ہمارے جسم بجھے چیتھڑوں کی صورت ہیں
پروستے ہیں جنہیں چاندنی کے پھاہوں پر
بِھگو بِھگو کے دَریدہ بدن کی ہر دَھجّی
ہم آفتاب کے چہرے سے راکھ پونچھتے ہیں
سیاہ رات کو اَب کِس اَمر جلدی ہے؟
ابھی تو زخم دُھلے بھی نہیں ہیں سُورج کے
ابھی تو پِچھلی تگ و تاز کی ہَزیمت سے
بجھا ہوا ہے بدن خاورِ تَیَقُن کا
ابھی تو ہم نے اسے چاندنی کے چشمے پر
ابھی تو ہم نے اسے لوریوں کے آنچل میں
لپیٹ کر نہیں رکھا کہ موند لے آنکھیں
کہ نیند اِسکے بَدن میں بَھرے نَئی چَشمک
ابھی تو اِس کا بدن ٹوٹتا ہے اینٹھن سے
شبِ سیاہ کو پر کِس اَمر کی جلدی ہے؟
کہ اس نے کوچ کیا خیمہ گاہ سے اِک دم
اسے تو نیند بھی آتی نہیں کہ سوجائے
شبِ سیاہ!
ہمارے بدن تو اُترن تھے
کسی خیال کی واماندگی کے راندے ہوئے
ہم ایسے لوگ کہاں روشنی کے لائق تھے
ہمارے ساتھ سِتم جو ہوا اُسے چھوڑو
ہمیں گِلہ ہے ہمیں شَب سے مُہلتیں نہ مِلیں