داستانِ سلامان و اَبْسال

یہ تحریر 1015 مرتبہ دیکھی گئی

( ۲ )

۱- داستانِ مذکور کی تحلیل و تطبیق:

سلامان و ابسال کی متعدد روایتوں نیز داستان حی بن یقظان کے گونا گوں قالبوں پر غور و فکر اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ان داستانوں اور سیاوش کی داستان اور اس کے تلخ واقعات کے مابین ایسا اشتراک اور ایسی مماثلتیں موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اشتراکات کچھ اس طرح بیان کیے جا سکتے ہیں:

۱-             سلامان کی دایہ ابسال اٹھارہ برس کی ایک نوجوان دوشیزہ ہے جو اس کی پرورش کرتی ہے۔(۲۲) سیاوش کی ماں بھی نوجوان اور خوب صورت ہے کہ کیکاؤس کی زوجہ بنی۔(۲۳)

۲-            سلامان کی ولادت اور اس کی پرورش جیسا کہ پہلے ذکر ہوا بہت تعجب انگیز واقعہئ خاص ہے۔(۲۴) سیاوش کی پیدائش بھی کسی قدر روحانیت اور شان و شکوہِ ایزدی کی مظہر ہے۔(۲۵) ابنِ بلخی کے فارس نامہ میں لکھا ہے:

”کیکاؤس کے ہاں ایک نہایت نیک اور گراں بہا لڑکا پیدا ہوا (اللہ کی شان سے) نام اس کا سیاوش — کیکاؤس نے جب سیاوش کے قتل کی خبر سنی، اس نے بڑے دکھ کا اظہار کیا اور کہا: سیاوش روحانی کا قاتل میں ہوں، افراسیاب نہیں۔“(۲۶)

۳-            سلامان و ابسال کے مابین ظہور عشق___ اولاً یہ ابسال (دایہ سلامان) کی جانب سے ہوا۔(۲۷) سیاوش کی داستان میں بھی سودابہ جو سیاوش کی ماں اور کاؤس کی بیوی ہے، سیاوش پر عاشق ہو جاتی ہے۔ بیش تر عربی متون میں سودابہ کا عربی نام سوذانہ(۲۸) آیا ہے:

برآمد برایں نیز یک روز گار

چناں بُدکہ سودابہئ پر نگار

زِ ناگاہ روی سیاوش بدید

پُر اندیشہ گشت و دلش بردمید

چناں شد کہ گوئی طرازِ نخ است

وگر پیشِ آتش نہادہ یخ است (۲۹)

سیاوش بھی سودابہ کی التجاؤں کے جواب میں کہ پاکیزہ منش لوگوں سے بعید غلط خواہشات رکھتی تھی، یوں عرض پرداز ہوتا ہے:

و دیگر کہ پر سیدی از چہرِ من

بیامیخت با جانِ تو مہر من

مرا آفرنیندہ از فرِ خویش

چناں آفرید ای نگارین ز پیش

تو ایں راز مگشای و باکس مگوی

مرا جُز نہفتن ھمان نیست روی

سر بانوانی و ھم مہتری

من ایدون گمانم کہ تو مادری (۳۰)

۴-            سلامان و ابسال دکھ اور اذیت سے نجات پانے کے لیے آگ کے الاؤ سے گزرتے ہیں۔ آگ سے سلامان کو کوئی آسیب نہیں پہنچتا لیکن ابسال کو (یہ آگ) جلا ڈالتی ہے:

چوں سلامان آن نصیحت ہاشنید

جامہئ آسودگی بر خود درید

خاطرش از زندگانی تنگ شد

سوی نابودِ خودش آہنگ شد

چون حیاتِ مردنی درخور بوَد

مردگی از زندگی خوشتر بوَد

روی با ابسال در صحرا نہاد

در فضای جانفشانی پا نہاد

پشتہ پشتہ ھیمہ از ہر جا برید

جملہ را یک جا فراہم آورید

ہر دواز دیدار آتش خوش شدند

دست ہم بگرفتہ در آتش شدند

شہ، نھانی واقف آں حال بود

ھمتش برکشتنِ ابسال بود

بر مراد خویشتن ہمت گماشت

سوخت اورا و سلامان را گذاشت

بود آن غش بر زر و این زرِّ خوش

زرِّ خوش خالص بماندو سوخت غش (۳۱)

