میر،بورخیس اور شطرنج

یہ تحریر 53 مرتبہ دیکھی گئی

میر،بورخیس اور شطرنج
(شمس الرحمن فاروقی کی یاد میں)
میر کے دو شعروں میں شطرنج کا ذکر آیا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ شطرنج پر میر نے دو شعر کہہے ہیں۔
جہاں شطرنج با زندہ فلک ہم تم ہیں سب مہرے
بسان شاعر نو ذوق اسے مہروں کی زد سے ہے
یاں تو اتی نہیں شطرنج زمانہ کی چال
اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے
پہلے شعر کا تجزیہ شعر شور انگیز کی چوتھی جلد میں موجود ہے۔یہیں سے یہ شعر میرے حافظے کا حصہ بنا ۔ اتنا فکر انگیز تجزیہ پڑھنے کے بعد شعر سے متعلق کوئی نیا پہلو پیدا کرنا مشکل ہے۔یہ شعر میر کے دوسرے اشعار سے بہت مختلف ہے اس حقیقت کے باوجود کہ میر نے فلک اور آسمان کو دیگر اشعار میں اپنے مخصوص انداز سے پیش کیا ہے ۔شعر کے معنوی پہلوؤں کا رشتہ فرد واحد کے ذاتی احساس سے بھی ہے ۔ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کائنات کی اس بساط پر محفوظ نہیں ہے۔ وہ فلک کی نگاہ سے بچ نہیں سکتا ۔فلک کا شکوہ ہماری شعری روایت کا حصہ ہے ۔شمس الرحمن فاروقی نے فنی اور فکری دونوں اعتبار سے شعر میں جو خوبیاں تلاش کر لی ہیں وہ گہرے غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے شطرنج کے کھیل کی باریکیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔انہیں عمر خیام سے منسوب ایک رباعی کا خیال آ تا ہے اور شیکسپیئر کے ڈرامے کنگ لیئر کا حوالہ بھی دیا ہے۔ شیکسپیئر اور عمر خیام کے یہاں انہیں وہ خوبی نظر نہیں آتی جو میر کے شعر میں ہے۔شمس الرحمن فاروقی کی میر تنقید میں جہاں کہیں کائنات کے بارے میں میر کا کوئی مضمون زیر بحث آیا ہے،وہاں میر کی بصیرت ایک خاص سطح سے کلام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔یہ سطح زمینی سطح سے بلند ہونے کے باوجود وہ زندگی کے عام تجربے سے خود کو الگ نہیں کر پاتی۔یہی وجہ ہے کہ اس شعر کے تعلق سے جہاں اور بہت سی خوبیوں کا انہوں نے ذکر کیا ہے،یہ بھی بتایا ہے کہ میر نے زندگی کے مانوس اور عام تجربے کو شعر کا موضوع بنا کر اسے کائنات پر پھیلا دیا ہے یا اسے کائنات میں تبدیل کر دیا ہے۔
میر یر کا دوسرا شعر پہلے شعر کے مقابلے میں رکھا نہیں جا سکتا۔ گرچہ اس میں بھی زندگی کا عام سا تجربہ موجود ہے۔لفظ شاطر تہذیبی زندگی میں ایک خاص مفہوم کا حامل ہے۔ بالاآخر ذہن شطرنج کی طرف چلا جاتا ہے۔میر کا شعر بظاہر اطلاع فراہم کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر اس میں جو بصیرت پوشیدہ ہے وہ خوف پیدا کرتی ہے ۔ لیکن اس خوف کے اظہار میں وہ شدت نہیں جو میر سے مخصوص ہے ۔شعر کا متکلم کب سے مہروں کے مارے جانے کا تماشا دیکھ رہا ہےیہ بھی محسوس ہوتا ہے کے جیسے اب اسے اپنی باری کا انتظار ہے یا اس کھیل میں مات کھا جانے کی روایت نے اسے اس یقین کی دولت سے نوازا ہے۔بازندو کا مطلب کھیلنےوالا اور کھلاڑی ہے ۔لیکن فارسی لغت میں اسکا مطلب شکشت خوردہ اور مغلوب بھی درج یے۔ شکست خوردہ اور مغلوب ہونا مات کھا جانے کا لازمی نتیجہ ہے ۔ یہ اجتماعی تجربے کائنات کی تشکیل کے ساتھ شروع ہو گیا تھا ۔ “ہم تم ہیں سب مہرے” اس ٹکڑے میں انسانی زندگی ہے ،کسی کی کوئی تخصیص نہیں. خوف کا یہ عنصر شاطرنو ذوق کی وجہ سے کچھ دبا سا ہے ۔پھر بھی خوف ظاہر تو ہو ہی جاتا ہے۔ شطرنج کے جو نئے کھلاڑی ہیں اور جن میں اس کھیل کا نیا ذوق پیدا ہوا ہے ان کا مقدر مات کھا جانا ہے۔ہوشیاری جو بظاہر ابتدا میں کامیابی کا پیغام لے کر آتی ہے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔یہی وہ المیہ ہے جو دنیا کی بساط کا مقدر بھی ہے اور حوالہ بھی ۔شمس الرحمن فاروقی نے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا.

