مغربی دنیا کے چیلنج اور عالمِ اسلام

یہ تحریر 497 مرتبہ دیکھی گئی

(۳)

جہاں تک دوسرے طبقے کا تعلق ہے، جن کے رویوں کا پچھلے ابواب میں تجزیہ کیا جا چکا ہے وہ یا تو مغربی یونیورسٹیوں کی پیداوار ہیں یا اسلامی دنیا کی ان یونیورسٹیوں کی جو کم و بیش مغرب کی نقالی کرتی ہیں۔ اب قصہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی یونیورسٹیاں بجائے خود بحرانی حالت میں ہیں اور یہ بحران تشخص کے سوال سے ابھر رہا ہے کیوں کہ ایک نظام تعلیم کا تعلق نامیاتی طور پر اس کلچر سے ہوتا ہے جس کی آغوش میں یہ برسرِ عمل ہوتا ہے۔ ایک جیٹ طیارے کو آپ ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی ملک کے ہوائی اڈے پر اتار سکتے ہیں اور اسے اس ملک کا حصہ گردانا جاسکتا ہے لیکن ایک نظام تعلیم کو آپ محض درآمد نہیں کر سکتے۔ یہ حقیقت کہ اسلامی دنیا میں جدید جامعات ایک ایسے بحران سے دوچار ہیں جو مغرب میں موجود جامعات کے بحران سے مختلف ہے، بذاتِ خود اس دعوے کا ثبوت ہے۔ اس بحران کا ہونا فطری تھا کیوں کہ مقامی اسلامی کلچر ابھی زندہ ہے۔ مزید یہ کہ یہ بحران زیادہ تر ان لوگوں کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے جو ان جامعات میں تعلیم پاتے ہیں اور جنھیں عام طور پر ”طبقہء دانش وراں“ (Intelligentsia) کا نام دیا جاتا ہے۔ ”انٹلکچوئل“ کی طرح یہ اصطلاح بھی نہایت بدقسمت رہی ہے کیوں کہ یہ جن لوگوں سے خاص ہے انھیں اکثر و بیش تر ”دانش“ کی ہوا بھی نہیں لگی لیکن بہرحال انھیں جس نام سے بھی پکارا جائے، ان میں سے اکثر میں جو مغربی طرز کی جامعات کی پیداوار ہوتے ہیں، ایک بات مشترک ہوتی ہے: ہر مغربی چیز کی شدید للک اور ان چیزوں کے سلسلے میں احساسِ کمتری بھی جن کا تعلق اسلام سے ہو۔ متعدد جدید ذہن کے مسلمانوں کا مغرب کے مقابلے میں یہ احساسِ کمتری ہی، جو علاوہ مسلمانوں کے جدیدیت زدہ ہندوؤں، بدھوں اور ان دیگر مشرقیوں کے یہاں بھی عموماً پایا جاتا ہے جو بت پرستی کی جدید شکلوں کی آشفتہ مغزی (Psychosis) کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ مرضِ عظیم ہے جو اسلامی دنیا کو درپیش ہے اور وہ اسی گروہ کو سب سے زیادہ دق کر رہا ہے جس کے بارے میں توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ مغرب کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے گا۔ چناں چہ اسلام کی مغرب کے ساتھ مبارزت کا مسئلہ اس وقت تک زیرِ بحث نہیں آسکتا جب تک اس ذہنیت کو نگاہ میں نہیں رکھا جاتا جو بیش تر صورتوں میں جدید یونیورسٹی تعلیم کی پیداوار ہے(۱) ___ ایک ایسی ذہنیت جو پچھلی صدی میں اکثر و بیش تر ان معذرت خواہانہ اسلامی ”تصانیف“ کی ذمہ دار ہے جو اسلام اور مغرب کے تصادم سے متعلق ہیں۔(۲)

