مغربی دنیا کے چیلنج اور عالمِ اسلام

یہ تحریر 878 مرتبہ دیکھی گئی

(2)

مغربی دنیا کے چیلنج اور عالمِ اسلام

آخری بات یہ ہے کہ ہمیں لازماً ان فکری اور روحانی چیلنجوں کی طرف جو جدید مغرب کی جانب سے معاصر مسلمانوں کو دیے گئے ہیں اور اس رول کی جانب جو اسلامی روایت ان چیلنجوں کا جواب دینے کے ذرائع کی صورت میں مہیا کر سکتی ہے، متوجہ ہونا چاہیے۔ جیساکہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ آج کی صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اگر کوئی شخص مغرب کی جانب سے اسلام کو دیے گئے چیلنجوں پر اور عمومی طور پر تہذیب جدید پر گفتگو کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے کام کا آغاز شمشیر فرقان کو ہاتھ میں لے کر اور ایک طرح کی ”فکری بت شکنی“ سے کرنا ہو گا اور دھرتی کو ان تمام بتوں سے پاک کرنا ہو گا جنھوں نے معاصر منظر نامے کو گدلا دیا ہے۔ جدید تہذیب، خواہ مغرب میں ہو، خواہ اپنے طغیان کی صورت میں مشرق میں، اس بات پر نازاں ہے کہ اس نے تنقیدی ذہن اور معروضی تنقید کی قوت کو ارتقا بخشا ہے     حال آنکہ بنیادی طور پر یہ معلوم تہذیبوں میں سب سے کم تنقید مائل تہذیب ہے۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو سچے شعور امتیاز سے کوسوں ہٹی ہوئی ہے کیوں کہ اس کے پاس وہ معروضی پیمانے نہیں ہیں جن سے یہ اپنی سرگرمیوں کا محاکمہ کر سکے۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو بنیادی اصلاح کی ہر سعی میں ناکام ہے کیوں کہ یہ اپنی ہی اصلاح سے کام کا آغاز نہیں کر سکتی۔

ایک روایتی اسلامی ضرب المثل ہے کہ شیطان تیز دھار سے متنفر ہے۔ اس قدیم مقولے میں ایک گہری صداقت پوشیدہ ہے جو آج کی صورتِ حال پر براہ راست منطبق ہوتی ہے۔ چوں کہ شیطان ہر جگہ موجود ہے سو وہ ہر جگہ تیکھے کناروں اور نوک کو کند کر کے، جن تک اس کی رسائی ہو سکتی ہے، اپنے اثرات ظاہر کرتاہے۔ چناں چہ اس ماحول میں جس پر اس کے واضح اثرات موجود ہوں، حق و باطل کی واضح تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اصولوں کی تیز دھاریں گھس جاتی ہیں اور ان کا نکھرا سراپا بتدریج مدھم ہوتا چلا جاتا ہے۔ خیر و شر کا امتیاز پہلے سے زیادہ مبہم ہو جاتا ہے حتیٰ کہ مقدس رسوم عبادات اور عقائد جو انسان پر خدا کی نہایت قیمتی عنایات میں شمار ہوتی ہیں، اس فرسودہ کار اثر کے نتیجے میں جو ہر شے کو غیر واضح اور مبہم بنا ڈالتا ہے، بے ہیئت اور غیر معین ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جدید دنیا کی جانب سے اسلام کو پیش آمدہ چیلنجوں پر گفتگو کرتے وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ فکری تنقیح و امتیاز کے اُن انتھک اور سخت گیر اطلاقات کو جن کی بنیاد ”شہادۃ“ پر ہو، (عربی میں لکھا جائے تو ”شہادہ“ کا سرا حقیقتاً تلوار کی شکل اختیار کر لیتا ہے) کام میں لاتے ہوئے اس دھند کا پردہ چاک کیا جائے۔

