داستانِ سلامان و اَبْسال

یہ تحریر 1368 مرتبہ دیکھی گئی

زیرِ نظر مقالہ ایک ایسی قدیم یونانی داستان سے متعلق ہے جسے ایران کے ممتاز فلاسفہ اور ادباء نے بھی قابل توجہ سمجھا اور جو سلامان و ابسال کے نام سے معروف ہے۔ یہ مقالہ ڈاکٹر سید محمد حسینی نے دانش گاہ علامہ طباطبائی تہران کے فارسی مجلہ زبان و ادب شمارہ بہار ۱۳۸۳ ھ۔ ش/ ۲۰۰۴ء میں شایع کیا۔ ڈاکٹر سید محمد حسینی اسی دانش گاہ کے دانش کدہئ ادبیات فارسی و زبانہای خارجی سے بطور پروفیسر فارسی وابستہ ہیں۔ تہران کے ممتاز اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ عربی و فارسی ادبیات پر عمدہ نظر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹریٹ عربی ادبیات میں کیا۔ عربی کے متعدد متون یا ان کے فارسی تراجم شایع کر چکے ہیں۔ آج کل تفسیر کشف الاسرار (میبدی) کا انتقادی متن تیار کر رہے ہیں جو دس مجلدات میں شایع ہوگا۔ پہلی جلد عن قریب چھپے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے کثیر تعداد میں عالمانہ مقالے تصنیف کیے ہیں۔ وہ چوں کہ عربی و فارسی دونو زبانوں کے فاضل ہیں اس لیے ان کے مقالات میں ان دونوں زبانوں کے اہم ادبا اور ادبی میلانات کے تقابل کا اہتمام ہوتا ہے۔

اردو ادبیات میں، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، داستان سلامان و ابسال پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ حنین بن اسحق کے ترجمے کی بنیاد پر لکھے جانے والے قصے ”حی بن یقظان“ (ابن طفیل) کا، جو عربی ادب کا شاہکار ہے، اردو ترجمہ ”جیتا جاگتا“ کے زیر عنوان ۱۹۵۵ء میں انجمن ترقی اردو نے شایع کیا تھا جو اپنے عالمانہ مقدمے اور عمدہ ترجمے کے باعث لایق توجہ ہے۔ یہ ترجمہ ممتاز ادیب و دانش ور ڈاکٹر سیّد محمد یوسف نے کیا تھا۔ ممکن ہے یہ مقالہ قارئین کو اس موضوع پر لکھنے کی اور اس کے ممکنہ آریائی ماخذ پر غور کی تحریک دے۔ میں نے زیر نظر مقالے کے ترجمے کے ساتھ ساتھ بعض جگہ ضروری حواشی کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اپنے حواشی کے ساتھ میں نے قوسین میں ”مترجم“ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔ بقیہ حواشی مصنف کے ہیں۔

داستانِ سلامان و ابسال روئے زمین کی قدیم تہذیبوں کی گنی چنی داستانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس راز آمیز علامتی داستان میں ابنِ آدم کی پرانی آرزوؤں اور اس کے تصورات کی طرف اشارے ملتے ہیں اور ان آرزوؤں کے حصول کی جانب رستوں اور تجویزوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس داستان کا موضوع  [بہ ظاہر]  شکمِ مادر سے باہر جنین کی پرورش ہے تاکہ اس کے نتیجے میں عورت کی نسل سے الگ ایک برتر نسل تک رسائی ہو سکے۔ اس داستان کے خمیر میں اس دھرتی کی قدیم ایرانی، یونانی اور مصری تہذیبوں کا جوہر شامل ہے۔ شاید اس داستان کے اسی پُرمایہ اور پُرکشش جوہر کے باعث بو علی سینا، ابنِ طفیل، سہروردی اور عبدالرحمن جامی جیسے ممتاز دانش ور اس کی طرف کھنچتے چلے آئے ہیں۔

داستان سلامان و ابسال کی متنوع اور پیچیدہ فضا سے ایک اہم نکتہ پھوٹتا نظر آتا ہے یعنی یہ کہ اس داستان کا جوہر قدیم آریائی تمدن سے سیراب ہوا ہے۔ اس مقالے کا مقصود یہ ہے کہ:

۱-            داستان سلامان و ابسال کی دیو مالا کا تجزیہ کیا جائے۔

۲-           اس داستان کی نمود اور تصویر کشی میں عبدالرحمن جامی کی تاثر پذیری اور ان کی ہنر آفرینی کا جائزہ لیا جائے۔

