شمس الرحمٰن فاروقی کا ایک خط

یہ تحریر 2284 مرتبہ دیکھی گئی

۲ دسمبر ۲۰۱۲

برادر عزیز حنیف نقوی، سلام علیکم۔

          آپ کی تازہ کتاب ’غالب اور اور جہان غالب‘ میں نے بے انتہا دلچسپی سے پڑھی۔ یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہی نہیں، اردو نثر کے سنجیدہ، متین اور علمی اسلوب کا بھی عمدہ نمونہ ہے۔ میں اس کتاب کی تصنیف پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور اس کی اشاعت کے لئے آپ کے ناشر غالب انسٹیٹیوٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

          اس کتاب کا ہر صفحہ میرے لئے ایک جہان حیرت ہے۔ کس کس جگہ سے آپ نے مآخذ حاصل کئے ہیں، اور منتشر کڑیوں کو کس خوبی سے ملایا ہے! لگتا ہے کوئی کتاب، خواہ وہ کتنی ہی مجہول اور گم نام کیوں نہ ہو،لیکن جس کا تعلق موضوع گفتگو سے ہو، ایسی نہیں جو آپ کی نظر سے نہ گذری ہو اوراس کی تفصیلات آپ کو مستحضر نہ ہوں۔

          معاملہ صرف گمنام اور مجہول کتابوں کا نہیں، معاملہ یہ بھی ہے کہ کڑیاں جوڑنے کے لئے آپ نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے، ان کے نام یا موضوع سے متبادر نہیں ہوتا کہ یہ آپ کے لئے مفید مقصد ہو گی۔مثلاً غالب کے نام کے بارے میں (اسد اللہ، اسد اللہ الغالب، وغیرہ) کے بارے میں مالک رام صاحب مرحوم کے خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ غالب نے بہت شروع ہی میں ’اسد اللہ الغالب‘ لکھنے کا التزام کیا تھا، آپ نے  بتایا ہے کہ مثنوی ’باد مخالف‘ کے اس نسخے میں، جو مسعود حسن رضوی ادیب  صاحب کے مملوکہ مجموعہئ مکاتیب غالب میں شامل ہے اور جو کہ اب علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں محفوظ ہے، اس کے سر عنوان’یا اسد اللہ الغالب‘ لکھا ہوا ہے۔’باد مخالف‘ مطبوعہ صورت میں ہر جگہ دستیاب ہے۔ بھلا کون ہے جس نے وہ مخطوطہ دیکھا ہو، اور کون ہے جس نے مخطوطہ دیکھ کر اس کے بارے میں اتنی ذرا سی بات یاد بھی رکھی ہو؟ دوسری مثال یہ کہ جب حکیم احسن اللہ خان نے فارسی نثر نگاروں کا ایک گلدستہ ترتیب دینا چاہا تو انھوں نے غالب اور مومن سے ان کی نثر کے نمونے مانگے۔حالی کہتے ہیں کہ غالب نے حکیم موصوف کے خط کا جواب کلکتہ سے لکھا تھا۔یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں جس پر زیادہ دھیان ضروری ہو،اگروہ خط کلکتے سے نہیں بھی لکھا گیا تو کیا قباحت ہو گئی؟لیکن آپ کا مزاج چھوٹی سے چھوٹی بات کو نگاہ تحقیق سے دیکھنے اور اس کی حقیقت جانے بغیر مطمئن نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’انشاے مومن‘ میں ایک خط مومن کا ہے جو ۱۸۳۵ کا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن اس وقت حکیم احسن اللہ خان کی فرمائش (کہ اپنی نثر کا نمونہ بھیجئے)پوری نہ کر سکے تھے کیوں کہ ان دنوں وہ فریزرکی چیرہ دستیوں سے بہت پریشان تھے۔فریزر نے اپنے قتل (مورخہ ۲۲ مارچ ۱۸۳۵) سے ایک دن پہلے مومن کی ایک موروثی زمین ضبط کر لی تھی۔ لہٰذا اس خط سے ذیلی شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ حکیم احسن اللہ خان اپنا گلدستہ ۱۸۲۸-۱۸۲۹ میں نہیں، بلکہ ۱۸۳۵ کے آس پاس مرتب کر رہے تھے تھے۔لہٰذا حکیم صاحب کے نام غالب کے خط کی تاریخ ان کے قیام کلکتہ کے تمام ہونے کے بہت بعد کی ہے، اور یہاں حالی سے سہو ہوا ہے۔

          غالب کے ایک شاگر حضرت ولایت علی خان ولایت و عزیز کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ ان کے والدمنشی یحییٰ خان کے استاد کا نام مولوی احسان اللہ ممتاز اناوی تھا۔اس کے ثبوت میں مسعود حسن رضوی کا مضمون مطبوعہ ماہنامہ ’نیا دور‘ لکھنؤ بابت جنوری ۱۹۷۴ کا حوالہ دیتے ہیں۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسعود حسن رضوی صاحب مرحوم کا  وہ مضمون سینکڑوں لوگوں نے پڑھا ہوگا، لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ ہوگا جسے یہ مضمون یا د ہو،چہ جاے کہ اس کے مشمولات یاد ہوں۔ یہ حافظے کا کمال نہیں، کمال سے بڑھ کر کوئی چیز ہے جس کا اظہارآپ کی تحریروں میں مسلسل نظر آتا ہے۔اسی مضمون میں غالب کے ایک خط کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ یہ خط متعدد جگہ شائع ہوا (آپ نے تفصیل دی ہے جسے میں حذف کرتا ہوں)لیکن ’متفرقات غالب‘ مرتبہ مسعود حسن رضوی ادیب کے سوا اس کا متن کہیں بھی درست نہیں ہے۔بھلا غالب کے ایک فارسی خط کے متن کی درستی کا اس قدر اہتمام اور معلومات آج حنیف نقوی کے سواکس بندہئ خدا کی علمی لیاقت کا کرشمہ ہو سکتا ہے؟       