اس ”شمشیرِ شہادت“ کا استعمال ضروری ہے تاکہ جاہلیت جدیدہ کے ان جھوٹے بتوں کو توڑا جاسکے جن کے سامنے ہمارے اکثر مسلمان، ان کی نوعیت کا اندازہ لگائے بغیر گھٹنے ٹیکتے چلے جا رہے ہیں۔ اس شمشیر کا استعمال ضروری ہے تاکہ ان تمام باطل افکار اور خود ساختہ نظاموں کا قلع قمع کیا جا سکے جن کی جدیدیت زدہ مسلمانوں کے ذہنوں پر پھپھوندی جم چکی ہے۔ یہ شمشیر معاصر مسلمان کی روح کی تراش خراش میں معاون ہو گی اور اسے ایک غیر متشکل ڈھیر سے ایک تیکھے بلور میں بدل دے گی جو نورِ ربانی سے مستنیر ہوتا ہے کیوں کہ بلوراصل میں اپنے تیز اور واضح ترشے ہوئے کناروں کی بدولت ہی چمکتا ہے اورروشنی بانٹتا ہے۔

یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ آج کی صورت حال میں جدید دنیا پر مابعدالطبیعیاتی اور مذہبی اصولوں پر مبنی تنقید اپنی عمیق ترین سطح پر ایک طرح کا کارِ خیر ہے اور اسلام کی سب سے مرکزی نیکیوں کے عین مطابق ہے۔ روایتی اسلامی زبانوں میں ”ادب“ کے مفہوم میں بیک وقت، خوش اخلاقی، خوش اطواری، تہذیب نفس اور ادبیات سب شامل ہیں۔ چند مسلمان ایسے بھی ہیں جو نقد و تنقیح سے اس لیے باز رہتے ہیں کہ مبادا انھیں غیر شائستہ اور ادب سے عاری سمجھا جائے۔ ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پیغمبر اسلامؐ نہ صرف یہ کہ ”ادب“ پر اس کی کلیت میں حاوی تھے بلکہ وہ حق و صداقت کو بغیر لگی لپٹی کے پیش فرماتے تھے۔ ان کی زندگی میں ایسے لمحے بھی آئے جب انھوں نے انتہائی قطعی رویے کا اظہار فرمایا اور ادب پر صداقت کو کبھی قربان نہ کیا۔ اسلام نے کبھی اس بات کی تعلیم نہیں دی کہ انسان اتنا مؤدب ہو کہ دو جمع دو کو پانچ تسلیم کرلے۔ حقیقت یہ ہے کہ ”ادب“ حق کے، ہر حالت اور ماحول میں، ادراک وادعا کی تکمیل کرتا ہے۔ ایک دفعہ شمالی افریقہ کی ایک ممتاز روحانی شخصیت نے کہا تھا:

”کیا تم جانتے ہو کہ ”ادب“ کیا ہے؟ اس کا مفہوم ہے اپنی تلوار کو تیز دھار مہیا کرنا تاکہ جب تمھیں کوئی عضو کاٹنا ہو تو زیادہ اذیت نہ ہو۔“

مسلمانوں کو مغرب کے بارے میں اور اسلام کی جانب اس کی پیش کردہ دعوتِ مبارزت پر گفتگو کرتے ہوئے اسی قسم کے زاویہء نگاہ کی ضرورت ہے۔ حق و صداقت کا نہ صرف یہ کہ ہماری جانوں اور جسموں پرحق ہے بلکہ اسے ہمیں یہ حکم دینے کا حق بھی حاصل ہے کہ ہم دوسروں کو دعوتِ خیر دیں اور جب اورجہاں بھی ممکن ہو اس کی تشریح و توضیح کریں۔ آج ہمیں ناقد بننے کی ضرورت ہے __ خواہ سخت گیری کی حد تک ہی کیوں نہ ہو __ کیوں کہ اب اس قسم کا رویہ شاذ کے حکم میں داخل ہو گیا ہے اور اس کی شدید ضرورت ہے۔

