دھواں

یہ تحریر 41 مرتبہ دیکھی گئی

“اچھا! رک جاو میں گھر سے باہر چلا جاتا ہوں”
والد صاحب نے یہ کہتے ہوئے عثمان کو روکنا چاہا مگر وہ گھر سے باہر نکل گیا۔
“تینوں کینی واری آکھیا اے کہ منڈے دے ہوندیا اپنی اس سوغات نوں نہ سلگایا کر مگر تینوں تے کوئی فرق ای نئیں پیندا۔ہن پتا نئیں کیتھے گیا ہونا اے۔ روٹی وی نئیں کھادی تے رس کے چلا گیا۔۔۔”
عثمان کی والدہ شوہر پر برابر دل کا بھڑاس نکالتے چلی گئی۔
عثمان کا والد انتہائی غصے کا مالک تھا، ذرا سی بات پر آسمان سر پر اٹھا دینا اس کا وتیرہ تھا۔ لوگ بھی اس سے خائف رہا کرتے تھے۔ سبھی کو ایسے ہی لگتا تھا کہ یہ بندہ بے حس ہے اسے کسی سے سروکار نہیں سوائے اپنے۔ خود غرضی کی انتہا دیکھنی ہو تو اس بندے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دشنام طرازی تو جیسے ورثے میں ملی تھی۔ وہ شروع سے ایسا ہر گز نہیں تھا اپنوں کے ستم اور بھائیوں کی بے وفائیوں نے اسے بچہ بنا دیا تھا۔ بچہ اس لحاظ سے کہ وہ خود ہر کسی کو باتیں کر لیتا تھا جس کی وجہ سے آپس میں رنجشیں چلا کرتی تھیں مگر دوسرے ہی دن وہ انھی کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہوتا تھا۔ اسے حریص کہہ لیں یا کچھ بھی کوئی بھی بندہ جس نے اس کی انتہا درجہ کی بے عزتی کی ہو بس ایک کپ چائے سے وہ موم ہو جایا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عثمان کی والدہ نے انھیں اپنے جیون ساتھی کے طور پر منتخب کیا۔ عثمان کی والدہ کی داستان حسرت پھر کبھی سناؤں گا مگر ج تو عثمان کے والد کی بات بتانا مقصود ہے۔
عثمان بھی ایسا ہر گز نہیں تھا وہ اپنے باپ سے ہمیشہ خفا رہا کہ اسے والد سے بے حد شکوے تھے مگر دل سے وہ اپنے والد کو ہمیشہ محبت کیا کرتا تھا۔ جیسے باپ کو غصہ ورثے میں ملا تھا ایسے ہی اسے بھی وراثت میں غصہ ملا تھا۔
آج جو کچھ ہوا سب کو یہی تھا کہ معمول کا واقعہ ہے۔ سب کچھ رفع دفع ہو جائے گا۔ نہ عثمان سگریٹ کے دھوئیں سے گریز کر پا رہا تھا نہ اس کا والد اسے چھوڑ رہا تھا۔
ایک سگریٹ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور دوسرا سگریٹ کے ساتھ گزارا کر نہیں سکتا۔ بہ ظاہر ایک معمولی سا واقعہ معلوم ہوتا ہے مگر یہ دو مختلف مزاجوں کی باہمی تفاوت کا خوب مظاہرہ تھا۔
آج کے واقعے کے بعد اس کے والد نے عثمان کے آنے کے بعد سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنا شروع کر دی۔ ہر چند انھیں ہر وقت یہی ہوتا کہ ابھی گھر سے باہر نکلے تو میں اپنی طلب سلگا لوں مگر عثمان گھر میں رہتا۔ مجبورا والد کو یا تو واش روم میں پناہ لینا پڑتی یا پھر ہوا خوری کے لیے گھر سے باہر تشریف لے جانا پڑتا۔
عثمان کے والد کے اس عمل پر والدہ جہاں پر مسرت تھی وہیں اسے کبھی کبھار اپنے شوہر کی کشش بھی کھینچ لیا کرتی تھی کہ بے چارا باہر چلا جاتا ہے۔ مگر اسے بھی سوچنا چاہیے کہ اسے جب نہیں پسند تو خیال کر لیا کرے کہ چھوڑ ہی دے۔ اسی کے بھلے کی بات ہی تو ہے اگر نہ پیے گا تو اسی کی صحت بحال رہے گی یوں تو اپنی زندگی کے ساتھ بھی کھیل رہا ہے۔
