مغربی دنیا کے چیلنج اور عالمِ اسلام

یہ تحریر 507 مرتبہ دیکھی گئی

(۴)

یہ بات درست ہے کہ خود اہل مغرب ان تحریکوں کی گہری جڑوں سے بہت کم آگاہ ہوتے ہیں جو مغرب میں یکے بعد دیگرے چلتی رہتی ہیں مثلاً آج سے بیس سال پہلے خود یورپ میں کسی شخص کو یہ احساس نہیں تھا کہ ہپیوں کی ایک ایسی زبردست تحریک اٹھے گی جو مغرب میں دور دور تک پھیل جائے گی لیکن بے چارے جدیدیت زدہ مسلمان تو اس دھارے سے اور بھی دور ہیں کیوں کہ وہ نہ صرف یہ کہ اس کی اصل و بنیاد سے ناواقف ہوتے ہیں بلکہ ایسی تحریکوں کے آغاز و ارتقاء کے مراحل سے بھی نابلد ہوتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ کب یہ تحریکیں صدر نشیں ہوتی ہیں اور پھر یا تو وہ حیرت سے اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں یا پھر دوبارہ اسی کورانہ تقلید کے دھارے میں بہہ نکلتے ہیں۔

اس صورتِ حال کی ایک موزوں ترین مثال ماحولیاتی بحران کی ہے۔ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھر ے منتظر بیٹھے رہے حتیٰ کہ مغربیوں کی ایک کثیر تعداد کے لیے یہ بحران ایک مرکزی تشویش کا باعث بن گیا اور ہمیں اس مسئلے کی موجودگی کی خبر بھی نہ تھی۔ بلکہ اب بھی اسلامی دنیا کے کتنے افراد اس نازک مسئلے پر فطرت سے متعلق اسلام کی انتہائی عظیم روایت کی روشنی میں غور کر رہے ہیں؟ حال آنکہ اگر ایسا کیا جاتا تو اس عظیم بحران کے ممکنہ حل کے لیے کلید دست یاب ہو سکتی تھی۔(۷)

مغرب کی جانب سے اسلام کو دیے گئے چیلنجوں پر زیادہ ٹھوس گفتگو کرنے کے لیے ان چند ”ازموں“ کی مثالیں پیش کرنا ضروری ہیں جو آج کی دنیا میں فیشن کے طور پر چل رہے ہیں اور جنھوں نے اسلامی دنیا کی تہذیبی اور دینی زندگی کو بھی شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ آیئے مارکسزم یا زیادہ عمومی لفظوں میں ”سوشلزم“ سے بات کا آغاز کریں۔(۸) 