آج دنیاے اسلام میں جس چیز کی کمی ہے وہ ہے جدید دنیا میں ہونے والے واقعات کا بھرپور معائنہ اور محتاط تنقید۔ اس قسم کی تنقید کے بغیر مغرب کا مقابلہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں ہو سکتی __ جدیدیت زدہ مسلمانوں کے تمام ایسے بیانات جو اس پیش کش اور ادعائیت سے شروع ہوتے ہیں:

”اسلام اور فلاں فلاں شے میں تطبیق کا طریقہ“ — وغیرہ وغیرہ __ ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔ خواہ یہ فلاں کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ ورنہ اسلام اور مغربی سوشلزم یا مارکسزم یا موجودیت یا ارتقائیت یا اسی قسم کی کسی بھی دوسری شے سے اسے تطبیق دینے کی تمام کوششیں اپنی تعمیر ہی میں صورتِ تخریب لیے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ اس قسم کی کوششیں کرنے والے   زیر نظر ازم یا نظام نامے کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں کلّی طور پر پرکھے بغیر ہی اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اسلام کو بجائے خود ایک مکمل ضابطہء حیات اور تناظر نہیں سمجھتے ___ ایسا تناظر جو اپنی جگہ مکمل ہے اور بنا بریں اسے کسی اور چیز کی نسبت اضافی یا نسبت توصیفی بنانے کا کوئی امکان نہیں خواہ اس چیز کو اسلام کی جگہ غیر شعوری طور پر مرکزی حیثیت دے دی گئی ہو۔ یہ لوگ اسلام کو ایک ایسے نظامِ حیات کے طور پر دیکھتے ہیں جو اشیاء کے بارے میں صرف جزوی زاویہء نگاہ رکھتا ہے اور اسے کسی جدید نظریے سے مکمل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آج کے رائج الوقت فیشنوں میں ہونے والی تیز تبدیلی، جس کے ذریعے ایک دن تو اسلامی سوشلزم، قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور اگلے ہی روز لبرل ازم یا کوئی دوسرا مغربی ”ازم“، بجائے خود اس قسم کے زاویہئ نگاہ کی بیہودگی اور سطحیت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ جو شخص بھی اسلام کے ڈھانچے کو اس کی کلیت میں سمجھتا ہے، یہ جانتا ہے کہ اسلام کبھی خود کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ کسی ایسے نظام فکر کے مقابلے میں جو اس سے اپنی الگ حیثیت رکھتا ہو یا اس سے متصادم ہو، اس کی (اسلام کی) اپنی حیثیت محض ایک ترمیم کنندہ یا معاون کی رہ جائے۔

مغرب کی کوکھ سے مختلف فیشن زدہ طرز ہاے فکر کم و بیش ایسی تیزی سے برآمد ہوتے رہتے ہیں جس تیزی سے موسموں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ان کے مقابلے میں جدیدیت زدہ مسلمانوں نے جو دفاعی اور معذرت خواہانہ زاویہء نگاہ اپنا رکھا ہے وہ ان کی تنقیدی حس اور فرقانی روح کی کمی ہی کا شاخسانہ ہے۔ عام طور پر، واضح کوتاہیوں پر ہی یا ایسی کوتاہی جس پر تنقید کرنا آسان ہو، تنقید کی جاتی ہے لیکن کسی شخص میں یہ ہمت نہیں کہ وہ کھڑے ہو کر ہمارے عہد کے بنیادی مغالطوں کو ہدف بنا سکے۔ اس بات کی نشاندہی کرنا بھی آسان ہے کہ روایتی مدارس میں طالب علموں کی زندگی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی لیکن اس بات پر ڈٹ جانا اور یہ کہہ گزرنا نہایت مشکل کام ہے کہ آج کے جدید تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کا بیش تر حصہ طالب علموں کے نفوس کے لیے کہیں زیادہ مہلک ہے بہ مقابلہ بعض مدارس کی حفظانِ صحت کے اصولوں سے عدم مطابقت رکھنے والی پرانی عمارات کے خطرات کے۔ اسلامی دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد شاذ ہے جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکیں اور عقل کلی اور روح کی شمشیر کے ذریعے اس کے اس چیلنج کی اصل و بنیاد کا جواب دے سکیں جو اسلام کو مغرب کی طرف سے درپیش ہے۔ آج ایسی ہی حالت ہے لیکن ایسی صورت حال کو باقی نہیں رہنا چاہیے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی دنیا میں ایک نئی فکری جماعت کی بنیاد نہ ڈالی جا سکے ___ ایک ایسے طبقے کی، جو اسلامی وحی کے پیغام سے میسر ابدی اقدار کی روشنی میں جدید دنیا پر معروضی تنقید کر سکے اور جدید انسان کی قابلِ رحم حالت پر (اور اس کی ہر لحظہ بڑھتی ہوئی تشویش ناک حالت پر جس کا اسے سامنا ہے) خدا کے عطا کردہ اسلامی خزانوں کو لٹا سکے۔

