داستانِ سلامان و اَبْسال

یہ تحریر 1098 مرتبہ دیکھی گئی

(۳)

سلامان و ابسال کی داستان کے جامی پر اثرات اور اس میدان میں استادِ جام کی ہنر آفرینی:

نور الدین عبدالرحمن جامی (۷۱۷ھ – ۸۹۸ھ) نویں صدی ہجری کے بزرگ شاعر اور نکتہ سنج عارف تھے۔ وہ ایرانی ادب و عرفان کے میدان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انھوں نے عربی زبان کی بہت سی تحریروں کو فارسی میں منتقل کیا اور ان میں سے اکثر کی شرح و توضیح بھی کی۔ ایک عربی تحریر جو اس استادِ سخن اور عارف نامدار کے توسط سے فارسی میں منتقل ہوئی راقم کے قیاس کے مطابق یہی داستانِ سلامان و ابسال ہے۔

جامی ایک طرف اس داستان کو ان علامتوں کے ساتھ جنھیں وہ خود خاص معانی کے لیے خاص علامتیں قرار دیتے تھے، ہم قدم کرتے ہیں اور دوسری طرف قاری کو داستان کی متنوّع فضا میں اپنے ہمراہ آگے بڑھاتے ہیں۔ انھوں نے ہر اس شخص سے بڑھ کر جس نے داستان سلامان و ابسال کی طرف توجہ کی اور اس کا اثر قبول کیا، حنین بن اسحق کے ترجمے کی جانب توجہ کی اور جیسا کہ عرض کیا گیا اس کے نظام ساخت کی اصل کی طرف قدم بڑھایا۔(۴۶) لیکن جامی نے بڑی ہنرمندی سے کوشش کی کہ متنوع اور گوناگوں حربوں کے ذریعے اس کو مشرقی رنگ بخش دیں۔ آگ کے اندر ابسال کے جل بجھنے کے ماجرے کو بھی تنہا جامی ہی معشوق کی زندگی کے اس طرح کے انجام کا رنگ دیتے ہیں۔ دوسرے لکھنے والے ابسال کو دریاے  مغرب میں غرقاب ہوتے ہوئے دکھاتے ہیں۔(۴۷) اس داستان کے ضمن میں ایک اور حوالے سے سلامان و ابسال کو دو بھائی بتایا گیا ہے۔ ابسال چھوٹا بھائی ہے جو سلامان کی بیوی کے ہاتھوں مسموم ہو کر مارا جاتا ہے۔(۴۸) لیکن جامی کی پیش کش جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ہر دو انداز و اسالیب سے الگ ہے۔ مثال کے طور پر جامی سلامان کے اوصاف کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

شب کہ ازہر کار دل پرداختی

باحریفان نردِ عشرت باختی

بزمگاہی چون بہشت آراستی

مطربانِ حور پیکر خواستی

چوں دماغ اوشدی از بادہ گرم

بر گرفتی از میان جلبابِ شرم

گاہ با قوال دم ساز آمدی

با مغنی نغمہ پرداز آمدی

گرشدی ھمراہ نای رہ سپر

کردی از لبھا نیش رانیشکر

بانگِ نی را با شکر آمیختی

گوش را شکر بہ دامن ریختی

گاہی از چنگی گرفتی چنگ را

تیز کردی سوز ناک آھنگ را(۴۹)

داستان کے متن میں روایات میں سے کسی ایک میں بھی سلامان کے یہ اوصاف نظر نہیں آتے لیکن استاد فن جامی اپنی خلاقانہ صلاحیت کو کام میں لا کر اور اپنے فنی و ہنری کمالات کی مدد سے داستان کے مرکزی کردار کو ایک تازہ اور برجستہ شخصیت عطا کر دیتے ہیں۔