سیاوش کی داستان میں سیاوش بھی کوہِ آتش کے درمیان سے بے گزند گزر جاتا ہے۔ داستان کی فضا ایسی ہے کہ اگر سودابہ اس آگ کے اندر سے گزرتی تو آگ اسے نگل جاتی۔ طوس کا استاد (فردوسی) اس باب میں کہتا ہے:

بہ صد کارواں اشتر سرخ موی

ھمی ہیزم آورد پرخاشجوی

نہادند ہیزم دو کوہِ بلند

شمارش گذر کر د برچون و چند

بیامد دو صد مردِ آتش فروز

دمیدندگفتی شب آمد بردز

سیاوش بدو گفت اندہ مدار

کزیں ساں بود گردشِ روزگار

بہ نیروی یزدان نیکی دہش

کزیں کوہِ آتش نیابم تپش

سیاوش سیہ را بہ تندی بہ تاخت

نشد تنگ دل، جنگ آتش بساخت

چو بخشا یش پاک یزداں بوَد

دم آتش و آب یکساں بوَد

چو از کوہ آتش بہ ہاموں گذشت

خروشیدن آمد ز شھر و ز دشت

سیاوش بہ پیشِ جہاندار، پاک

بیامد، بما لید رخ را بہ خاک

کہ از تف آن کوہ آتش برست

ھمہ کامہئ دشمنان گشت پست (۳۲)

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاوش کے قتل کی غم ناک خبر ایران پہنچنے کے بعد سودابہ قتل کر دی گئی۔

مذکورہ دو داستانوں میں موجود مماثلات و اشتراکات کے علاوہ داستانِ سلامان و ابسال اور ایرانی اساطیر میں بھی کہیں کہیں ان مماثلتوں اور مشابہتوں کا احساس ہوتا ہے۔ داستانِ سلامان و ابسال کے ابتدائی حصوں میں آیا ہے کہ دو اہرام بزرگ اس لیے تعمیر کیے گئے تھے تاکہ خزانے اور دانش کے نوشتے وہاں محفوظ رہ سکیں۔(۳۳) اس داستان کے اختتام میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ:

فلما عمر العالم بعد الطوفان النّاری و المائی، ظھر افلاطون الحکیم الالٰھیّ و اطلع علٰی ما فی الھرمَین من العلوم الجلیلہ والذّخائر النفیسۃِ بحکمتہ و معرفتہ فسافر الیھما، لکنّ ملوک زمانہ لم یساعدوہ علی فتحہ، فاوصٰی الٰی تلمیذہ ارسطا طالیس انہ إن تمکن من فتحہ یفتحہ و یستفذ من العلوم الخفیّہ الروحانیۃ المودعۃ فیہ (۳۴)

(جب جہان، آب و آتش کے دو طوفانوں کے بعد، دوبارہ آباد ہوا، خدا شناس فلسفی افلاطون نے ظہور کیا۔ اس نے اپنی عقل اور حکمت کی مدد سے دانش اعلیٰ کے نوشتوں اور گرانمایہ خزانوں کا کھوج لگا لیا اور اس جگہ جا پہنچا اس عہد کے بادشاہوں نے ان کے کھولنے میں اس کی مدد نہ کی۔ اس لیے اُس نے اپنے شاگرد ارسطو کو وصیت کی کہ اگر اس کے لیے ممکن ہو تو وہ ان اہرام کے دروازے کھولے اور ان میں محفوظ رمزی اور علامتی سرمایہ دانش سے استفادہ کرے)

شاہنامہ فردوسی کے عربی ترجمے کے ساتھ مصحح عبدالوہاب عزام نے جو توضیحات کی ہیں ان پر لکھا ہے:

”جب (دانش مندوں نے) طہمورث کو آگاہ کیا کہ ایک طوفان آنے والا ہے، اس نے اس طبیعی حادثے کے رونما ہونے سے دو سو اکیاون برس پہلے حکم دیا کہ اصفہان میں ایک کتاب خانہ قائم کیا جائے۔(۳۵) بعض ایرانی اور غیر ایرانی نکتہ سنج محققوں اور ہوش مند تاریخ نگاروں نے بھی اپنے عہد کے تاریخی شواہد کی بنیاد پر سیلاب، طوفان، زلزلہ اور آگ وغیرہ جیسے طبیعی حادثات کے مقابل میں نہایت مضبوط و مستحکم ایرانی عمارات کے وجود کی خبر دی ہے۔ حمزہ اصفہانی لکھتا ہے: طہمورث نے حکم دیا کہ شہر اصفہان میں دو عظیم اور پرشکوہ عمارتیں ”مہرین“ اور ”سارویہ“ کے نام سے تعمیر کی جائیں۔ بعد میں ”مہرین“ ہی کے نام سے ایک چھوٹا شہر آباد ہو گیا۔ اس سے پہلے اس کا نام ”کوک“ تھا۔ ”سارویہ“ کی تعمیر کے ہزاروں برس بعد ”جی“ کے شہر کا قلعہ تعمیر ہوا اور ”سارویہ“ اس کے بیچ میں آگیا۔ ان دو عمارتوں کے آثار آج بھی باقی ہیں“ (۳۶)