جیسا کہ پچھلے ابواب میں کہا جاچکا ہے، اسلامی دنیا میں آج اصلاً افراد کے دو ہی طبقے موجود ہیں جن کا تعلق مذہبی، عقلی اور فلسفیانہ مسائل سے ہے یعنی طبقہ علماء جن میں عام طور پر دیگر مذہبی اور روایتی مستند لوگ (مثلاً صوفیہ) شامل ہیں اور متجددین کا وہ طبقہ جسے اب بھی مذہبیات سے دل چسپی ہے۔ لیکن اب ایک تیسرا طبقہ بھی بتدریج وجود میں آرہا ہے جو علما کی طرح روایتی بھی ہے مگر جدید دنیا سے بھی آگاہ ہے۔ جہاں تک علماء اوردیگر روایتی روحانی شخصیات کا تعلق ہے، یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ وہ جدید دنیا اور اس کی پیچیدگیوں کا گہرا علم نہیں رکھتے۔ لیکن وہ اسلامی روایت کے امین اور محافظ ہیں اور ان کے بغیر روایت کا تسلسل ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جدیدیّین ان پر معترض رہتے ہیں کہ وہ مغربی فلسفہ، سائنس اور جدید معاشیات اور اس قبیل کے دیگر علوم کی باریکیوں سے واقف نہیں لیکن یہ تنقید جو عموماً بڑی سہولت سے کر دی جاتی ہے اکثر و بیش تر غلط سمت میں ہوتی ہے۔ گذشتہ صدی میں اسلامی دنیا میں سیاسی اور معاشی قوت پر جو لوگ حاوی تھے انھوں نے مدارس کو اس سمت میں پیش قدمی کرنے کا شاذ ہی موقع فراہم کیا کہ ان کے علما، جدید دنیا سے غلط اثرات قبول کیے بغیر، اس سے بہتر طور پر واقف ہو سکیں۔ چند مقامات پر جہاں مدرسے کے نصابات میں ترمیم کی کوششیں کی گئیں ان کی تہ میں بیش تر یہ مقصد پوشیدہ ہوتا تھا کہ کسی طرح روایتی نظام تعلیم کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا جائے کہ اس کا خاتمہ ہو سکے۔ نہ یہ کہ ان مدارس کے نصابات میں ایسے کورس شامل کیے جائیں جن کے باعث اسلامی تعلیمات کی روشنی میں طلبہ جدید دنیا سے متعارف ہو سکیں۔ علاوہ ازیں اس قسم کے ادارے بنانے کی کوششیں نہ ہونے کے برابر کی گئیں جو روایتی مدارس اور جدید تعلیمی درس گاہوں کے درمیان پل کا کام دے سکیں۔ بہرحال جدیدیّین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ علما کو ایسی چیزوں سے بے علمی کا طعنہ دے سکیں جن پر حاوی ہونے کا انھیں سرے سے کوئی موقع ہی فراہم نہ کیا گیا۔ جاری ہے۔۔۔۔۔