جامی اس داستان سرائی میں صرف اس داستان کے مرکزی کردار کی خاص رفتار و صفات ہی پر بس نہیں کرتے، وہ سلامان و ابسال کے آغاز میں خدا کی حمد و ستایش کے بعد ان بادشاہوں اور فرمانرواؤں کی ستایش بھی کرتے ہیں جو درحقیقت صحیح معنی میں جامی کے ارادت مند تھے۔ داستان کے متن میں جامی بہت سی ذیلی داستانیں بھی لاتے ہیں تاکہ اس داستان کو ایک رنگِ تازہ دیا جا سکے۔ وہ یوسف و زلیخا، لیلٰی و مجنوں، وامق و عذرا حتیٰ کہ سلیمان و بلقیس کی داستانوں کے بعض ٹکڑے بھی بطور نمونہ لے آتے ہیں۔ جامی آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کی حکیمانہ و استادانہ تلمیحات سے بھی بعض جگہ اپنی شاعری کو مزین کرتے ہیں۔(۵۰)

جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا گیا اس مقالے میں عرفانی اور عرفانی/فلسفی رموز کی جانب توجہ کی مجال و گنجائش نہیں۔ داستان میں موجود ان عرفانی و فلسفیانہ اسرار و رموز اور علامات کی کشود کے لیے ایک الگ مقالے کی ضرورت ہے۔

عبدالرحمن جامی خود اس داستان کے اختتام پر راز کشائی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور رمزوں کی گرہیں کھولتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس خارجی قالب کے پیچھے نہایت بار آور معانی و اصطلاحات پوشیدہ ہیں اور داستان سلامان و ابسال لکھنے کا بڑا مقصد اور ہدف یہی اسرار و رموز تھے۔(۵۱)

__________

حواشی:

(۱)          حنین بن اسحق عربی، سریانی، یونانی اور فارسی چاروں زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ وہ ان زبانوں میں گفتگو پر بھی قادر تھا اور ان زبانوں کی علمی اصطلاحات سے بھی خوب واقف تھا۔ اس کے تراجم اپنی صحت اور استواری کے باعث لایقِ استفادہ ہیں۔ (عیون الانباء فی طبقات الاطباء، ابنِ ابی اصیبعہ، ص ۲۵۶) ___(مصنف)

                ابو زید حنین بن اسحق نسطوری طبیب تھا۔ اپنے زمانے کا ممتاز ترین دانش مند تھا۔ حیرہ میں پیدا ہوا۔ یوحنا بن ماسویہ سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ ایک تیکھے سوال پر بگڑ کر یوحنا نے اسے اپنے حلقہ درس سے دھتکار دیا۔ حنین پر یہ سرزنش ایسی ناگوار گزری کہ اس نے خود یونانی سیکھنے کا فیصلہ کر لیا اور یوں اس زبان پر عبور حاصل کرکے اس نے طب کی تحصیل اس کی اصل زبان میں کی۔ خلیفہ مامون نے اسے یونانی کتابوں کی نقل و ترجمہ پر مامور کیا اور وہ جس کتاب کو بھی عربی میں ترجمہ کرتا اس کے ہم وزن درہم اسے عطا کرتا۔ حنین نے بقراط، افلاطون اور ارسطو کے بیش تر آثار کو عربی میں منتقل کیا۔ اس نے سریانی صرف و نحو پر بھی ایک کتاب لکھی۔  ___ (مترجم)

(۲)         الفہرست (ابنِ ندیم) ص ۴۰۹

(۳)         تسع رسائل فی الحکمۃ والطبیعیات (ابنِ سینا) ص ۳، ص ۱۵۷؛ سلامان و ابسال (جامی) مرتبہ: زہرا مہاجری، ص ۱۱۶

(۴)         جامی نے سلامان و ابسال میں ”در مذمت زنان“ کے زیر عنوان قریباً ۲۸ شعر کہے ہیں۔ عورتوں کے جذبات کے ہاتھ میں کھلونا ہونے، عیار، مکار اور ساتھ ہی کم عقل ہونے کے حوالے سے عربی، فارسی اور اردو کا لٹریچر (میری مراد کلاسیکی ادب سے ہے) بھرا پڑا ہے۔ میرے خیال میں آج کے ویمن لب کے دَور میں اس سارے لٹریچر کا بے لاگ تجزیہ ہونا چاہیے۔ حنین بن اسحق کی مترجمہ داستان میں لکھا ہے ”شاہ ہرمانوس کا بیٹا نہ تھا اور وہ اس محرومی پر دل شکستہ تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پچھتّر برس کسی عورت کے قریب پھٹکے بغیر گزار دیئے تھے۔“ دیکھیے سلامان و ابسال مرتبہ استاد محمد روشن، ص ۱۲۰، ___ (مترجم)

