ایک عاجزانہ التماس: کیا ہمیں اردو ادب کی ایک موزوں تاریخ نصیب ہوسکتی ہے؟

یہ تحریر 327 مرتبہ دیکھی گئی

(۴)

انیسویں صدی میں اردو ادب کے جدید کاروں نے اردو شاعری کی خاص اصناف، بالخصوص غزل کی قدر و افادیت پر سوال کھڑے کیے۔ ‘آبِ حیات’ (1880) اور حالی کے ‘مقدمہء شعروشاعری’ (1893) نے، خاص طور پر آئندہ تین عشروں کے دوران، نوجوان قلم کاروں کے لیے ایک طرح کا  دیوتائی درجہ حاصل کرلیا تھا۔ 1920کے عشرے میں ہمیں ‘آبِ حیات’کے دو اہم وارث مل جاتے ہیں: حکیم عبدالحی کی ‘گُلِ رعنا’ (تکمیل1921، اشاعت1923) اور عبدالسلام ندوی کی ‘شعرالہند’ (جلد اول1925، جلد دوم 1926)۔ ‘گُلِ رعنا’ کے مصنف نے درحقیقت ‘آبِ حیات’ کے ذیلی عنوان کو ہی بازگشت دی اور تفصیل سے واضح کیا۔کسی بھی مصنف نے نہ تو غزل کے دفاع میں کچھ کہا نہ اردو شاعری کی دیگر اصناف کے دفاع میں کچھ لکھا۔ندوی حالی  ہی کی طرح  غزل کے بارے میں ذرا تحقیری رائے رائے کے حامل نظر آئے۔ رام بابو سکسینہ کی انگریزی میں لکھی ہوئی اردو ادب کی تاریخ (1927) کو جسے رالف رسل نے بجا طور پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے،اسی سیاق میں دیکھنا چاہیے۔ مغربی شاعری (دراصل انگریزی کی رومانی شاعری) کی ناقص تفہیم اور نوآبادیاتی قدروں کے تحت ترقی کے نام پر رجعت کے دوہرے دباؤ کے تحت کی گئی۔ محنت مشقت کر کے جدید کاروں اور ان کے نقلچیوں نے اردو ادب کو دبا کر رکھ دیاتھا۔ سکسینہ کے لیے کام شروع کرنے کا اس سے براوقت اور مقام نہیں ہو سکتا تھا۔

آزاد اور حالی دونوں کو یقین تھا کہ اردو شاعری کاپرانا انداز اور اردو ادب کی تمام روایات دراصل اب جانے کو ہیں اور اردو ادب کی زندگی کا نیادور شروع ہوجانا چاہیے یا وہ حقیقتاً شروع ہو چکا ہے۔ اس یقین واعتمادکے نتیجے کے طور پراردو ادب کے شعرا کے تذکرے غیر اہم اور ناقابلِ لحاظ تصور کیے جانے لگے، اور یہی اُن تمام روایتی انداز کی تحریروں کے ساتھ ہوا جو انیسویں کے آخری ربع عرصے میں یا اس کے بعد تخلیق ہوئیں۔بہترین ادیبوں کا ایک پورا قافلہ پس منظر میں چلا گیا۔ آج اردو کا ایک اوسط طالبِ علم پہلے کے ادیبوں کو جتنا جانتا ہے ان کے مقابلے میں بعد کے ادیبوں سے وہ اتنا ہی کم واقف ہے۔لکھنؤ کے منشی نول کشور کی 1881سے1917کے درمیان 46جلدوں میں شائع کردہ، بے حد شانداراور نہایت طویل نثری تصنیف ‘داستانِ امیر حمزہ’، جسے اردو میں نثر اور خصوصاً تخیلاتی تحریرکی شان سمجھا جانا چاہیے تھا پس منظر میں دھکیل دی گئی اور آج بھی وہیں پڑی  ہوئی ہے۔                  