“اناڑی کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ اسے مہرے مارنے کا شوق بے حد ہوتا ہے۔اس کے پاس کوئی نقشہ کوئی منصوبہ نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی چال کے عواقب کو سمجھتا ہے۔وہ بس اندھا دھند مارنے مرنے پر تیار رہتا ہے چاہے اس کا انجام خراب ہی نہیں کرے اناڑی شطرنجی سمجھتا ہے کہ مہرے مارنا ہی اصل کھیل ہے فریق مخالف کے جتنے مہرے مریں گے میں اتنا ہی زور آور ہو سکوں گا ۔دیکھیے شاہد کو میر نے کس خوبصورتی اور تکامل کے ساتھ شعر میں داخل کیا ہے اب یہ پوری انسانی صورتحال کا استعارہ بن گیا ہے”
یہی وہ نکتہ ہے جو میر کے شعر کو انسانی کے ساتھ ساتھ کائناتی بنا دیتا ہے۔اناڑی شطرنجی کا مسئلہ دراصل اس بصیرت سے محروم ہونا ہے۔یہ بصیرت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب بازی ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔لیکن نئے ذوق کا جو شطرنجی ہےاس سے کسی کو ہمدردی نہیں۔اس عمل کو لایعنی ڈرامے سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔یعنی اس کا کوئی حاصل نہیں۔ لاحاصلی کا کھیل ہے جو انسانی زندگی سے مشابہ ہے۔اس لحاظ سے شطرنج کا کھیل انسانی زندگی کی لاحاصلی کا استعارہ بن جاتا ہے۔
بورخیس کی ایک نظم “شطرنج” ہے جس کا اجمل کمال نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔میرے پیش نظر انگریزی کے دو تراجم ہیں معلوم نہیں کہ اجمل کمال کے پیش نظر کون سا انگریزی متن تھا۔اس نظم کو پڑھتے ہوئے میر کے شعر کا خیال آیا ۔میرکےشعر اور بورخیس کی نظم کے درمیان جو لسانی, تہذیبی, اور زمانی فاصلہ ہے اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں. اس کھیل کے ساتھ بورخیس کا ذہن جن پہلوؤں کی طرف جاتا ہے وہ میر کے شعر سے کتنے فاصلے پر ہے یا کتنا نزدیک ہے۔ یہ مطالعہ کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔نظم میں بات کو پھیلا کر بیان کرنےکی جو گنجائش ہے،وہ غزل کے شعر میں ممکن نہیں۔بورخیس کی ایک نظم “شطرنج کا کھیل” بھی ہے جس کا حوالہ مرزا حامد بیگ نے اپنے مضمون شطرنج کی بساط اور بورخیس میں دیا ہے۔بورخیس کی کئی نظموں میں شطرنج کا ذکر آیا ہے۔بورخیس کے والد نے بورخیس کو شطرنج کا کھیل سکھایا تھا۔یہ اطلاع بھی ملتی ہے کہ بورخیس کے والد نے خیام کی رباعیوں کا اسپینش میں ترجمہ کیا تھا۔شمس الرحمن فاروقی کی نظر میں بورخیس کی یہ نظم تھی یا نہیں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا گرچہ انہوں نے بورخیس کی پانچ نظموں کا نیر مسعود کے ساتھ مل کر ترجمہ کیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے میر کے شعر کے سیاق میں خیام کی جس رباعی کا ذکر کیا ہے اس کا حوالہ بورخیس کی نظم کی ایک سطر کے نیچے میں درج ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ اطلاع اجمل کمال نے یہاں فراہم کی ہے۔کیا عجب کہ بورخیس کی نگاہ میں عمر خیام کا کلام ہو۔
“لیکن کھلاڑی خود بھی کسی اور بساط پر تقدیر کا زندانی ہے”
(ترجمہ اجمل کمال)

شمس الرحمن فاروقی نے یہ بھی لکھا ہے
“کھیل جب ختم ہوتا ہے تو اس وقت جو مہرے بساط پر رہتے ہیں وہ یونہی پڑے رہ جاتے ہیں۔گویا کھیلنے والا انہیں مارنے کے لطف سے محروم رہ جاتا ہے۔”
میر کے شعر میں خیال کے لیے جو خالی جگہیں ہیں ان سب کو فاروقی صاحب نے پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ظاہر ہے کہ میر کے یہاں یہ سارے امکانات پوشیدہ ہیں۔میر کا شعر حیات اور کائنات کےسیاق میں آفاقی نوعیت کا ہے ۔اس میں شطرنج کی ایجاد،اس کی تاریخ اور سیاست کو تلاش کرنا مشکل ہے۔بورخیس نے شطرنج کو مشرق سے وابستہ کر کے دیکھا ہے۔