آج دنیائے اسلام کے متعدد حصوں میں مارکسزم پر خاصی گفتگو چل رہی ہے۔ مارکسزم اگرچہ براہ راست اسلام پر حملہ آور نہیں ہوتا لیکن معاشی اور سماجی سرگرمی کے علاوہ خود مذہبی زندگی کو بالواسطہ طور پر متاثر کر رہا ہے۔ دنیاے اسلام میں اکثر جو لوگ عموماً مارکسزم یا سوشلزم کی بات کرتے ہیں وہ معاشرے کے بعض موجود مسائل کو ذہن میں رکھ کر گفتگو کرتے ہیں جن کے حل وہ تلاش کرنا چاہتے ہیں لیکن شاذ ہی ان میں ایسے لوگ ہوں گے جو واقعتہً مارکسزم یا نظری سوشلزم سے سنجیدگی سے واقف بھی ہوں گے۔ یونیورسٹی کے حلقوں میں نوجوانوں کی مارکسزم کے باب میں ساری گفتگو کے باوجود حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان میں کتنے ہیں جنھوں نے واقعتہً ”داس کیپیٹال“ کا مطالعہ کیا ہو گا یا چند اہم ثانوی منابع ہی تک جن کی رسائی ہوئی ہو گی یا وہ خالص فکری سطح پر مارکسزم کا دفاع کرنے کے قابل ہوں گے؟ اس مارکسی فیشن کی وجہ سے کئی نوجوان مسلمانوں کے ہاتھ ایک بہانہ آگیا ہے۔ چناں چہ وہ اسلامی معاشرے کے مسائل پر خاص اپنے سماجی تناظر میں اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق سنجیدگی سے سوچنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس صندوق سیاہ کو یہ جانے بغیر کہ اس کے اندر کیا ہے محض اس کے لیبل کی بنیاد پر قبول کر کے اپنی انا کے غبارے میں تو ہوا بھری جاسکتی ہے اور اپنے ذہن کو اس فریبِ نظر کا اسیر تو کیا جا سکتا ہے کہ ہم ”دانش ور“ بن گئے ہیں اور آزاد خیال دانشوروں کے حلقے کے رکن ہو گئے ہیں لیکن ان دانش وروں نے، جو ہر قسم کے مسائل کے حل کے لیے پہلے سے متعینہ مارکسی اصولوں کی، جو اصل میں دوسرے ملکوں کے خصوصی سماجی و تہذیبی تناظر میں وضع کیے گئے تھے، پیروی کرتے نہیں تھکتے، کبھی یہ ذمہ داری قبول نہیں کی کہ وہ ایک اسلامی معاشرے کے مسائل پر، بہ حیثیت ایک اسلامی معاشرے کے مسائل کے، نئے طریقے سے غور کریں۔ مارکسزم کی گٹھڑی کی یہی کورانہ تقلید ہے جو یہ جاننے ہی نہیں دیتی کہ اس کے اندر کیا ہے۔ یہ اسپرین کی ٹکیہ سمجھ لی گئی ہے جو ہر درد کا مداوا ہے۔ چناں چہ اس کورانہ تقلید ہی نے بدترین قسم کی بازاری لیڈری کو جنم دیا ہے۔ مسائل کو معنی خیز اور معقول انداز میں سمجھنے کے بجائے، مارکسزم کا اسیر ہو جانے والوں کے یہاں ایک ایسی اندھی، ٹھس اور گھامڑ قسم کی اطاعت پیدا ہو جاتی ہے جس کانتیجہ ایک بے ہودہ محاذ آرائی کی شکل میں نکلتا ہے اور بالآخر یہ اس ذہنی فالج پر منتج ہوتی ہے جس سے اسلامی سوسائٹی کے نوجوان کو ناقابل بیان نقصان پہنچتا ہے ¾¾ ایمان کو پہنچنے والے صریح نقصان کا تو کیا مذکور!

بدقسمتی سے مسلمان علماء کی طرف سے جدلیاتی مادیت کا جو جواب اب تک دیا گیا ہے وہ کم و بیش ان دلائل پر مشتمل ہے جو نقلی علوم یا مذہبی علوم سے ماخوذ تھے اور اس باب میں اسلام کی اس باثروت فکری روایت سے اخذ و استفادہ نہیں کیا گیا جو اسلام کے روایتی عقلی علوم میں موجود تھی۔(۹) اب یہ بات تو واضح ہے کہ مذہبی دلائل تو صرف ان لوگوں کے سامنے پیش کیے جا سکتے ہیں جو پہلے سے ایمان والے ہوں۔ اس کا کیا فائدہ کہ کسی ایسے شخص کے کسی خیال کو رد کرنے کے لیے قرآن کا کوئی خاص حصہ پڑھ دیا جائے جو قرآن سے سند لینے کا قائل ہی نہ ہو؟ اس باب میں علما کی لکھی ہوئی اکثر کتابیں تنقید کی زد میں آتی ہیں کیوں کہ یہ بہرے کانوں سے خطاب کرتی ہیں اور ایسے دلائل پیش کرتی ہیں جو اس خاص تناظر میں کوئی تاثیر نہیں رکھتے۔ یہ امر اس لیے اور بھی زیادہ افسوس ناک ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلامی روایت میں ایسا عمق اور وسعت موجود ہے کہ یہ جدید مغربی فلسفے کی اٹھائی ہوئی کسی بھی دلیل کا فکری سطح پر جواب دینے کی مکمل طور پر اہل ہے۔ آخر کیا یہ حقیقت نہیں کہ روایتی دانش کے سامنے یہ تمام جدید فلسفہ سوائے ایک شور و غوغا کے کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس کے بل پر خود فریبی میں مبتلا ہو کر یہ آسمانوں کو فتح کرنے چلا ہے؟ آج کے بہت سے نام نہاد مسائل اصل میں غلط سمت میں کیے گئے سوالوں اور صداقتوں سے لاعلمی کے باعث وجود میں آئے ہیں اور ان کی نوعیت ایسی ہے کہ انھیں صرف روایتی دانش ہی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے¾¾ ایسی روایتی دانش جو قدیم بابل سے عہد وسطیٰ کے چین تک موجود ہے اور جو اپنی بے حد آفاقی اور متنوع شکل میں اسلام میں ملتی ہے ¾¾ اس وسیع و عریض فکری روایت میں جو اسلام ان چودہ صدیوں میں وجود میں لایا ہے۔