مقالے کے اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس داستان کی اصل و بنیاد کی طرف مختصراً اشارات کر دیے جائیں۔

جیسا کہ بعض اصحاب کی رائے ہے اس داستان کی اصل و بنیاد یونانی ہے اور حنین بن اسحق عبادی(۱) (م۲۶۰ھ)(۲) نے جو تیسری صدی ہجری کا نادر مترجم تھا، اس داستان کو یونانی سے عربی میں منتقل کیا۔ داستان کچھ اس طرح ہے۔(۳)

ہرقل کا بیٹا ہرمانوس یونان، روم اور مصر کا بادشاہ تھا۔ اسی نے اہرام مصر کی تعمیر کا حکم (اس داستان کی روایت کی بنیاد پر) دیا۔ وہ عقل و دانش کے کئی چشموں سے سیراب تھا۔ وہ عورتوں سے بیزار تھا اور اس کا خیال تھا کہ نحوست اور فساد ان کی سرشت میں داخل ہے۔(۴) تاہم اسے اس بات کا رنج تھا کہ اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں جوا س کی جانشین ہو۔ اس نے اس ضمن میں ایک پارسا حکیم اقلیقولاس(۵) سے، جسے اس کی قربت حاصل تھی، مشورہ مانگا۔ حکیم نے اسے تجویز پیش کی کہ وہ اپنا جوہر تولید حکیم کے سپرد کر دے تاکہ وہ اپنی حکمت اور اپنے دقیق و درست مراقبوں کی مدد سے اسے رحم مادر کی شرایط سے مماثل کسی جگہ پرورش کرے تاکہ ایک کامل بچہ ظہور کرے۔(۶) چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ پیدائش کے بعد بچے کو ایک اٹھارہ سالہ خوبصورت دایہ کے سپرد کیا گیا جس کا نام ابسال تھا۔

بادشاہ نے حکیم پارسا کے اس کارنامے سے خوش ہو کر احساس ممنونیت کے تحت اس سے پوچھا کہ وہ جو چاہتا ہے مانگے۔ حکیم نے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک نہایت مضبوط عمارت کی تعمیر کا حکم دے جس کی سات منزلیں ہوں تاکہ وہ اس عمارت میں دیگر اہلِ دانش سے ملاقاتیں کیا کرے اور نادانوں سے دور رہے۔ بادشاہ نے اس طرح کی دو عمارتیں بنانے کا حکم صادر کیا ـــ ایک اس حکیم پارسا کے لیے اور ایک اپنے لیے تاکہ ایک ایسا مناسب اور بے گزند مقام فراہم ہو جائے جہاں گراں بہا اشیا، دانش کے نوشتے اور موت کے بعد ان کے اجسام محفوظ رہ سکیں۔ یہی عمارتیں مصر کے دو مشہور اہرام ہیں۔(۷)

یہ بچہ ایام شیر خوارگی میں اپنی دایہ کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس درجہ کہ اسے اس کی دایہ (ابسال) سے جدا کیا جا سکے۔(۸) بچہ اپنے ایام بلوغت تک اپنی دایہ کے ساتھ رہا۔ اس دوران وہ ابسال کا حد درجہ شیفتہ و دلباختہ ہوگیا۔ وہ اپنے اوقات کا بیش تر حصہ اس کی معیت میں گزارتا۔ باپ اور حکیم پارسا کی نصیحتوں کا اس پر ذرہ برابر اثر نہ ہوا۔ بادشاہ اس ضمن میں سلامان کو اس مادّی جہان کی پستی و بے وقعتی اور عالم بالا کی گراں مایگی، نورانیت اور دوام سے آگاہ کرتا اور تمثیلوں کے ذریعے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اسے ترغیب دیتا کہ وہ پاک ہو جائے اور اس ناپاک عورت سے کنارہ کر لے تاکہ عالم ملکوت بالا کا ہمیشہ کے لیے ہم سر ہو جائے۔(۹)