ہم دیکھ چکے ہیں کہ میر نے دکنی شاعروں کے کام کو کوڑا کباڑ مان کر یہ کہہ دیا تھا کہ وہ دو باہم مربوط مصرعے بھی موزوں نہیں کر سکتے۔ میر کے بیان (۱۷۵۲) کے سواسوسال کی مد ت کے  بعدمحمد حسین آزاد نے دکن کا ایک شعر نقل کیا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے طنز کیا کہ اگر یہ شاعری ہے تو پنجاب نے تو درجنوں شاعر پیدا کرلیے ہیں۔ اس طرح پنجاب کو بھی حاشیے پر ڈال دیاگیا۔اردو ادب کے کسی بھی مورخ نے ٹھہرکر اور دہلی و لکھنؤ کے تنگ دائرے سے باہر نکل کر اردو ادب کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ہم میں سے بہت سوں کے لیے اردو ادب کی شبیہہ دہلی یا لکھنؤ کے عیش پسند لوگوں کی محفلوں کی شبیہ ہے۔ دہلی کی طرف ہمارا جھکاؤ اتنا زیادہ ہے کہ غیررسمی گفتگو میں بھی اردو کے عظیم شاعروں کا ذکرآتا ہے تو ‘غالب اور میر’ ہی بولتے ہیں۔ دکنی کے بڑے شاعر آج بھی عظیم شاعروں میں جگہ نہیں پاتے۔

دیگر شاعروں میں جن کی تصویردھندلی یا غائب ہے، ان زمروں کا ذکر کیاجا سکتا ہے: خواتین۔ غیر مسلم ادیب۔ وہ ادیب جوکاریگروں یا سماج کے کم رتبہ حلقوں سے آتے ہیں۔

یہاں ‘خواتین’میں ادیب اوران کی بیویاں، بیٹیاں دونوں شامل ہیں۔ ہماری تواریخ میں ادیبوں کی سوانحی تفصیلات بالعموم ان کی  ماؤں، بیویوں کی تفصیلات سے عاری ہوتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بیسویں صدی سے پہلے کے بیش تر ادیبوں کے بارے میں بہت کم اطلاعات ملتی ہے۔ کئی معاملوں میں تو پیدائش اور وفات کی تاریخیں متعین کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر بھی، ادیب گاہے بہ گاہے اپنے گھر والوں کے بارے میں کچھ اطلاعات دے جاتے ہیں اور تاریخ نویسوں کو اس قسم کی معلومات ان کی تخلیقات و تصانیف سے اخذ کر کے محفوظ کر لینی چاہئیں۔ عظیم داستان گو محمد حسین جاہ(وفات 1891/93) ‘طلسمِ ہوش ربا’ کی تیسری جلد مرتب کر تے ہوئے ہمیں اس کام کے دوران اپنی بیٹی اور بیٹے کی اموات کے بارے میں بتادیتے ہیں۔ تاہم یہاں یہ کہاجا سکتا ہے کہ انھوں نے خود اپنے بارے میں ایسا کچھ نہیں بتایا جس سے وہ بیش تر تواریخ کے صفحات میں جگہ پا سکتے۔

بہت سی وہ تحریریں اور تحریکیں جوصریحاً ‘ادبی’ دائرے میں نہیں آتیں وہ عام طور سے ادب کی تاریخی کتب میں زیربحث نہیں لائی گئیں۔ لیکن اردو جیسی نسبتاًنوجوان زبان کے لیے یہ ضروری تھا جس کے علاقے کئی طرح کی ثقافتی اور سیاسی پریشانیوں سے دوچار ہوتے رہے۔ قرآن مجید کے ابتدائی تراجم نے اورمذہبی مناظروں یا مذہبی بحثوں میں ملوث تینوں خاص مذہبی فرقوں،ہندوؤں مسلمانوں اور عیسائیوں کی مناظرہ بازی اورمذہبی تحریرو ں نے اگرچہ انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں بڑی حد تک جدید اردونثر کے فروغ میں گراں قدرمدد کی لیکن ان باتوں کا ذکر یوں ہی چلتے پھرتے انداز میں کیا گیا۔ شاید  ان کا  حصہ فورٹ ولیم کی نام نہاد خدمات سے بہت کم قرار پایا۔ یہ شاید اس لیے بھی ہواکہ فورٹ ولیم کے متوں زیادہ انگریزی پڑھنے والے بچّوں  ہی  کے کام آتے تھے، اور مذہبی متن آبادی کے معمر اور پختہ کار حلقوں کے لیے ہوتے تھے جو انگریزی نہیں یا شاذ ہی پڑھتے تھے۔