اسلام اور مغرب کے تصادم سے پیدا شدہ بحران کے سلسلے میں اس معذرت خواہانہ، جدیدیت زدہ رویے میں کوشش یہ ملتی ہے کہ مغرب کے چیلنج کے جواب میں کھینچ تان کر کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کر دیا جائے کہ اسلام کا یہ اور وہ عنصر مغرب میں اس وقت رائج فلاں فلاں صورت سے مطابقت رکھتا ہے جب کہ اسلام میں موجود بعض دیگر عناصر کے سلسلے میں، جن کے لیے تخیل کی طویل اڑان کے باوجود مغرب سے کوئی مثال دست یاب نہ ہو سکی ہو، صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ یہ غیر اہم ہیں یا پھر مابعد کے غیر متعلق الحاقات۔(۳) اسلامی عبادات کی صحت بخش نوعیت اور پیغام اسلام کے مساواتی کردار کو ثابت کرنے کے لیے لاطائل مباحث پیش کیے گئے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ چیزیں خود اسلام کے کلی پیغام کے وسیع تناظر میں دیکھے جانے پر درست ہیں بلکہ اس لیے کہ ”حفظانِ صحت“ اور ”مساوات“ کے خیالات اس وقت مغرب کے مسلمہ افکار و معیار مانے جاتے ہیں یا کم از کم یہ کہ ہپی تحریک سے قبل مانے جاتے تھے۔ اس قسم کی واضح اور آسانی سے قابلِ دفاع خصوصیات کی توثیق کر کے، ان معذرت خواہوں نے مغرب کے کلی چیلنج سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی ہے جس کے باعث اسلام کا قلب خطرے میں پڑ گیا ہے جسے دشمن کے غصے کو کم کر کے ٹالا نہیں جا سکتا۔ جب سرجری کی ضرورت ہو تو ایک ایسا نشتر ناگزیر ہو جاتا ہے جس کی مدد سے فرسودہ حصے کو الگ کیا جا سکے۔ اسی طرح جب باطل، مذہبی صداقت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہا ہو تو اس صورت میں کوئی شے تنقید اور تنقیح کی تلوار کا بدل نہیں ہو سکتی۔ کوئی شخص بھی باطل سے صلح کر کے اور اسے اپنا دوست جتا کر اس کے منفی اثر کو زائل نہیں کر سکتا۔

یہ معذرت خواہانہ طرزِ فکر اس صورت میں اور زیادہ افسوس ناک ہو جاتا ہے جب یہ اپنارشتہ فلسفیانہ اور فکری سوالات سے جوڑتا ہے۔ جب ہم اس قسم کا معذرت خواہانہ لٹریچر پڑھتے ہیں جو اس صدی کے آغاز میں زیادہ تر مصر اور برعظیم ہندوستان میں پیدا ہوا اور جس میں مذہب اور سائنس کے سلسلے کے انتہائی فرسودہ اور مردہ مباحث کی جگالی کی جاتی تھی جو وکٹورین انگلستان اور اسی دور کے فرانس میں ہوتے تھے اور اب اہمیت کھو چکے تھے، تو اس قسم کے لٹریچر کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے جو اصل میں مغرب کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا۔ بلکہ اس وقت سے لے کر اب تک کے گزرنے والے دسیوں سالوں کے تناظر میں تو ایسا لٹریچر اور بھی فرسودہ لگنے لگا ہے۔ بہرحال اُس زمانے میں روایتی علما کی توانا آواز سننے میں ضرور آجاتی تھی جنھوں نے اپنے استدلال کو وحیِ الٰہی کے غیر مبدل اصولوں پر ڈھال کر مذہبی سطح پر ان چیلنجوں کا جواب دینے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ ان مباحث میں کارفرما مشہور فلسفیانہ اور مجرد افکار سے زیادہ واقفیت بھی نہ رکھتے تھے۔ یہ آواز نابود تو نہیں ہوئی لیکن رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور اس کے مقابلے میں جدیدیین کی آواز بلند سے بلند تر اور جارح ہوتی چلی گئی۔

