غزل

یہ تحریر 90 مرتبہ دیکھی گئی

پہلے پہل چراغ بڑا سٹپٹائے گا
پھر جو ہوا کہے گی وہی مان جائے گا

جن کے دلوں میں زمزمہ پیرا رہا ہو عشق
ان کو زباں کا لوچ بھلا کیا لبھائے گا

بستر کی سلوٹوں میں بسے کروٹوں کے راز
اوندھا پڑا چراغ تمہیں کیا بتائے گا

میرا کیا کسی کو کہاں سازگار تھا
میرا کہا کسی کو کہاں راس آئے گا

بستی کے راستے میں اٹھا ناگہاں غبار
اک بدگماں چراغ سے کیا داد پائے گا

یہ. باغ یہ چراغ یہاں کچھ نیا نہیں
پھر بھی ادھر جو آئے گا ثابت نہ جائے گا

مصرع کہو کہ جس کی سنے بازگشت وقت
ورنہ یہ سب کہا سنا بے کار جائے گا

دستک دروں پہ دیجئے دیوار پر نہیں
دیوار کے لکھے کو کیوں کر مٹائے گا