نام نہاد ‘علی گڑھ تحریک’ سے وابستہ مصنفین کے ساتھ بہت اچھاسلوک کیا گیا لیکن جو مصنفین اس سے تعلق نہیں رکھتے تھے یا اس تحریک سے پیدا نہیں ہوئے تھے انھیں عام طور سے نظر انداز کر دیا گیا۔

ترجمہ ہمیشہ سے ایک ایسا شغل رہا ہے جو اردو کے مصنفین کو دل سے مرغوب تھا۔ اردو میں تراجم کا آغاز اٹھارویں صدی کے وسط میں ہوااور انیسویں صدی کے ربعِ اوّل میں ترجمہ ایک صنف کی شکل اختیار کر گیا۔ بیسویں صدی کے ربعِ اوّل میں تراجم کی ایک نئی لہر آئی۔ تراجم پر چونکہ ادبی مشغلے  کے طور الگ سے بحث نہیں کی جاتی اس لیے طالبِ علم تراجم کے بارے میں مصنفین سے متعلق انفرادی مباحث سے ہی کچھ جان پاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم میں سے بہت کم یہ جانتے ہیں کہ لکھنؤ کے طوطا رام شایاں (وفات 1880)نے ‘مہابھارت’اور ‘شاہنامہ’ کے طویل منظوم ترجمے کیے اور ‘الف لیلہ’ کے منظوم ترجمے میں اصغر علی خان نسیم(1794تا1864)سے اشتراک کیا۔ ترجمے نے انیسویں صدی میں عملاً ایک صنف کی حیثیت اختیار کر لی۔ ماسٹر رام چندر(1821تا 1880) اور مولوی عنایت اللہ (1869تا1943) جیسے مصنفین نے اپنی تمام تر تخلیقی توانائی سائنس کی ادق کتابوں، تواریخ اور ناولوں کے اردو ترجموں میں کھپا دی۔

اردو ادب کی اصناف کے بارے میں کسی بھی مناسب و موزوں وضاحتی اور تجزیاتی بیان کو سکسینہ یا صادق یہاں تک کہ جمیل جالبی کی بھی پیدا کی ہوئی غلط فہمیوں اورغلطیوں کو رفع کرنے کے لیے دور تک جانا ہوگا۔ جمیل جالبی رعایتِ لفظی کے خلاف ہیں اور ان غزلوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جواُن کے نزدیک اُس وصف کا مظاہرہ نہیں کرتیں جسے میتھیو آرنلڈ نے ‘اونچے درجے کی سنجید گی’ کہا تھا۔

اردو ادب کے اُن متعدد بڑے چھوٹے مراکز کی طرف بھی کچھ توجہ دی گئی ہوتی جو اٹھارہویں صدی کے بعد ملک بھر میں ابھرنے لگے تھے، تواس سے دہلی اور لکھنؤ کے اُس غیرفطری امتیازِ خصوصی میں رخنہ آسکتا تھا جو انھیں آج تک حاصل ہے۔ عام قاعدہ غالباً یہ رہا ہے کہ لکھنؤ یا دہلی سے کوئی مقام جتنا دور ہوگا تاریخ نگاروں کی دوربین میں وہ اتنا ہی چھوٹا نظر آنا چاہیے۔

