حنفی صاحب کی یاد میں

یہ تحریر 859 مرتبہ دیکھی گئی

ابھی نامور نقاد اور منفرد ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی کی رحلت کا غم تازہ تھا کہ سرحد پار ہی سے صاحبِ اسلوب تنقید نگار، ڈرامہ نگار، اپنے کرم فرما ڈاکڑ شمیم حنفی کے سانحہ ارتحال کی خبر سے دل کے داغوں میں ایک اور داغ کا اضافہ ہو گیا۔ پھر ساتھ ہی ساتھ یادوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ حافظے میں لَو دینے لگا۔ یاد آیا کہ ان سے پہلی ملاقات انھی کے شہر دہلی میں ہوئی تھی جہاں وہ ایک عرصے سے رہ رہے تھے اور جامعہ ملّیہ میں اردو زبان و ادب کے استاد تھے۔ میں ان دنوں ڈاکٹریٹ کر رہا تھا اور تحقیقی لوازمے کی تلاش میں ہندوستان گیا ہوا تھا۔ متعدد اہم لکھنے والوں کے علاوہ ان سے ملاقات کو بھی میں نے اپنے لیے حاصلِ حیات جانا۔ کیسے خوبصورت شخص تھے۔ کشادہ پیشانی، متبسم لب، خوش گفتار، دھیمے لہجے میں دلنواز باتیں کرنے والے، وسعتِ نظر کے حامل اور گہرے مطالعے کو اپنے وجود اور وجدان میں سموئے ہوئے! یہ اگست ۱۹۸۳ء کی بات ہے۔ میں جب جامعہ نگر میں ان کی دانشگاہ کے کمرے میں ان سے ملاقات کو گیا تو نِرد چودھری کی مشہور کتاب “دی کونٹیننٹ آف سرسی” کے مطالعے میں مشغول تھے۔ مجھے مسرت ہوئی کہ اردو کے عام استادوں کے برعکس دوسرے آداب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں اور زندگی اور زمانے کے عمیق مطالعے کو بھی اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد تو دہلی ہی میں اور متعدد بار لاہور اور کراچی میں ملاقاتیں رہیں۔ پاکستان تو دسیوں بار آئے۔ کبھی الحمرا آرٹ کونسل کی دعوت پر، کبھی سارک کانفرنس میں مدعو ہو کر، کبھی آرٹس کونسل کراچی کی عالمی کانفرنس میں شرکت کی خاطر، کبھی لمز میں لیکچر دینے کے لیے۔ ہر بار ملا اور ان کے علم اور مشاہدے کے دستر خوان سے ریزے چنتا رہا۔ میں جن دنوں یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبئہ اردو کا سربراہ تھا، میں نے اردو کے بے مثل استاد، محقق و نقاد، غیر معمولی صاحبِ مطالعہ دانشور اور اورینٹل کالج کے محسن ڈاکٹر سید عبداللہ کی یاد میں ۲۰۱۰ء میں “سید عبداللہ یادگاری لیکچر” کا ڈَول ڈالا اور اس ضمن میں ڈاکٹر شمیم حنفی کو اس پہلے یادگاری لیکچرکے لیے مدعو کیا۔ حنفی صاحب خوشی سے مان گئے، لاہور آئے اور ” اردو کا تہذیبی تناظراور معاصر تہذیبی صورت حال” کے زیرِ عنوان ایک فکر افروز لیکچر دیا۔ اس لیکچر میں لاہور اور بیرونِ لاہور کے تمام نامور ادباء اور دانشور شریک ہوئے اور حنفی صاحب کے یادگار لیکچر کی صدائے بازگشت دیر تک سنی جاتی رہی۔ میرا خیال ہے کہ حنفی صاحب اردو کے ان گنے چنے نقادوں میں تھے جو ادب اور تہذیب وثقافت کے ربط ضبط کو ناگزیر اور معنی خیز سمجھتے تھے، تہذیبوں کے تناظر میں ادب کا مطالعہ کرتے تھے اور عمدہ اور فکر انگیز نتائج کا استخراج کرتے تھے۔ سوچتا ہوں کیسا نادرۂ روزگار شخص ہمارے درمیان سے اٹھ گیا۔