حال ہی میں اسلام کے لیے مارکسزم کا خطرہ پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے خصوصاً عرب دنیا میں ایک ایسے مارکسزم کی وجہ سے جس پر اسلام کا ملّمع چڑھایا گیا ہے اور جو بعض سادہ نفسوں کے لیے خاص کشش کا باعث ہے۔ مذہب کا یہ عیارانہ استعمال، جو اکثر براہ راست سیاسی مقاصد کے لیے ہوتا ہے درحقیقت مذہب دشمن یا کم از کم واضح اور ”کھرے“ مارکسزم کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے اور یہ رویہ اس طبقے کے فکر و عمل سے ملتا جلتا ہے جسے قرآن نے ”منافقوں“ کا نام دیا ہے۔ اس صورت میں بھی اس کے سوا اسلام کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کے جعلی امتزاجات کا فکری سطح پر توڑ کیا جاسکے اور یہ بات واضح کر دی جائے کہ ہر وہ چیز جس کے آغاز میں بسم اللہ لکھ دی جائے اسلام نہیں بن جاتی بلکہ اسلام نام ہے حقیقت کے اس مکمل ویژن کا جو کسی قسم کی نیم صداقت سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔

اسلام کے لیے ایک اور ازم جو بڑے خطرے کا باعث ہے وہ ہے جس کی اسلام میں مداخلت کی مارکسزم کے مقابلے میں نسبتاً لمبی تاریخ ہے۔ یہ ڈارون ازم یا ”ارتقائیت“ ہے جس کے اثرات خصوصاً برعظیم ہندوستان کے مسلمانوں میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اور اس کا سبب واضح طور پر وہاں کے نظام تعلیم پر برطانوی اثرات کی ہمہ گیری ہے۔ ہم اس سے پہلے ایک موقع پر نظریہئ ارتقا کے خلاف ممتاز یورپی ماہرینِ حیاتیات کے کارناموں کا ذکر کر چکے ہیں۔(۱۰) اور یہ ثابت کرنے کے لیے معاصر ماہرینِ بشریات کے ثبوت پیش کر چکے ہیں (۱۱) کہ پہلے اور جو کچھ بھی ہو چکا ہو مگر انسان اس وقت سے لے کر جب اس نے ارضی تاریخ کی اسٹیج پر پہلا قدم رکھا آج تک ایک ذرہ برابر بھی ”ارتقا پذیر“ نہیں ہوا لیکن افسوس ہے کہ کم و بیش کسی بھی معاصر مسلمان مفکر نے ان منابع کی طرف متوجہ ہونے اور اسلام کے روایتی تصور انسان کی تقویت کے لیے ان دلائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ جدیدیت زدہ مسلمانوں کا ایک کافی حصہ ”ارتقائیت“ کو ایمان کا رُکن تصور کرتا ہے اور قرآنی تعلیمات سے اس کے واضح ٹکراؤ کو محسوس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈارون کا نظریہئ ارتقا جو مابعدالطبیعیاتی اعتبار سے ناممکن اور منطقی طور پر لغو ہے بعض ممالک میں اسلام کے بعض پہلوؤں کے ساتھ اس نزاکت سے گوندھ دیا گیا ہے کہ اس سے نہایت افسوس ناک اور بعض صورتوں میں خطرناک امتزاج سامنے آگیا ہے۔ ہماری مراد صرف اس صدی کے آغاز پر نظر آنے والے قرآن کے سطحی مفسّروں سے نہیں بلکہ اقبال کے سے قد کاٹھ کے مفکر سے ہے جو وکٹورین عہد کے نظریہئ ارتقا اور نٹشے کے ”مافوق البشر“ دونوں سے متاثر تھے۔ اقبال اسلام کی ایک صاحبِ تاثیر معاصر شخصیت ہیں لیکن    بہ حیثیت ایک شاعر کے ان کا تمام احترام ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کے افکار کا ”اجتہاد“ کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، وہی ”اجتہاد“ جس کی اقبال خود تبلیغ کرتے تھے۔ انھیں ایک اونچے سنگھا سن پر بٹھانے کی یقینا ضرورت نہیں۔ اگر ان کے افکار کا احتیاط سے تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بعض اشیاء کے معاملے میں بیک وقت محبت و نفرت کی کشاکش تھی، بشمول تصوف کے ساتھ ان کے محبت و نفرت کے رویے کے۔ وہ رومی ؒ کی تعریف کرتے تھے لیکن حافظ جیسی شخصیت کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک طرف تو صوفیانہ یا زیادہ عمومی معنوں میں، انسان کامل کا اسلامی تصور اُنھیں اپنی جانب کھینچتا تھا اور دوسری جانب نیٹشے کا فوق البشر کا تصور۔ حال آنکہ یہ دونوں تصورات ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں۔ اقبال نے ان دونوں کو مخلوط کرنے کی خاصی بڑی غلطی کر ڈالی۔ ان سے یہ مہلک غلطی اس لیے سرزد ہوئی کہ اسلام کے بعض پہلوؤں کے گہرے ادراک کے باوجود انھوں نے اپنے وقت کے رائج نظریہ ارتقا کو بڑی سنجیدگی سے اپنا لیا۔ اصل میں ایک زیادہ واضح اور قابل فہم سطح پر اقبال ایک ایسے رجحان کا اشاریہ فراہم کرتے ہیں جو کئی جدید مسلمان لکھنے والوں کے یہاں ملتا ہے جو بجاے ”ارتقائیت“ کی غلطیوں اور نارسائیوں کا جواب دینے کے معذرت خواہا نہ انداز میں چاروں شانے چت ہو کر اسے نہ صرف قبول کر لیتے ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی بھی اس کے مطابق تاویل کرتے ہیں۔(۱۲) 

ارتقائی ذہنیت سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کا عام رجحان یہ ہے کہ وہ اسلام کا تصورِ مرورِ زمان بھول جاتے ہیں۔(۱۳) قرآن حکیم کے آخری پارے جن میں مابعدالموت اور معاد اور اسی قبیل کے دیگر مباحث اور بنی نوع انسان کے آخری ایام کی تفصیل ملتی ہے یا بھلا دیے جاتے ہیں یا ان کے بارے میں سکوت اختیار کر لیاجاتا ہے۔ وہ تمام احادیث جو آخری دور اور مہدی کے ظہور سے متعلق ہیں یا تو پس پشت ڈال دی جاتی ہیں یا جہالت یا بدنیتی کی وجہ سے ان کی غلط تاویل کی جاتی ہے۔ صرف حضورِ اکرمؐ کی ایک حدیث ہی لے لیجیے جس میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ مسلمانوں کی بہترین نسل وہ لوگ ہیں جو میرے معاصر ہیں، پھر بعد کی نسل کے پھر اس کے بعد کی نسل کے الیٰ آخر الزماں۔ یہ حدیث اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق سیدھی لکیر کے ارتقا اور تاریخی ارتقا کو ردّ کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ لوگ جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ارتقائی نظریات کو جو عہد موجود میں جس طرح سمجھے جاتے ہیں، اسی طرح اسلام کی فکریات میں شامل کرکے اسلام کی کوئی خدمت بجا لا رہے ہیں، حقیقتاً ایک انتہائی مہلک گڑھے میں گر رہے ہیں اور اسلام کو جدید انسان کے ایک انتہائی مکارانہ خود ساختہ عقیدے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہے ہیں ¾¾ وہ نظریہ جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں انسان کو خدا فراموشی کا بہانہ فراہم کرنے کے لیے گھڑا گیا تھا۔