(۵)         بروایت دیگر ”قالیقیولاس“۔ میرے خیال میں حساب کا علامتی نظام Calculus اسی حکیم کے نام پر رکھا گیا ہوگا ___ (مترجم)

(۶)          ہزاروں برس پہلے کا یہ خواب بیسویں صدی کے اواخر میں ایک درجے میں ٹیسٹ ٹیوب بچے کی صورت میں صداقت سے ہمکنار ہوا ___ (مترجم)

(۷)         تسع رسائل …… (سلامان و ابسال ترجمہ حنین بن اسحق) ص ۱۵۹، ۱۶۰)

(۸)         ایام شیر خوارگی میں خوبصورت دایہ سے غیر معمولی وابستگی کی مثالیں دوسرے ادبیات میں بھی ملتی ہیں مثلاً مظہر جانِ جاناں کی مثال اس ضمن میں ان کی مقاماتِ مظہری اور دیگر کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ___(مترجم)

(۹)          مولانا جلال الدین بلخی نے بھی یہ بات رنگِ دیگر کہی ہے:

دختران دارم، چون ماہ، پس پردہئ دل

ماہرویانِ سماوات مرا داماد اند

(۱۰)        سات گرہیں رکھنے والی راز نما طلسم کشا زریں بانسری۔ جامی نے اسے بانسری کے بجائے ”آئینہ گیتی نما“ کہا ہے:

داشت شہ آئینہ ای گیتی نمای

پردہ ز اسرار ھمہ گیتی کشای

چون دل عارف نبود از وی نہان

ہیچ حالی از بد و نیکِ جہان

گفت کان آئینہ را آرند پیش

تا در آن بیند رخِ مقصود خویش

چون برآن آئینہ افتادش نظر

یافت از گم گشت   گانِ خود خبر

___ سلامان و ابسال (مرتبہ محمد روشن) ص ۱۷۶ __ (مترجم)

(۱۱)         حنین بن اسحق کے ترجمے میں صرف داستان سلامان و ابسال کی لوحوں پر تصرف کا ذکر ملتا ہے (مترجم)

(۱۲)        تسع رسائل …… ص ۱۶۸

(۱۳)       حی بن یقظان کا یہ فارسی عنوان استاد فروز انفر کا عطا کردہ ہے جنھوں نے ابنِ طفیل کی اس عربی داستان کو فارسی میں ڈھالا۔

(۱۴)       حی بن یقظان؛ تحقیق احمد امین ص ۱۳۹ و بعد

(۱۵)        ایضاً  ص ۵۱ و بعد

(۱۶)        جامی (علی اصغر حکمت) ص ۱۸۹

(۱۷)       تذکرہئ مرأۃ الفصاحۃ، شیخ مفید (داور) ص ۶۷۱

(۱۸)       شخصیات قلقہ، ہنری ُکربن، ترجمہ عبدالرحمن بدوی (الشھروردی)  ص ۱۲۵

(۱۹)        تسع رسائل __ ص ۱۷۰

(۲۰)       میرے نزدیک شاگرد کے قول کو استاد کے حق میں سند ماننا مناسب نہیں در آں حالیکہ ہمیں معلوم ہے کہ حنین بن اسحق ایک عرصہ پہلے اس یونانی داستان کو عربی میں منتقل کر چکا تھا۔ بو علی سینا کی وسعتِ علم سے بعید ہے کہ اسے اس داستان کی خبر نہ رہی ہوگی __ (مترجم)

(۲۱)        ملاحظہ فرمائیے سلامان و ابسال، تصحیح زہرا مہاجری، نشرِنی

(۲۲)       تسع رسائل …… (سلامان و ابسال)، ص ۱۶۰ (مصنف)

                جامی نے اپنی مثنوی میں اسی بات کو اس طرح بیان کیا ہے:

دلبری درنیکوئی ماہ تمام!