  ؎      چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار

میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

مجھے متعدد بار مختلف کانفرنسوں میں ہندوستان جانے کا موقعہ ملتا رہا۔ اوائل ستمبر ۲۰۱۳ء میں “قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان” کی دعوت پر دہلی گیا تو حنفی صاحب سے خصوصی ملاقات رہی۔  کئی جگہ اظہارِ خیال کے لیے بلایا  گیامگر سب سے ناقابلِ فراموش تقریب وہ تھی جو حنفی صاحب کے ایماء سے غالب اکیڈمی دہلی کے زیراہتمام منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں ممتاز فیض شناس روسی ادیب لُدمیلا واسی لی ایوا نے بھی شرکت کی۔ میں نے پاکستان میں اور لُدمیلا صاحبہ نے روس میں اردو کے ارتقا اور موجودہ صورت حال پر گفتگو کی۔ تقریب میں دہلی کے تمام اہم لکھنے والے موجود تھے جن کی شرکت نے اس تقریب کو یادگار بنا دیا۔ تقریب ختم ہوئی تو پتا چلا کہ حنفی صاحب نے سنجیو صرّاف کے ممتاز علمی ادارے “ریختہ” کے زیر اہتمام مجھ سے ایک گفتگو کا اہتمام بھی کر رکھا ہے۔ حنفی صاحب کی مجھ سے یہ گفتگو ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور مجھ سے ان کی غیر معمولی شفقت کی مظہر۔ لاہور میں تو کئی دفعہ مجلسِ ترقی ادب کے دفتر میں بھی آئے اور مجھے اور پاکستانی ادیبوں کو مشرف کیا۔ ایک دفعہ ذہن جدید کے زبیر رضوی کے ہمراہ تشریف لائے دیر تک باتیں کیں۔

 مجھے وہ دن بھی نہیں بھولتا جب میں قومی کونسل ہی کی دعوت پر ۳ فروری  ۲۰۱۶ ءکو دہلی پہنچا۔ ایک ہی دن پہلے بے مثال ناول وافسانہ نگار اور اردو ادب کے گویا داستانی کردار انتظار حسین ہم سے بچھڑے تھے۔ انتظار حسین، حنفی صاحب کے محبوب لکھنے والے تھے اور طرفین کے تعلقات غیر معمولی محبت و عقیدت کے خمیرمیں گندھے ہوئے تھے۔ میں دلی یونیورسٹی کے مہمان خانے میں ٹھہرا ہوا تھا کہ حنفی صاحب کا فون آیا۔ میرے آنے پر بڑے خوش مگرانتظار صاحب کی رحلت پر ؎ آزردہ تھے۔ دیر تک ہم انھیں یاد کرتے رہے۔ مجھے گھر بلایا۔ علیگڑھ سے کچھ دوست مجھ سے ملنے دہلی آگئے تھے۔ ان کی معیت میں ذاکر باغ گیا۔ یہیں وہ کمرہ دکھایا جہاں دہلی آنے پر انتظار حسین ان کے ہاں رہا کرتے تھے۔ ان کو یاد کرتے ہوئے حنفی صاحب کا گلا تو کئی بار رندھا مگر تھے بڑے ضابط، جذبات کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیا۔ لگتا ہے کہ دکھ جھیلنے اور ظاہر نہ کرنے کے لیے خاصی ریاضت کی تھی۔ بڑے باہمت تھے۔ چند سال پہلے سرطان کے موذی مرض سے بڑی پامردی سے لڑ چکے تھے اور فتح یاب ہوئے تھے۔  مجھے ایک دفعہ فون پر بتانے لگے کہ دہلی سے کم و بیش تیس پینتیس  کلومیٹر دورہفتے میں ایک بار کیمو تھراپی کے لیے جاتے ہیں۔ آواز میں کیا اعتماد تھا۔ خود رحمی سے یکسر مبّرا ایک مردِ آزادجس کا ظاہر بھی روشن تھا اور باطن بھی۔ عمر اسّی سے اوپرتھی مگر ذاکر باغ میں تیسری منزل پر ایک مدت سے رہتے تھے۔ تنگ اور تھکا دینے والی سیڑھیاں معلوم نہیں دن میں کتنی بار اترتے چڑھتے ہوں گے۔

آخری ملاقات دسمبر ۲۰۱۹ ء  میں کراچی میں ہوئی۔ احمد شاہ صاحب کی دعوت پر آئے تھے۔ کانفرنس میں حسب معمول بڑی عمدہ گفتگو کی۔ متعدد ادیب جم خانہ کراچی میں ٹھہرائے گئے تھے۔ وہیں ان سے کئی یادگار ملاقاتیں رہیں۔ اپنی زندگی کے مشاہدات اور ادب و ثقافت کے ضمن میں اپنے خیالات اس سلیقے سے بیان کرتے تھے کہ بس: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!