عثمان صبح سے رات گئے تک کام کرتا رہتا تاکہ گھر والوں کی بنیادی ضروریات کو ہر طرح سے پورا کرے۔ وہ دن رات محنت کرتا۔ بعض اوقات تو اس قدر مصروفیت کے باعث کھانے پینے سے ماورا ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی صحت بھی خراب ہونے لگتی۔ ماں فکر مند رہتی کہ دن رات کھپتا رہتا ہے۔ زندگی میں سکون نام کی کوئی چیز تو میسر نہیں وہ سکی۔ باپ سے عثمان کے اکھڑے اکھڑے رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ والدہ سے بھی کہنے لگتا کہ جب پتا چل گیا تھا کہ یہ بندہ تیری بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکے گا تو پھر چھوڑ ہی دیتی۔ والدہ اس کے اس طرز کلام پربس کہہ دیتی:
“یہ کہنا آسان ہوتا ہے کرنا بہت مشکل۔ ویسے بھی ہمارے وقتوں میں روپے پیسے کو اہمیت ویسی نہیں دی جاتی تھی جیسے تمھارے دور میں دی جانے لگی ہے۔ خود ہی دیکھ لے اچھا خاصا تو ہے مریم تجھے کیوں چھوڑ گئی صرف اس لیے کہ تو پڑھا لکھا ہے مگر اس کی خواہشات پوری نہیں کر سکے گا۔۔۔ویسے بھی تیرے باپ میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اسے زمانے کا برا ترین شخص ہونے کے باوجود خود سے جدا نہیں ہونے دیتیں۔۔۔”
مریم اور عثمان ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے مگر مریم نے خود ہی ایک دن کہہ دیا کہ عثمان کیا تم نہیں چاہتے کہ میں کسی اچھی جگہ رہوں اور زندگی گزاروں۔ بس یہ وہ سوال تھا کہ جس پر کوئی عاشق مرتا مر جائے مگر ہمیشہ معشوق کے حق میں فیصلہ سنا دیتا ہے۔
جس شخص کا اس نے انتخاب کیا اس کے پاس نہ صورت تھی نہ علم و حکمت بس یہ تھا کہ جی اس کے باپ کی بے انتہا دولت تھی جس کا وہ اکلوتا وارث تھا۔
عثمان اس بات پر بھی اپنے ہی والد پر غصہ ہوتا اندر ہی اندر کڑھتا اور غصے میں کبھی کبھار سارے گھر والوں سے کہہ دیتا کہ اگر انھوں نے کچھ کیا ہوتا تو آج مریم کی شادی بھی مجھ سے ہو جاتی۔۔۔
اس کی والد سے کرختگی کی سب سے بڑی وجہ ہی اس کی صحبت تھی۔ جب وہ دیکھتا کہ اس کے قرب و جوار میں سبھی کیا تھے اور کیا سے کیا ہو گئے تو بس کیا تھا ان سب کی ایک ہی وجہ اسے نظر آئی اور وہ تھی اس کا والد۔ جنھوں نے ساری زندگی خود کچھ نہ کیا بس بیوی کو ہی کام کرنے دیا اور اولاد بڑی کوئی تو بس اولاد کام میں گھس گئی۔ وہ چیختا کہ ایسے تو ساری زندگی لگا رہوں پھر بھی اپنی خواہشات نہ پوری کر سکوں گا۔ جو کچھ کر رہا ہوں اس سے تو بس ضروریات زندگی ہی مشکل سے پوری ہوں گی۔ والدہ اسے دلاسہ بھی دیتی کہ جب ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو خواہشات کا کیا کرنا ہے ویسے بھی خواہشات تو انسان کو غلام بنا دیتی ہیں زیادہ خواہشات انسان کے سکون کی دشمن ہوتی ہیں۔ والدہ کا فلسفہ تسکین بھی اسے تسکین نہ پہنچا پاتا اسے تو اپنی موجودہ حالت کو بہتر بنانا تھا۔ گھر آتا تو باپ سے اس کی تلخ کلامی بڑھنے لگی۔ گھر میں آتے ہی اگر کہیں سگریٹ کے دھوئیں کی بو محسوس کرتا تو بس پھر کیا ہوتا وہ آسمان سر پہ اٹھا دیتا والد کو طعنے دیتا کہ کیا ہی کیا ہے ہمارے لیے؟
اوپر سے سگریٹ پھونکتے رہتے ہو؟
یہ ہے وہ ہے؟
والد اپنا سا منھ لے کر والدہ کی طرف دیکھتا وہ خاموش رہنے اور سگریٹ بند کرنے کا اشارہ کر دیتی۔
عثمان کی والد سے اس درجہ سخت کلامی رہنے لگی کہ یہ تلخ کلامی کب نفرت کے پہاڑ میں بدل گئی پتا ہی نہیں چلا۔
عثمان نے مقابلے کے امتحانات کے لیے گھر چھوڑ دیا اور لاہور چلا گیا وہاں وہ خوب محنت کرنے لگا۔ گھر والوں کو پیسے بھیج دیتا مگر گھر نہ آتا کہ جب بھی گھر آتا اس کی والد سے بس اسی بات پر تلخ کلامی ہو جاتی تو اس نے گھر آنا ہی چھوڑ دیا۔