          ’بنارسی کی دوستی‘ نامی مضمون میں آپ نے جس تفحص اور دقت عقل سے کام لے کر ’بنارسی‘ کی شخصیت کو متحقق کیا ہے اس کی داد میں اپنے مضمون’حنیف نقوی کی جاسوسیاں‘  میں دے چکا ہوں۔یہ مضمون آپ کی نظر سے گذرا ہوگا۔لیکن وہاں دو باتیں  بخوف طوالت میں نے نہیں لکھی تھیں، ایک تو یہ کہ آپ نے بتا یا ہے کہ یہ’بنارسی‘ شخص (جس کا نام عزیز ہے)ایک مثنوی کا مصنف ہے اوراس کا  واحدقلمی نسخہ جو بخط شاعر ہے،رضا لائبریری رام پور میں محفوظ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسی شخص کے بارے میں غالب نے اپنے خط میں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ بظاہر ُمدَبِّر  (یعنی باب تفعیل سے بر وزن مفعل ہے)۔ اور اس لفظ نے قاضی عبد الودود جیسے شخص کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا کہ اس ’مدبر‘کے بارے میں وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ آپ نے یہ کہہ کر معاملہ بالکل صاف کر دیا کہ یہ لفظ در حقیقت مُدبِر(یعنی باب افعال سے، بر وزن مفعل یا مخلص ہے) اور اس کے معنی ہیں ’افلاس اور ادبار میں مبتلا‘۔

          خط بہت طویل ہورہا ہے اور مجھے زیادہ لکھنے کی تاب بھی نہیں،کہ طبیعت پوری طرح درست نہیں، لہذا صرف ایک اور مضمون کا ذکر کرتا ہوں اور اسے تمام کرتا ہوں۔یہ مضمون مرزا عاشور بیگ کے بارے میں ہے جنھیں غالب نے ایک خط میں اپنا بھانجا لکھا ہے اور جوسنہ ۱۸۵۷ کی دارو گیر میں انگریزوں کے ہاتھوں جنگ میں شامل تھے اور بعد میں شہید ہوئے تھے۔ان کے حالات بظاہر معدوم ہیں، اور بظاہر یہ کوئی ایسے شخص بھی نہیں جن کی تفصیلات میں کسی کو بہت دلچسپی ہو، لیکن غالب کے طالب علموں کے لئے ان کی کچھ اہمیت ضرور ہے۔ یہ آپ کی دقت نظراور تلاش اور وسعت حافظہ تھی جس کی بنا پر ہمیں معلوم ہو سکاکہ مرزا رفیع بیگ وحشی (خدا جانے یہ کون صاحب ہیں۔ میں فارسی کے دو شاعروں مرزا رفیع واعظ اور حسن بیگ رفیع سے ضرورواقف ہوں۔ بھلا رفیع بیگ وحشی کا دیوان کس نے دیکھا ہے)کے دیوان اورعاشور بیگ کے ایک ذرا کم عمر معاصرسرور الدولہ آغا مرزا بیگ کی خود نوشت میں مرزا عاشور بیگ کا ذکر ملتا ہے۔ آفریں، صد آفریں۔

          اس کتاب کے لئے میں آپ کو جس قدر مبارک باد دوں، کم ہے،کہ اس کی بدولت مجھے انیسویں صدی کی ادبی تاریخ کے چندایسے گوشوں اور شخصیتوں کے بارے میں معلوم ہوسکا جن کے حالات تو کیا، جن کا نام بھی ہم میں سے اکثرت کے لئے پردہئ خفا ہی میں رہتا اگر یہ کتاب نہ ہوتی۔

          امید کرتا ہوں کہ اب آپ کی طبیعت مکمل طور پر بہتر ہو گی۔اس خط کی نقل جناب صدیق الرحمٰن قدوائی کی خدمت میں روانہ کر رہا ہوں۔

          آپ کا،

          شمس الرحمٰن فاروقی۔

          پروفیسر حنیف نقوی، محلہ قضیانہ،

          سہسواں 243 638

          نقل بخدمت جناب صدیق الرحمٰن قدوائی۔

          نوٹ

          یہ خط میں نے حنیف نقوی مرحوم کو ان کے انتقال کے چند روز پہلے لکھا تھا۔اغلب ہے کہ انھوں نے اسے دیکھ لیا ہو گا، لیکن اس امکان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مرحوم کو خراج عقیدت کے طور پر اس خط کی اشاعت مناسب ہو گی۔

جنوری ۲۰۲۰                         شمس الرحمٰن فاروقی