اس واقعہ نے آج یہ افسوس ناک صورتِ حال پیدا کر دی ہے کہ پڑھے لکھے طبقوں میں جدید تہذیب مغرب کے انتہائی گرم جوش دفاع کرنے والے عملاً وہ لوگ ہیں جو مغرب زدہ مشرقی ہیں۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ میں پڑھنے والے انتہائی ذہین طالب علم بھی تہذیب مغرب اور اس کے مستقبل کے معاملے میں اتنے پُراعتماد نہیں جتنے یہ ہمارے مغرب زدہ مشرقی جنھوں نے کچھ عرصے سے اپنا سب کچھ جدیدیت کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اب انھیں اپنے بت کی مکمل شکست و ریخت کے امکان کا اچانک سامنا ہے۔ چناں چہ وہ اب اس بت سے چمٹنے کے لیے ہر طرح ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ جدیدیت زدہ مسلمانوں کے لیے، خصوصاً ان مسلمانوں کے لیے جو ان میں زیادہ انتہا پسند ہیں، اسلام کا ”حقیقی مفہوم“ ادھر کچھ عرصہ سے وہ ہو چلا ہے جو انھیں مغرب نے پڑھایا ہے۔ اگر ”نظریہئ ارتقا“ کا چلن ہے تو سچا اسلام ارتقائی ہے۔ اگر سوشلزم کا کوس بج رہا ہے تو پھر اسلام کی ”حقیقی تعلیمات“ سوشلزم ہی پر مبنی ہیں۔ اس ذہنیت اور اس ذہنیت کے نتیجے میں پیدا شدہ تصنیفات کا شعور رکھنے والے لوگ اس کی ممیاتی ہوئی، غلامانہ اور جامد فطرت سے بخوبی آگاہ ہیں اور تو اور قانون کے میدان میں بھی بارہا ایسا ہوا کہ قطعی غیر اسلامی بلکہ دشمنِ اسلام قوانین کو آغاز میں بسم اللّٰہ اور آخر میں بہٖ نستعین کا اضافہ کر کے اپنا لیا گیا جب کہ ان دونوں مقدس کلمات کے درمیان پایاجانے والا مواد کسی نہ کسی مغربی ضابطہء فوجداری و دیوانی سے ماخوذ بلکہ نقل شدہ تھا۔

اب اچانک اس گروہ کی آنکھوں کے سامنے جو مغرب کی پیروی میں اپنی روح کا سودا کرنے کی سوچ رہا تھا، خود اسی مغربی تہذیب کی لڑکھڑاہٹ کا ناقابلِ یقین منظر گھوم رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ کتنا دردناک منظر ہو گا؟ چناں چہ وہ تمام حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مغربی ”نظامِ اقدار“ کے دفاع کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور ان مغربی مفکرین پر غضب ناک ہو جاتے ہیں جو خود جدید مغرب کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ اگر جدید تہذیب کی یہ واضح ٹوٹ پھوٹ جو جنگِ عظیم دوم کے بعد زیادہ کھل کر سامنے آنے لگی تھی، پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی واضح ہو کر سامنے آجاتی جب ابھی ایشیا کی روایتیں کہیں زیادہ محفوظ تھیں تو امکانِ غالب ہے کہ ان روایتی تہذیبوں کا کہیں زیادہ حصہ بچایا جا سکتا تھا لیکن تقدیر کے ہاتھوں کو انسان کے لیے ایک اوررستے کی نقش گری کرنا تھی۔ بہرحال آج کی صورتِ حال میں بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ ایک فارسی ضرب المثل کا مفہوم ہے:

”جب تک درخت کی جڑ میں پانی موجود ہے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے“۔

روایتی اصولوں کے مطابق سچی سرگرمی کے منہاج پر کسی مثبت کام کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے اور اسی میں اعلاے کلمتہ الحق اور اس کے مطابق عمل کا انتہائی مرکزی اور واضح کام شامل ہے۔(۴) جہاں ایمان ہے وہاں مایوسی کی کوئی جگہ نہیں۔ آج بھی اگر دنیاے اسلام میں سچے دانش وروں کا ایک ایسا گروہ تشکیل دیا جا سکے جو بیک وقت روایتی بھی ہو اور جدید دنیا سے کاملاً آگاہ بھی تو مغرب کی دعوتِ مبارزت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اسلامی روایت کی روح کو اس فالج سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، جس کے باعث اس کے دست و بازو خطرے میں ہیں۔

اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ اسلامی دنیا میں اب بھی کیا کچھ بچایا جا سکتا ہے، یہ بات یاد رکھنا کافی ہوگا کہ مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی اسلامی تہذیب کو ایک زندہ حقیقت سمجھتی ہے جس میں وہ جیتی ہے، سانس لیتی ہے اور دم دیتی ہے۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اسلامی تہذیب حال کا حوالہ ہے، ماضی کا واقعہ نہیں۔ وہ لوگ جو اس تہذیب کو صرف ماضی کا حوالہ سمجھتے ہیں اس مختصر مگر غلغلہ خیز اقلیت کا جز ہیں جو دنیاے روایت میں زندہ نہیں ہیں اور جو اپنے لامرکز ہونے پر تمام مسلم معاشرے کو لامرکز قیاس کیے بیٹھے ہیں۔

اس صورتِ حال میں المیہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں من و عن یہ نقطۂ نظر کہ یہ تو ماضی کا حوالہ ہے، اکثر و بیش تر ان لوگوں کا ہے جو دنیاے اسلام کے متعدد ملکوں میں ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں اور لوگوں کے ذہنوں اور نفوس پر بڑا گہرا اثر ڈال رہے ہیں ___ ایسا اثر جو ان کی قلیل تعداد کے مقابلے میں ناروا حد تک بڑھا ہوا ہے۔ کئی اسلامی ممالک میں یہ لوگ جو ریڈیو، ٹیلی وژن اور رسائل و جرائد کے ذرائع پر قابض ہیں، ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں اسلامی تہذیب انھیں صرف ماضی کی ایک شے نظر آتی ہے کیوں کہ واقعہ یہ ہے کہ وہ مغرب کے سحر کے اس قدر اسیر ہو چکے ہیں کہ مغربی نقطۂ نگاہ کے سوا کسی اور زاویہء نگاہ سے چیزوں کو دیکھنا ان کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا، خواہ یہ دوسرا زاویہء نگاہ عین ان کے دروازے پر زندہ حقیقت کی صورت ہی میں کیوں نہ موجود کھڑا ہو۔

تعجب اس امر پر ہے کہ اسلامی دنیا کی اس مغرب زدہ اقلیت نے یہ مقامِ سیادت اس وقت حاصل کیا ہے جب مغرب مکمل طورپر اپنے لنگر کھو چکا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ اگر کسی سادہ عرب یا ایرانی کاشت کار کو مشرقِ وسطیٰ کے کسی بڑے ایئرپورٹ پر لاکھڑا کیا جائے اور اسے کہا جائے کہ وہ یورپینوں کو ملک میں داخل ہوتے ہوئے مشاہدہ کرے تو اور کچھ نہیں تو صرف لباس کا فرق جو ایک راہبہ اور ایک عملاً عریاں مغربی عورت میں پایا جاتا ہے، اس کے سادہ ذہن پر مغربی تہذیب کے مظاہر کی عدم یکسانیت کا احساس مرتسم کرنے کے لیے کافی ہو گا لیکن یہ سادہ سا منظر بھی ایک مکمل طور پر مغرب زدہ مشرقی کی نگاہ سے ُچوک جاتا ہے جو اور کچھ نہ بھی ہو بہرحال ایک خوش ارادہ شخص ہوتا ہے لیکن وہ نہیں چاہتا کہ وہ اس تہذیب کے واضح تضادات ہی کا سامنا کر سکے جس کی وہ بڑے چاؤ سے نقالی کر رہا ہے۔