سال او از بیست کم ابسال نام

(مترجم)

(۲۳)      شاہنامہ فردوسی (ماسکو) ۳: ۷؛ تاریخ غررالسیر، الثعالبی المرغنی ص ۱۶۸

(۲۴)      تسع رسائل …… ص ۱۵۹

(۲۵)       الثالبی، کتاب مذکور ص ۱۶۷

(۲۶)       فارس نامہ، ص ۴۹، ۵۰

(۲۷)      پنجابی ادب میں سر زمینِ سیالکوٹ کی داستان پورن بھگت اور سلامان و ابسال (فارسی) دونو میں ظہور عشق کی یہی صورت ہے __ (مترجم)

(۲۸)      عربی میں اسی کا نام سعدٰی بھی ہے دیکھیے کامل المبرد میں یہ شعر:

وکنت اذا ما زرت ُسعدٰی بارضھا

ارٰی الارض تطوٰی لی ویدنوابعید ھا

___ (مترجم)

(۲۹)       شاہنامہ، ۳: ۱۴

(۳۰)      ایضاً، ۳: ۲۳

(۳۱)       سلامان و ابسال، جامی، زہرا مہاجری ص ۱۵۳

(۳۲)      شاہنامہ، ۳: ۳۴ – ۳۷ (بہ اختصار)

(۳۳)      تسع رسائل ………… ص ۱۶۰

(۳۴)      ایضاً،  ص ۱۶۸

(۳۵)      الشاہنامہ، ترجمہ الفتح بن علی البنداری ص ۲۰

(۳۶)       تاریخ سنّی ملوک الارض والانبیاء، ص ۲۳

(۳۷)      الفہرست، المطبعۃ الرحمانیہ ص ۳۳۶

(۳۸)      نہایت سخت، مضبوط، محکم اور صاف درخت کی اس لکڑی سے نیزہ، تیر، گھوڑے کی زین اور دیگر متعلقات بنائے جاتے تھے:

مگر دشمن است این کہ آمد بجنگ

ز دورش بدوزم بہ تیر خدنگ

                                                                                                                                   سعدی

                نیز: براسپان نہادند زینِ خدنگ (فردوسی) ___ فرھنگ بزرگ سخن (حسن انوری) جلد ششم __ (مترجم)

(۳۹)       الفہرست ص ۳۳۴ (ابو معشّر کی کتاب اختلاف الزیجات سے منقول)

(۴۰)      ایضاً، ص ۳۳۵

(۴۱)       ایضاً، ص ۳۳۵

(۴۲)      ایضاً، ص ۳۳۵

(۴۳)      ایضاً، ص ۳۳۶

(۴۴)      تاریخِ سنی ملوک الارض و الانبیاء ص ۹، ۱۰

(۴۵)      نیرنگستان، صادقِ ہدایت ص ۱۹، ۲۰؛ مکتب حافظ، منوچہری مرتضوی ص ۱۷۰ __ مصنف

                میرے نزدیک یہ محض ایک قیاس آرائی ہے جس کی لغویت ظاہر ہے۔ قرآن حکیم میں حضرت سلیمانؑ کی جو شخصیت ملتی ہے سلامان کو اس سے سوائے چند سطحی مناسبتوں کے کوئی نسبت نہیں __ (مترجم)

(۴۶)       جامی کی داستان سلامان و ابسال کے ذیل عناوین پر نگاہ کریں اور حنین بن اسحق کے عربی متن پر توجہ فرمائیں۔

(۴۷)      سلامان و ابسال، جامی، ص ۱۵۳؛ تسع رسائل ص ۱۷۳

(۴۸)      تسع رسائل ص ۱۷۵

(۴۹)       سلامان و ابسال، جامی مرتبہ استاد محمد روشن ص ۱۵۸، ۱۵۹ (مترجم)