پھر یہاں ادبی جغرافیے سے پیدا شدہ معذوریا ں اورتعصبات بھی تھے۔ مرشدآباد پر طنز کے تیر برسانے والے اکیلے انشا نہیں تھے۔ دہلی اور لکھنؤ دونوں کے ادیببظاہر اس خیال کے حامل تھے کہ ‘ہمارے’شہر کے مشرق میں واقع کسی مقام کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ وہ ‘ہمارے’ شہر سے فاصلہ رکھتاہے۔’مشرق’ کے بارے میں عام متفقہ رائے یہ تھی کہ وہاں کے لوگ ناشائستہ اوران گھڑ ہیں، اور دکن کا تو اردو سے کچھ لینا دینا ہی نہیں تھا۔ دکن کی زبان دکنی تھی نہ کہ اردو۔ مولوی سید احمد (1846تا1916) کی ‘فرہنگِ آصفیہ’ (تقریباً1901تا 1908) میں جو کہ کسی ہندوستانی کی ترتیب دی ہوئی پہلی اردو- اردو لغت تھی، دکنی الفاظ شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ شمالی ہند میں عام طور پر بولے جانے والے کچھ لفظ انھوں نے ضرور شامل کیے مگر انھیں ‘گنوارو’ بتایا۔ایسے کئی لفظ لکھنؤ کے عالمِ زبان اور لغت نویس نورالحسن نیّرکاکوروی(1865تا 1936) نے ‘نوراللغات’ (1924 – 1934)میں کسی زمرہ بندی کے بغیر شامل کیے۔مشرقی بولیوں کے جو لفظ نورالحسن نیّر نے داخل کیے ان میں سے کئی لفظوں کو اثر لکھنوی (1885تا 1967) نے اپنی ‘فرہنگِ اثر’ (1951)میں ‘گنوارو’ اور ‘غیر اردو’ قرار دیا۔         

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اردو کی پیدائش و ارتقا اوراردوادب پر مرتب ہونے والے اثرات کا بیان کرنے والے سبھی اہم مصنفین کا تعلق پنجاب یا مغربی یوپی سے تھا۔ اس لیے وہ لکھنؤ کے مشرق میں واقع مقامات پر رائج اردو کے کوائف سے ناآشنا تھے۔ چنانچہ دہلی کی زبان کے کئی اہم اوصاف اُن سے چھوٹ گئے جو وقت کے ساتھ ساتھ غیر مستعمل ہوتے گئے تھے مگر جو مشرقی خطّوں میں آج بھی مستعمل ہیں۔مثلاً، فضلِ علی فضلی کی تثری تصنیف ‘کربل کتھا’ (1732کے آس پاس)میں کئی ایسے لسانی عنصر موجود ہیں جنھیں ادب کے عالموں نے دکنی کے لیے بھی عجیب تر بتایا ہے۔ فضلی چونکہ کبھی دکن نہیں گئے تھے، اس لیے عالموں کوتعجب ہے کہ اتنی دکنی انھیں کیسے آگئی۔ اگر یہ عالم حضرات اردو کی مشرقی شکلوں سے آشنا ہوتے تو وہ دیکھ پاتے کہ فضلی کی بیش تر ‘دکنیت’مشرق میں ابھی تک چل رہی ہے۔ یعنی فضلی کو نام نہاد دکنی ذخیرہء الفاظ دہلی کی دہلیز پر ہی مل گیاتھا۔ یہی معاملہ اس سے پہلے کے اور بھی عظیم ادیب، جعفر زٹلّی (1659?تا 1713) کے ساتھ ہوا جنھوں نے شمالی ہند میں پہلی بار اردو نثر لکھی تھی اور ان کا سارا زمانہ فورٹ ولیم سے بہت پہلے کا تھا۔

دہلی اور مشرق کی اردو میں مشترک قدروں میں جھانکنے سے دہلی، لکھنؤ، مشرق اور دکن کے درمیان ارتقا اور تبدیلیوں کے تناسبات کی رنگت ہی بدل جاتی ہے۔ ہمارے تاریخ نویسوں نے اس طرف توجہ دی ہوتی تو اردو کی مختلف بولیوں اور ان میں تشکیل پانے والے ادب کے بارے میں ان کا نظریہ بھی مختلف ہوتا۔