کئی حلقوں میں اس طرز فکر کے غلبے اور تسلسل کے باوجود پچھلے تیس برسوں میں صورتِ حال کس قدر بدل گئی ہے۔ دو عالمی جنگوں کے دوران جو مسلمان یورپ گئے وہاں دریاے سین Seine یا ٹیمز کے کنارے اُگے ہوئے درختوں کو عملاً شجر الطوُبےٰ اور ان دریاؤں کو انہار جنت سمجھتے تھے۔ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر، بہرحال جدیدیت زدہ مسلمانوں کی اس نسل کے اکثر افراد نے اپنا تصور بہشت مغرب کو اور کمالاتِ جنت، مغربی تہذیب کو قرار دے رکھا ہے لیکن آج مغرب پر بطور ایک دیوتا کے اندھا دھند اعتقاد اور اس کا یکساں نتیجہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اب ایسے زاویہء نگاہ کا امکان اس لیے نہیں رہا کہ پچھلے تیس برسوں میں مغرب کے اندرونی تضادات واضح سے واضح تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ جدیدیت زدہ مسلمانوں کی نئی نسل تہذیب مغرب کی اقدار کی مطلقیت کے بارے میں اتنی پر اعتماد نہیں رہی جتنے ان کے باپ اور چچا تھے جو ان سے پہلے یورپ ہو آئے تھے۔ یہ بات بجائے خود ایک مثبت رجحان کہلا سکتی ہے، اگریہ جدیدیت کے معروضی اور مثبت جائزے کا ابتدائیہ بن سکے لیکن اب تک اس صورت حال نے جدیدیت زدہ مسلمانوں کی صفوں میں صرف انتشار ہی کا اضافہ کیا ہے اور صرف یہاں وہاں چند مٹھی بھر ایسے مسلمان علما کو جنم دیا ہے جو اس صورت حال کی نزاکت سے واقف ہیں اور انھوں نے مغرب کی کورانہ تقلید سے ہاتھ کھینچ لیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اصل مسئلہ ابھی جوں کا توں ہے اور وہ ہے جدید دنیا کی صحیح نوعیت کے بارے میں اس گہرے علم کی کمی جس کی بنیاد اسلامی تہذیب کی میزان پر ہوتی۔ آج اسلامی دنیا میں بہت کم ایسے مستغربین Occidentalists ہیں جو اسلام کے لیے وہ کام انجام دے سکتے جو مستشرقین نے اٹھارویں صدی سے اب تک یورپ کے لیے انجام دیا۔(۵)

جدیدیت زدہ مسلمانوں کا تہذیب مغرب پر ایمان مجروح ہوچکا لیکن اس کے باوجود مسلمان اب تک افکار اور مادی اشیا کے معاملے میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ چوں کہ جدیدیت زدہ مسلمانوں کو اپنی فکری روایت پر اعتماد نہیں اسی لیے وہ ایک سادہ تختی کی طرح مغرب سے کسی نقش کی آمد کے انتظار میں ہیں۔ مزید یہ کہ اسلامی دنیا کا جو جو حصہ مغرب کے جس جس حصے سے فکری طور پر متصل رہ چکا ہے وہاں وہاں سے اسے افکار کی رنگا رنگ گٹھڑیاں ملتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر عمرانیات کے میدان یا جیسا کہ پہلے کہا گیا فلسفہ کے میدان میں، برعظیم ہندوستان نے پچھلی صدی سے انگریزی دبستانوں کی پیروی کی ہے اور ایران نے فرانسیسی مدارس کی۔(۶) لیکن ہر کہیں جدیدیت زدہ طبقے اس امید میں بیٹھے ہیں کہ کہیں سے کوئی بھی چیز چہرہ نُما ہو تاکہ یہ اسے اختیار کرسکیں۔ایک دن یہ شے ”اثباتیت“ ہوسکتی ہے اور اگلے ہی روز اسٹرکچرل ازم (نسیبحیت)۔ کوئی شخص بھی اس بات کی زحمت نہیں اٹھاتا کہ وہ صحیح اسلامی طرز فکر کو اپنا سکے جو ایک غیر متبدل مرکز سے آغاز کار کرے اور ایک معروضی طریقہئ کار کو کام میں لاتے ہوئے ہر اس شے کی تحقیق و تفتیش کرے جو مغرب کی آندھی ہمارے رستے میں لا ڈالتی ہے۔ ہماری فکری فضا اتنی ہی مایوس کن ہے جتنی عورتوں کے فیشن کی فضا جہاں اکثر اسلامی ممالک کی عورتیں بہ حیثیت سعادت مند گاہکوں کے مکمل طور پر منفعل رہتی ہیں اور ہر اس شے کی اندھا دھند تقلید کرتی ہیں جو مٹھی بھر مغربی فیشن ساز ان کے لیے فیصلہ کرکے بنا ڈالتے ہیں۔ لباس کے فیشن اور فلسفیانہ اور فنی فیشن طرازی کے مسئلے دونوں میں جدیدیت زدہ مسلمانوں کا اس مرکز میں کوئی عمل دخل نہیں جہاں فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