIRITE.

13)        ORIENT  ET  OCCIDENT.

14)        L’HOMME  ET  SON  DEVENIR  SELON  LE  VÉDÂNTA.

15)        AUTORITÉ   SPIRITUELLE  ET  POUVOIR  TEMPOREL.

16)        SAINT  BERNARD.

17)        LE  SYMBOLISME  DE  LA  CROIX.

18)        LES  ÉTATS  MULTIPLES  DE  L’ÊTRE.

19)        LA  MÉTAPHYSIQUE  ORIENTALE.

20)         APERÇUS  SUR  L’INITIATION.

21)        INITIATION  ET  RÉALISATION  SPIRITUELLE.

22)         APERÇUS  SUR  L’ ÉSOTERISME  CHRÉTIEN.

23)         ÉTUDES  SUR  LA FRANC-MAÇONNERIE  ET  LE  COMPAGNONNAGE.

24)         ÉTUDES  SUR  L’ HINDOUISME.

25)         COMPTES  RENDUS.

۴۔           مضمون کی تصنیف کے بعد گینوں کی دو مزید کتب کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

(ا)           Reign of Quantity

(ب)  Symbolism of the Cross

۵۔           مصنف کا اشارہ کتاب کے ان ابواب کی طرف ہے جن میں ہندو عقائد و تصورات سے بحث کی گئی ہے۔

۶۔           ”دنیوی“ شیخ کی بنیادی اصطلاح ہے اور اس سے مراد وہ رویہ ہے جس کے تحت اسی دنیا کی اصطلاح میں سوچا جاتا ہے اور قبل و بعد یا تحت وفوق میں کسی اور نظام سے اسے منسلک کر کے نہیں دیکھا جاتا۔

۷۔           ”بے شک اللہ شرماتا نہیں اس بات سے کہ بیان کرے کوئی مثال مچھر کی یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے۔“ ۲: ۲۶