جرائد اور اخبار، خاص طور پر جرائد، اردو کی تاریخ کے لیے کافی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ان سے اردو کی ادبی ثقافت کے زبانی وسیلے سے مطبوعہ وسیلے میں منتقل ہونے میں مدد ملی اور اردو قاری اس میں راحت محسوس کرنے لگے، یا کم ازکم مغربیت اور تبدیلیوں کے بارے میں ان  کے شکوک و شبہات کم ہونے لگے۔ یہاں تک کہ ‘تہذیب الاخلاق’ (زیرِ ادارت سید احمد خان 1870تا 1876،سلسلہء اوّل، اور 1879تا 1881،سلسلہ دوم)نے بھی جو کہ بظاہر ادبی جریدہ نہیں تھا، اردو کی نئی ثقافت کی تشکیل میں مددکی، کیونکہ سید احمد خان نے جدید موضوعات پر مضمون لکھے۔لیکن جہاں کہیں انھیں اردو ادب، بالخصوص اردو شاعری کو بے مصرف اور رجعت پسند کہنے کاموقع ملااُس سے وہ نہیں چوکے۔ ادب کے ماہرانہ تذکرے اگرچہ موجود ہیں، لیکن انیسویں اور بیسویں صدی کے جریدوں نے، ادبی تصورات کو شکل دینے،اردو کے قارئین اور مصنفین دونوں کے تناظر کو وسعت بخشنے اور ادب کی فطری نوعیت کے بارے میں ماقبلِ جدید مفروضات سے اردو کو دور کرنے میں جو کردار ادا کیا،اردو کااوسط طالبِ علم عام طورپر اُس سے نابلد ہی رہا۔یہ بھی ایک تصفیہ طلب امرہے کہ اردو میں مختصر افسانہ اگربہت ہی جلد ایک باقاعدہ صنف کی صورت اختیار کرگیا تو کیا یہ بیسویں صدی کے اوائل کے مقتدر اردو جرائد کے تعاون کے بغیر ممکن تھا، جن میں کانپور کا ‘زمانہ’(مدیردیانرائن نگم)اور علی الترتیب نوبت رائے نظر، پیارے لال شاکر میرٹھی اور الہ آباد کے حصیر عظیم آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والے ‘ادیب’ (1910 تا1913)  جیسے جرائد شامل تھے۔ ‘زمانہ’(1913تا 1943) کے ابتدائی چالیس برس بنیادی حیثیت رکھتے تھے۔

حسرت موہانی (1875تا 1951) کے ‘اردوئے معلّیٰ’(سلسلہء اوّل،1903تا1913) نے بہت سے ماقبلِ جدید شاعروں کی تخلیقات کو محفوظ رکھنے میں مدد کی، جن کی قدرو قیمت کو آج زیادہ بہتر طورجانا اور سمجھاجا رہا ہے۔’اردو ئے معلّیٰ’ میں حسرت کے مضامین نے بھی اردو شاعری کوکچھ حد تک جدید تناظر میں دیکھنے میں مدد دی۔ حسرت چونکہ علی گڑھ سے بی اے کر چکے تھے اور ‘دہلوی طرز’ کے معروف استاد، امیراللہ تسلیم (1819تا 1911) کے شاگرد تھے اس لیے وہ اپنے فیصلوں اور نظریوں کی تشکیل کے لیے کلاسیکی اور جدید مآخذ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ سرعبدالقادر (1872تا 1950)کے ‘مخزن’ (سلسلہء اوّل،1901تا 1911)نے نئے مصنفین اور شاعروں کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار نبھایا۔ ان شاعروں میں اقبال بھی شامل ہیں جن کی ابتدائی شاعری کو مقبولیت دینے میں ‘مخزن’ اور شیخ عبدالقادر کا بڑا ہاتھ تھا۔

 ۴

یہ سچ ہے کہ ادب کی، بلکہ کسی بھی شعبے کی تاریخ، پوری طرح تشفی بخش نہیں ہو سکتی۔لیکن اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ فی زمانہ اردو ادب کی ایسی کوئی نیم مفصل یا کسی بھی حد تک مفصل تاریخ موجود نہیں ہے جو یہاں سامنے رکھے گئے تما م نکات کا احاطہ کر سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا یہ دعا کرنا بجا ہوگا کہ کوئی ایسا ہوجو مجھ سے زیادہ وقت اور اہلیت رکھتا ہو،اور جو  طمانیت قلب سے بیٹھ کر اردو ادب کی ایسی تاریخ لکھ سکے جیسی کہ میں چاہتا ہوں۔  

شمس الرحمن فاروقی

                                                                                الہ آباد، جولائی2008