(۵۰)       دیکھیے جامی ص ۱۳۵، ۱۴۲ اور متعدد صفحات

(۵۱)        جامی فرماتے ہیں کہ ہر قصے کے ظاہر میں عمیق نظر رکھنے والوں کا حصہ ہوتا ہے۔ اب جب یہ قصہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے تو اس کے معانی تک رسائی لازم ہے …… اس قصے سے غرض تمھاری میری قیل و قال نہیں بلکہ حال کے اسرار کی نقاب کشائی ہے …… پھر فرماتے ہیں داستان کے فہیم و عقیل کردار یعنی حکیمؔ سے مراد فیض بالا ہے۔ سلامانؔ پاک دامان ہے۔ ابسالؔ جسم شہوت پرست کی علامت ہے۔ زہرہؔ کمالاتِ بلند کا استعارہ ہے جس سے وصول کے نتیجے میں روح کو اقبال مندی حاصل ہوتی ہے۔ اسی سے عقل کے جمال کو نورانیت حاصل ہوتی ہے اور وہ دنیاے مادی پر متصرف ہو کر بادشاہ بن جاتی ہے۔ جامی نے بڑی سہولت مگر کمال تہہ داری سے ان رمزی گرہوں کو کھولا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے سلامان و ابسال (جامی) مرتبہ استاد محمد روشن ص ۱۸۷-۱۸۹ __ (مترجم)

____________

منابع و مآخذ:

۱-            قرآن مجید

۲-           تاریخ سنی ملوک الارض و انبیاء، حمزہ بن الحسن الاصفہانی، مطبعۃ کاویانی برلین ۱۳۴۰ ق

۳-          تاریخ غرر السیر، الثعالبی المرغنی مع مقدمہ مینوی، کتاب فروشی اسدی، تہران ۱۹۶۳ء

۴-          تسع رسائل فی الحکمۃ والطبیعیات، ابن سینا، مطبع ہندیہ بالموسکی، مصر ۱۹۰۸ء

۵-           تذکرۃ مرأۃ الفصاحۃ، شیخ مفید (داور) تصحیح ڈاکٹر طاؤسی، انتشاراتِ نوید شیراز ۱۳۷۱- ھ- ش

۶-           جامی، علی اصغر حکمت، کتاب فروشی معرفت، شیراز ۱۳۲

۷-          حی بن یقظان، ابنِ سینا ــ ابنِ طفیل ــ شہاب الدین سہروردی، تحقیق احمد امین

۸-          زندہئ بیدار، ترجمہ فروز انفر (ابن طفیل) ترجمہ و نشرِ کتاب تہران ۱۳۵۱ ھ – ش

۹-           شاہنامہ فردوسی (مسکو)، انتشارات دانش مسکو (ماسکو) ۱۹۶۵ء

۱۰-         الشاہنامہ ترجمہ الفتح بن علی البنداری ـــ طہمورث، تہران ۱۹۷۰

۱۱-          شخصیات قلقہ، ہنری ُکربن، ترجمہ دکتر عبدالرحمن بدوی، مکتبہ النہضہ، مصر ۱۹۴۶ء

۱۲-         عیون الانباء فی طبقات الاطباء – ابن ابی اصیبعہ، دارالعلمیہ بیروت ۱۴۱۹ ق

۱۳-         فارسنامہ ابن بلخی مرتبہ علی نقی بہروزی، اتحادیہ مطبوعاتی فارس، شیراز ۱۳۴۳ ھ – ش

۱۴-         الفہرست، ابنِ ندیم، المطبعۃ الرحمانیہ، مصر ۱۳۴۸ ق

۱۵-         مثنوی سلامان و ابسال، جامی مرتبہ زہرا مہاجری، نشرنی، تہران ۱۳۷۶ ھ – ش

۱۶-         مثنوی سلامان و ابسال،  //  مرتبہ استاد محمد روشن، انتشاراتِ اساطیر چاپِ اول ۱۳۸۲ ھ-ش

۱۷-         نیرنگستان، صادق ہدایت،  امیر کبیر تہران ۱۳۴۲ ھ – ش ۱۸-         کلیاتِ شمس، جلال الدین محمد بلخی، دانش گاہ تہران ۱۳۴۴ ھ – ش