وہ امتحانات دے چکا تو اسے گھر سے والدہ نے کال کر کے بتایا کہ گھر آجاؤ تیرے ابا جی بہت بیمار ہیں۔ وہ جانتی تھی کہ اسے اپنے والد سے انس ہے ہی نہیں مگر پھر بھی اس نے عثمان کو بتا دیا کہ تیرے والد تجھے یاد کرتے رہتے ہیں۔
امتحان کے نتائج کے ایک روز قبل وہ گھر آیا۔ والد کی صحت بہت خراب ہو چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ وہ بستر مرگ پر تھے بس سانسیں چل رہی تھیں کہ جیسے بیٹے کا ہی انتظار کیا جا رہا ہو۔
“بانو دے ابا!. اٹھو ویکھو تہاڈا منڈا آیا جے جینھوں دنے راتی یاد کردے ریندے او تہاڈا عثمان”
والدہ نے روتے روتے عثمان کے والد کو نیم بے ہوشی سے ذرا ہوش میں لانے کے لیے مخاطب کیا۔
والد کی یہ حالت دیکھ کر اس کا دل بھی قدرے پسیج گیا مگر پھر بھی نفرت کا پہاڑ بے مروتی پر تلا رہا اور من ہی من میں کہنے لگا کہ ہمارے لیے کیا ہی کیا؟ لوگوں کے والد ستر کیا اسی اسی سال کی عمر میں بھی چاک و چوبند ہیں اور ایک یہ ہیں کہ پچاس میں ہی۔۔۔۔۔
“عثمان! میرا پتر آگیا اوے میرا افسر پتر آگیا۔۔۔۔مینوں معاف کر دے یار! میں تہاڈے واسطے ککھ کنڈاں نئیں کیتا۔او میرا دل وہ کردا سی کہ تہانوں دنیا جہان دی عیش کراواں مگر کی کردا؟؟؟ سارا گناہ میرا ای اے۔۔۔ تیری ماں دسدی سی پئی توں اپنے امتحاناں لئی باہر گیا اے میں تیرے واسطے اللہ نوں رو رو کے آکھیا ای کہ میرے پتر نوں افسر بناوی تاکہ اوہندے سارے گلے دور ہو جاون۔۔۔ویکھی تینوں اللہ نے بڑا دینا ای۔ تینوں میرے نال اے شکایت سی ناں کہ میں سگریٹ لانا واں۔ یار! میں وی ایس توں جان چھڑان دی کوشش کردا مگر جان نہیں چھٹدی۔ ویکھ لے فیر وی تیری خاطر میں سگریٹ ہن بہت کٹ کر دتے نیں۔ کیوں بانو دی اماں؟
اپنی بات کی تائید کے لیے سگریٹ کی ڈبی عثمان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس کی والدہ سے مخاطب ہوئے۔ والدہ نے بھی باپ بیٹے کی پہلی دفع اتنی بیٹھک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھیگی آنکھوں سے ہاں کہہ دیا۔
“آج توں نہ انداں تے یقین من میں اللہ نال وہ خفا رہنا سی ہن توں آگیا اے تو سکول آجاوے گا۔ یار ! ہو سکے تے مینوں معاف کر دے۔۔۔”
اتنا بول کر اپنے ہاتھ معافی جیسے جوڑنے کے
انھوں نے اٹھائے ہی تھے کہ قضا نے دبوچ لیا۔۔۔۔
عثمان بھاگا ڈاکٹر کو لایا۔ ڈاکٹر اپنی سی کرتے رہے مگر سب بے سود۔
آج پہلی بار عثمان کو باپ سے محبت سی ہو رہی تھی۔ وہ آج پہلی بار اس نہج پر پہنچا تھا کہ باپ جیسا بھی تھا میرا باپ تھا؛ میرا ناز تھا؛ میرا فخر تھا؛ میرا غرور تھا؛ میرے بعد میرے گھر کا محافظ تھا۔ وہ باپ کے مسکراتے چہرے کو دیکھتا اور روتا کہ مجھے معاف کردو ابو! یہ پہلی بار اس کے منھ سے لفظ نکلا تھا۔
“ابو! یار تجھے سمجھنے میں تیرے عثمان نے دیر کر دی۔ ابو اٹھو ناں یار ابو اٹھو۔۔۔۔!”
“عثمان صاحب! ہیلو!!!”
سالانا ڈپٹی کمشنروں کے عشائیہ کے موقع پر مونال ریستوران کے سب سے پر کشش مقام پر بیٹھے دوسرے ڈپٹی کمشنر نے عثمان کو مخاطب کرتے ہوئے جنجھوڑا۔
اک دم سے عالم خیال سے عالم حقیقت میں آتے ہوئے:
“جی جی! بس سگریٹ کا دھواں مجھے کچی دیر کے لیے ماضی کے دھندلکوں میں لے گیا تھا”
یہ کہہ کر عثمان نے جیب سے والد کی چھوڑے ہوئے سگریٹ کی ڈبی میں سے ایک سگریٹ سلگایا اور لمبا کشش لیتے ہوئے اپنے وجود پر سگریٹ کا “دھواں” دم کے جیسے پھونکتے ہوئے سونگھتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم: ع ع عالم