اپریل ۲۰۲۱ء کے آخر میں کورونا کے موذی وائرس نے حملہ کیا اوراسی ماہ مئی کی چھے تاریخ کو ادب کا یہ روشن ستارہ پچاسی برس عمر پاکر غروب ہو گیا۔ فارسی کا کوئی شاعر کیسا بے مثل شعر کہہ گیا ہے:

؎   مباش بے خبر از درسِ بے ثباتیِ عمر

کہ ہر نَفس ورقے زیں کتاب می ریزد

  (اے میاں! عمر کی بے ثباتی کا سبق دھیان سے سنا کر  کیوں کہ ہر سانس کے ساتھ  کتابِ عمر کا ایک ورق گرتا جاتا ہے)

حنفی صاحب کی بڑی بیٹی غزل کو پرسا دینے کے لیے فون کیا۔ کہنے لگیں صرف ایک ڈیڑھ مہینا پہلے ذاکر باغ سے دلّی کے ایک خوبصورت علاقے جسولا میں منتقل ہوگئے تھے۔ بڑے خوش تھے کہ گراؤنڈ فلور پر گھر ہے اور بڑا ٹھنڈا ہے۔حالت بہت زیادہ خراب ہوئی تو دن کے ڈیڑھ بجے تک کئی ہسپتالوں میں لے جائے گئے۔ آکسیجن کے انجذاب  کی سطح  خطرناک حد تک نیچے چلی گئی تھی۔ آخری جملہ جو ادا کیا یہ تھا: “بس چھوڑدو”۔ آخری سانس ایم ڈی سٹی ہاسپٹل  ماڈل ٹاؤن دہلی میں رات پونے نو بجے لیا۔ حنفی صاحب کی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ دو بیٹیوں میں غزل بڑی اور سیمیں چھوٹی ہیں۔ اللہ انھیں شاد آباد رکھے۔ سیمیں سعودی عرب میں رہتی ہیں۔ سیمیں کی بیٹی اور حنفی صاحب کی نواسی سامیہ  انگریزی میں لکھتی ہیں۔ ان کے مختصر ناول کی داد عبداللہ حسین جیسے نامور ادیب نے دے رکھی ہے۔

حنفی صاحب نے لکھا اور خوب لکھا۔ انھوں نے تنقید کو تہذیب بنا دیا۔ وہ عہدِ حاضر میں انسان کی بے وقعتی اور عالمی آشوب پر دل گرفتہ رہتے تھے جس کی مظہر ان کی متعدد تحریریں ہیں۔ برائیڈل کی “نیو ڈارک ایج” کے بڑے مداح تھے۔مرحوم نے کتنے بڑے لوگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ ان کے عزیز شاگرد اور غیر معمولی  زبان شناس عبدالرشید نے مجھے بتایا کہ  ان کی جن مشاہیر سے خط کتابت رہی ان میں احتشام حسین اور قرۃالعین کے ان کے نام سیکڑوں  خطوط ہیں جو محفوظ ہونے چاہییں۔ حنفی صاحب ان  لوگوں میں سے تھے  جنھیں پاکستان میں بھی بڑے احترام سے یاد کیا جاتا تھا۔خاکہ نگار بھی بےمثال تھے۔ ” ہم نفسوں کی بزم میں” اور ” ہم نفسوں کے درمیاں”  کے خاکے بھلائے نہیں بھولتے۔ عمر کا طویل عرصہ جامعہ نگر میں گزارا۔ جامعہ ہی کے گورستان میں سپرد خاک ہوئے جہاں عینی آپا جیسے کئی مشاہیر سوتے ہیں!

؏ حشر تک سونا پڑے گا خاک کے سائے تلے