“کھلاڑیوں کے اٹھ جانے کے بعد
اور موت کے گھاٹ اتر جانے کے بعد بھی
یہ رسم جاری رہتی ہے
اس جنگ کی آ گ پہلے پہل مشرق میں بھڑکی تھی
اور ساری دنیا اس کی تماشا گاہ ہے
محبت کی طرح یہ کھیل بھی دائمی ہے۔”
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کھیل کو ہندوستان نے ایجاد کیا ۔اس کا قدیم نام چترنگ ہے۔چترنگ نے پانچویں صدی عیسوی میں دنیا کو اس کھیل کی طرف متوجہ کیا ۔ شطرنج ایران اور عرب سے ہوتا ہوا مغرب میں داخل ہوا۔شطرنج کئی ملکوں کا قومی کھیل بھی ہے۔شطرنج کی جو قدیم اور کلاسکی صورت تھی اسے وقت کے ساتھ کچھ تبدیل ہونا تھا۔یورپ میں شطرنج کا کھیل ایک نئی صورت اور صورتحال سے دوچار ہوا۔بورخیس نے جنگ کی اس آ گ کو مشرق میں بھڑکتے ہوئے دیکھا تھا۔اس آگ کا جو تاریخی سیاق ہے وہ موجودہ صورتحال سے ہم آہنگ ہو گیا ہے۔بورخیس کی نظر میں شطرنج کا کھیل محبت کے کھیل کی طرح مستقل ہے ۔میر نے اس کھیل کی دائمیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔اس دائمیت کو باقی رکھنے میں اناڑی شطرنجی کا اہم کردار ہے۔اشارہ فلک کی طرف بھی ہے جو بغیر کسی منصوبے اور اصول کے اس کھیل کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔بورخیس کی نظم کا یہ حصہ بھی دیکھیے اور میر کے شعر کو دوبارہ پڑھیے۔
“وہ نہیں جانتے کہ ان کی تقدیر کے پیچھے
شطرنج کے کھلاڑی کا مشاق ہاتھ ہے
وہ نہیں جانتے کہ ان کی خواہش سے بے نیاز ایک سفاک تقدیر
جنگ کی یہ بساط بچھاتی ہے”
ترجمہ اجمل کمال
بورخیس کو جنگ کے پیچھے شطرنج کے کھلاڑی کا مشاق ہاتھ نظر آتا ہے۔میر کے یہاں یہ مشاقی بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔”بسان شاطر نو ذوق”اور “جہاں شطرنج بازندہ فلک”پر غور کریں تو یہ مشاق ہاتھ پوشیدہ دکھائی دے گا۔یہ اور بات ہے کہ جو اناڑی شطرنجی ہے اسے کسی منصوبہ بندی اور اصول سازی سے کوئی مطلب نہیں۔بس ایک کھیل ہے جو وہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔اس میں لاحاصلی کا وہ کرب بھی پوشیدہ ہے جس کا شدید احساس بہت بعد کو ہوتا ہے۔بورخیس جنگ کے پیچھے سفاک تقدیر کو دیکھتے ہیں جس سے مفر ممکن نہیں۔میر کے یہاں تقدیر کا کوئی عمل دخل بظاہر نہیں ہے۔لیکن یہ تقدیر بھی تو ہے جو اس کھیل کی صورت میں جاری ہے۔چونکہ بورخیس کی نظم کا رخ تاریخ اور سیاست کی طرف ہے اس لیے جو تقدیر کا ہاتھ ہے وہ بھی سیاست ہی کی ایک صورت ہے ۔بورخیس کی یہ سطریں کیا کھتی ہیں ۔
“جو اندھیری راتوں اور روشن دنوں سے مل کر بنی ہے
خدا اسے حرکت دیتا ہے اور وہ مہروں کو
لیکن خدا کی پشت پر کون ہے جس نے
خاک اور وقت اور خواب اور کر ب کے
اس کھیل کا آغاز کیا ہے؟”
ترجمہ اجمل کمال)
میر کا شعر ایک بار پھر پڑھتے ہیں۔
جہاں شطرنج بازندہ فلک ہم تم ہیں سب مہرے
بسان شاطر نو ذوق اسے مہروں کی زد سے ہے
یہ دنیا شطرنج کی چال چلنے والے (قضا و قدر کا فیصلہ کرنے والے) کی طرح ہے اور ہم سب اس کے مہرے ہیں.

سرور الہدی
نئی دہلی
دس مئی 2024