ابنِ ندیم لکھتا ہے:

کہتے ہیں کہ ”سارویہ“ سر زمینِ مشرق کی بے مثال مضبوط و قدیم عمارت ہے۔ اپنی شان و شوکت اور حیرت خیزی کے باب میں وہ مغرب میں موجود اہرام مصر کی طرح ہے۔(۳۷) پھر ابن ندیم ابو معشّر بلخی کی روایت کے حوالے سے تفصیلاً لکھتا ہے:

اہل فارس دانش کو بے حد اہمیت دیتے تھے اور اسے گرامی جانتے تھے۔ خدنگ نامی درخت(۳۸) کی چھال سے جسے ”توز“ کہتے ہیں (یہ درخت طبیعی آفات کے مقابل بڑی مقاومت کرتا ہے) کاغذ بناتے تھے اور حکمت کی باتیں اس پر لکھا کرتے تھے۔ بعد میں چین، ہندوستان اور ان کے نزدیک کی قوموں نے پارسیوں سے کاغذ بنانے کا فن سیکھا“ (۳۹)

ابن ندیم اسی لَے میں لکھتا ہے:

”پارسی اپنے تعقلات کو اس چیز (کاغذ) پر لکھ کر جو حوادث سے بہت کم اثر پذیر تھا، آسودہ خاطر ہو گئے۔ اب وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے (کوئی کتاب خانہ) جہاں ان کی دانش کے نوشتے محفوظ ہو جائیں۔ چناں چہ انھوں نے مختلف مقامات کی تحقیق اور معاینہ کیا اور ان پر کھلا کہ اصفہان اور اس کی آب و ہوا ایسی عمارت کے لیے، جسے وہ تعمیر کرنا چاہتے تھے، مناسب تر ہے اور اس میں بھی ”جی“ کا مقام مناسب ترین اور بہترین ہے۔ پس انھوں نے وہاں ایک عظیم اور نہایت مستحکم عمارت ”سارویہ“ کے نام سے تعمیر کی اور اپنی دانش کے نوشتے وہاں لا ڈالے تاکہ زمانے کے خطرات و حوادث سے محفوظ رہیں“ (۴۰)

آگے چل کر وہ لکھتا ہے:

”ہمارے عہد سے سالہا سال پیش تر ”جی“ کی اس عظیم عمارت کا ایک حصہ ویران ہو گیا۔ اس کے درمیان میں ایک عمارت ملی جسے گل رس سے لیپا پوتا گیا تھا۔ اس عمارت کے اندر پرانے لوگوں کے بہت سے ایسے نوشتے لوگوں کے ہاتھ لگے کہ تمام کے تمام ”توز“ کی چھال پر پرانی فارسی میں لکھے ہوئے تھے۔ ایک دانش مند نے جو اس خط سے آگاہ تھا، ایک نوشتہ پڑھا۔ اس میں لکھا تھا:

”طہمورث __ دانش اور دانش مندوں کو دوست رکھنے والے __ نے عقل والوں اور ستارہ شناسوں کے کہنے پر جن کے مطابق مغرب کی طرف سے آنے والی آفت کا زمانہ قریب آ گیا ہے، حکم دیا کہ یہ عمارت تعمیر کی جائے اور اس میں عقل و حکمت کے نوشتے محفوظ کر دیں تاکہ آنے والے ان سے بہرہ اندوز ہوں۔(۴۱) وہ کہتا ہے: یہی قلعہ اور اس کے اندر پڑے ہوئے نوشتے اس کے بنانے والے کی نشان دہی کرتے ہیں۔“(۴۲)

ابنِ ندیم مزید لکھتا ہے:

وہ شے جو میں نے بچشمِ خود دیکھی یہ ہے کہ ۳۴۰ ؁یا اس کے چند سال بعد ابوالفضل بن العمید نے بعض کتابیں جن کے ورق اکھڑے ہوئے تھے یہاں (بغداد) بھجوائیں۔ یہ کتابیں جو یونانی زبان ]شاید آرامی یا فارسی زبان میں [ لکھی گئی تھیں۔ شہرِ اصفہان کے حصار اور دیوار کی اکھڑی مٹی کے بیچ سے ملی تھیں، یوحنا اور دیگر حضرات نے انھیں پڑھا۔ یہ نوشتے لشکریوں کے ناموں اور ان کے سامانِ خورد نوش کی مقدار کے بارے میں تھے۔ ان کتابوں کی چرمی جلدوں کی بدبو دماغ کو پہنچتی تھی۔جب یہ کتابیں ایک سال تک بغداد میں رہیں تو خشک ہو گئیں اور ان کی بدبو جاتی رہی۔ ان کتابوں کا کچھ حصہ ان دنوں ہمارے استاد (جو ہمارے شیخ ہیں) ابو سلیمان کے پاس ہے۔ (۴۳)

اوپر جو کچھ لکھا گیا اور شاہنامہ ُبنداری کے ترجمے، ابنِ ندیم کی الفہرست اور حمزہ اصفہانی کی کتاب سے جو نمونے پیش کیے گئے، ان سے ایران اور قدیم یونان کے تمدنی روابط کو نمایاں کیا جا سکتا ہے۔ دانش کے نوشتوں کے تحفظ کے اسباب و محرکات، ان اہداف تک پہنچنے کی صورتیں، ان نوشتوں کو محفوظ کرنے کے لیے عمارتوں کی ساخت کے اسلوب اور بعض دانش مندوں کی جانب سے مغرب میں موجود ایسی ہی عمارتوں اور ایران قدیم کی عمارتوں میں مماثلات کی نشاندہی (مصر یونانیوں اور رومیوں کے ماتحت تھا) اور وہ تاریخی شواہد جو محمد بن اسحق ابن ندیم اور حمزہ بن حسن اصفہانی وغیرہ جیسے مستند لکھنے والے فراہم کرتے ہیں، ان سب سے دو کہنہ اور بزرگ آریائی خاندانوں (پارسیوں اور یونانیوں) کے مابین تمدنی پیوستگی کی تائید ہوتی ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حمزہ اصفہانی اپنی مذکورہ کتاب ____ تاریخ سنی ملوک …… کے آغاز میں تاریخ ایران کے باب میں اپنے لکھے ہوئے شواہد فراہم کرتے ہوئے کہ جن میں آٹھ شواہد خدائی ناموں اور تاریخ ایران کی دیگر کتابوں سے لیے گئے ہیں، کہتا ہے: میں نے جو کچھ لکھا تھا اس کے بارے میں ایک حد تک اطمینان حاصل کرنے کے لیے مجبور ہو گیا کہ اسناد کا باہم مقابلہ کروں۔ اس وجہ سے اس تمام تر انتشار و آشفتگی کے باوجود کہ پرانی قوموں کی تاریخ میں نظر آتی ہے،(۴۴) ان دانش مند محققوں نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اپنی تحریروں میں سچائی اور صداقت کا اہتمام کریں۔

ماحصل یہ ہے کہ پارسی و یونانی دو قوموں کی تہذیبوں کے مابین موجود رشتوں اور مماثلتوں نیز ان دو یونانی و ایرانی داستانوں ____ سلامان و ابسال ____ سیاوش و سودابہ کے مابین مشابہتوں کی بنیاد پر ہوش مند قاری کے ذہن میں یہ قوی اور نپا تلا گمان راہ پاتا ہے کہ یہ مشابہتِ متون، یہ مماثلات اور ان دو داستانوں کے کرداروں کی ہم زبانی آخر کس لیے ہے؟ کیا یہ محض اتفاق و توارد کا شاخسانہ ہے یا کوئی ایسا بھید ہے جس کا کھوج لگانا ضروری ہے؟

راقم الحروف اس دوسرے موقف کا مؤید ہے۔ یوں ایک ایسے گمان سے جو یقین کے نزدیک ہے کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ دونو داستانوں کی اصل و بنیاد ایک نہایت قدیم آریائی داستان سے فیض یاب یافتہ ہے مگر زمانے کی رفت و گزشت اور جغرافیائی و مکانی خصوصیات کے باعث اس میں دو چہرگی پیدا ہو گئی ہے۔ ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بعض حضرات نے سلیمانؑ کو سلامان پسرِ جم کا مثیل قرار دیا ہے اور ان کی شخصیت کو سلامان کی شخصیت سے وحدت دی ہے۔ (۴۵)