ہرمانوس (بادشاہ) اور اس کے وزیر ہرنوس نے ہر کوشش کر دیکھی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا حتیٰ کہ سلامان و ابسال دونو مہاجرت کر کے دریائے مغرب (دریاے سرخ، بحیرہ قلزم) کی سمت جا نکلے۔ تاہم اس کے والد نے نائے زرینِ ہفت بند(۱۰) کی مدد سے جس کا ہر بند روے زمین کی سات اقلیموں میں سے ایک کی تصویر یا عکس کی مثال تھا، ان کا ٹھکانا معلوم کر لیا اور ان کی پُرسکون زندگی کو اضطراب سے دوچار کر دیا۔ جب سلامان و ابسال ان سختیوں کی تاب نہ لا سکے تو انھوں نے سمندر میں غرقاب ہو جانے کا ارادہ کر لیا ـــــ ]دونو سمندر میں کود گئے[ سلامان تو بچ نکلا مگر ابسال ڈوب گئی۔

بعد ازاں حکیم پارسا کی چارہ جوئی، دور اندیشی اور تدبیر کاری سے سلامان کے دل سے ابسال کی دوری کا رنج اور عشق محو ہوگئے۔ وہ تخت شاہی پر رونق افروز ہوا اور اس نے حکم دیا کہ اس داستان کو احاطہئ تحریر میں لایا جائے اور ان دو اہرام میں محفوظ کر دیا جائے۔ آتش و آب کے شدید طوفانوں کے ایک عرصہ بعد حکیم ارسطو نے اپنے استاد افلاطون کی رہنمائی کے نتیجے میں ان دو اہرام میں موجود دانش سے پُر نوشتوں اور دیگر تحریروں پر تصرف حاصل کر لیا۔(۱۱) داستان سلامان و ابسال بھی انھی نوشتوں میں شامل تھی۔ سلامان کی زبان سے ادا ہونے والی وہ آخری بات جو اس داستان کی ساتویں اور آخری لوح پر کندہ تھی، یہ تھی:

اطلب العلم و الملک من العلویات الکاملات۔ فان الناقصات لا تعطی الاناقصا(۱۲) (دانش اور بادشاہی عالم بالا کی قوتِ کاملہ کی مدد سے حاصل کر کیوں کہ ناتواں قدرت سے سوائے گھاٹے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا)

اس داستان کے حنین بن اسحق کے ترجمے کے علاوہ کچھ اور دانشوروں، عارفوں اور ادیبوں نے بھی گویا حنین کے اس ترجمے سے فیضان حاصل کر کے اسی نام سے (سلامان و ابسال یا ابنِ سینا کی پیروی کرتے ہوئے حی بن یقظان ـــــــ  زندہ بیدار(۱۳)ـــــــ کے نام سے) داستانیں رقم کیں۔ ابنِ سینا(۱۴) (م ۴۲۸ھ) کی مرقومہ داستان سے الہام حاصل کرنے والوں میں ابن طفیل(۱۵) عبدالرحمن جامی(۱۶) (۸۱۷- ۸۹۸ھ) اور عبدی بیگ نویدی شیرازی(۱۷) (م ۹۸۸ھ) جیسے ادباء شامل ہیں۔

بعض اصحاب کی یہ رائے ہے کہ ابنِ سینا کی داستانِ سلامان و ابسال اپنی تازہ کاری اور ابتکار کی وجہ سے خود اس کی تالیف ہے۔ اس قول کی بنا پر، جس کا مؤید خود لوئی ماسنیون(۱۸) بھی ہے، ظاہر ہوتا ہے کہ ابنِ سینا یونانی داستان سے بے خبر رہا ہے۔ خواجہ نصیر طوسی داستان سلامان و ابسال کی ایک روایت کی بنیاد پر اس داستان کو بو علی سینا کی ایجاد نہیں مانتا۔(۱۹) لیکن ایک اور روایت کے پیشِ نظر جس کی رو سے جوزجانی شاگرد بو علی سینا اسے اپنے استاد کی تالیفات میں شمار کرتا ہے، بو علی سینا اس داستان کا مولف قرار پاتا ہے۔(۲۰)

ابنِ سینا کی داستان حی بن یقظان اپنے فلسفیانہ عمق اور عرفانی مطالب و خصوصیات کی بنا پر ابنِ سینا ہی کی تالیف قرار پاتی ہے۔ اس کے بعد ابنِ طفیل و سہروردی بھی ابنِ سینا کے تتبع میں یہ داستان رقم کرتے ہیں۔ سلامان و ابسال کی ان متعدد داستانوں کے مابین عبدالرحمن جامی کی منظومہ داستان یونانی متن کے ترجمے کے قریب تر ہے۔(۲۱) اب ہم جامی کی اس منظومہ و مرقومہ داستان پر گفتگو کرتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